الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب القراءات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: قرآن کریم کی قرأت و تلاوت
1. باب فِي فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
1. باب: سورۃ فاتحہ کی قرأت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2927
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهُ، يَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ثُمَّ يَقِفُ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 3 ثُمَّ يَقِفُ، وَكَانَ يَقْرَؤُهَا مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سورة الفاتحة آية 4 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَبِهِ يَقْرَأُ أَبُو عُبَيْدٍ وَيَخْتَارُهُ، وَهَكَذَا رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، وَغَيْرُهُ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، لِأَنَّ اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ، عَنْ أُمِّ سَلمَةَ، أَنَّهَا وَصَفَتْ قِرَاءَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرْفًا حَرْفًا، وَحَدِيثُ اللَّيْثِ أَصَحُّ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ اللَّيْثِ وَكَانَ يَقْرَأُ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سورة الفاتحة آية 4.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے، آپ: «الحمد لله رب العالمين» پڑھتے، پھر رک جاتے، پھر «الرحمن الرحيم» پڑھتے پھر رک جاتے، اور «ملك يوم الدين» پڑھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ابو عبید بھی یہی پڑھتے تھے اور اسی کو پسند کرتے تھے ۲؎،
۳- یحییٰ بن سعید اموی اور ان کے سوا دوسرے لوگوں نے ابن جریج سے اور ابن جریج نے ابن ابی ملیکہ کے واسطہ سے ام سلمہ سے اسی طرح روایت کی ہے، اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، کیونکہ لیث بن سعد نے یہ حدیث ابن ابی ملیکہ سے ابن ابی ملیکہ نے یعلیٰ بن مملک سے انہوں نے ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کی کیفیت ایک ایک حرف الگ کر کے بیان کی۔ لیث کی حدیث زیادہ صحیح ہے اور لیث کی حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم «ملك يوم الدين» پڑھتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب القراءات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2927]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحروف والقراءت (4001) (تحفة الأشراف: 18183) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی «مالک یوم الدین» کی جگہ «ملک یوم الدین» پڑھتے تھے۔
۲؎: یعنی: ابوعبید قاسم بن سلام «مالک یوم الدین» کے بجائے «ملک یوم الدین» کو پڑھنا پسند کرتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (343) ، المشكاة (2205) ، صفة الصلاة، مختصر الشمائل (270)

قال الشيخ زبير على زئي: (2927) إسناده ضعيف / د 4001 ¤ ابن جريح عنعن (تقدم:674) وحديث أحمد (288/6، الموسوعة الحديثية 46/44 ح 26451) يغني عنه

حدیث نمبر: 2928
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ الرَّمْلِيُّ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَأُرَاهُ قَالَ: وَعُثْمَانَ: " كَانُوا يَقْرَءُونَ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سورة الفاتحة آية 4 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هَذَا الشَّيْخِ أَيُّوبَ بْنِ سُوَيْدٍ الرَّمْلِيِّ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ: " كَانُوا يَقْرَءُونَ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سورة الفاتحة آية 4 "، وَرَوَى عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ " كَانُوا يَقْرَءُونَ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سورة الفاتحة آية 4 ".
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر و عمر رضی الله عنہما (راوی زہری کہتے ہیں کہ) اور میرا خیال ہے کہ انس رضی الله عنہ نے عثمان رضی الله عنہ کا بھی نام لیا کہ یہ سب لوگ «مالك يوم الدين» پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف زہری کی روایت سے جسے وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں صرف اس شیخ یعنی ایوب بن سوید رملی کی روایت سے ہی جانتے ہیں،
۳- زہری کے بعض اصحاب (تلامذہ) نے یہ حدیث زہری سے (مرسلاً) روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر «مالك يوم الدين» پڑھتے تھے۔ اور عبدالرزاق نے معمر سے، معمر نے زہری سے اور زہری نے سعید بن مسیب سے (مرسلاً) روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما «مالك يوم الدين» پڑھتے تھے، (یعنی: اس کو مرفوعاً صرف ایوب بن سوید ہی نے روایت کیا ہے، اور وہ ضعیف ہیں)۔ [سنن ترمذي/كتاب القراءات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2928]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1570) (ضعیف الإسناد) (سند میں ”ایوب بن محمد الرملی“ روایت میں غلطیاں کر جاتے تھے، اس روایت میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ ”الزہري عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم مرسلاً“ ہے جیسا کہ مولف نے وضاحت کی ہے، مگر دیگر سندوں سے یہ حدیث ثابت ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: (2928) إسناده ضعيف /د 4000 أيوب بن سويد :ضعيف على الراجع (د 5120)

حدیث نمبر: 2929
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَرَأَ أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ سورة المائدة آية 45 ".
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا: «أن النفس بالنفس والعين بالعين» ۱؎ «بالعين» ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ابوعلی بن یزید، یونس بن یزید کے بھائی ہیں،
۳- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اس حدیث کو یونس بن یزید سے روایت کرنے میں ابن مبارک منفرد (تنہا) ہیں،
۴- اور ابو عبید (قاسم بن سلام) نے اس حدیث کی اتباع میں اس طرح ( «العين» ‏‏‏‏ «بالعين») پڑھا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب القراءات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2929]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحروف (3976) (تحفة الأشراف: 1572) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابو علی بن یزید مجہول راوی ہے)»

وضاحت: ۱؎: یعنی: «العینُ» کی نون پر پیش کے ساتھ، جبکہ یہ «النفس» پر عطف ہے جس کا تقاضا ہے کہ نون پر بھی زبر (فتحہ) پڑھا جائے۔
۲؎: جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ ہے (المائدہ: ۴۵)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد //، ضعيف أبي داود (854 / 3976) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2929) إسناده ضعيف / د 3977 ، 3976

حدیث نمبر: 2929M
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى بن يزيد: وهذا حديث حسن غريب، قَالَ مُحَمَّدٌ: تَفَرَّدَ ابْنُ الْمُبَارَكِ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، وَهَكَذَا قَرَأَ أَبُو عُبَيْدٍ، وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ سورة المائدة آية 45 اتِّبَاعًا لِهَذَا الْحَدِيثِ.
ہم سے سوید بن نصر نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن مبارک نے یونس بن یزید سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث بیان کی۔ [سنن ترمذي/كتاب القراءات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2929M]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد //، ضعيف أبي داود (854 / 3976) //

حدیث نمبر: 2930
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمَ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ حُمَيْدٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَرَأَ " هَلْ تَسْتَطِيعُ رَبَّكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ، وَرِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، وَالْأَفْرِيقِيُّ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ.
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا «هل تستطيع ربك» ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف رشدین کی حدیث سے جانتے ہیں،
۲- اور اس کی سند قوی نہیں ہے، رشدین بن سعد اور (عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم) افریقی دونوں حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب القراءات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 2930]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11337) (ضعیف الإسناد) (سند میں عبد الرحمن بن زیاد افریقی اور رشدین بن سعد ضعیف راوی ہیں)»

وضاحت: ۱؎: مشہور قراءت یوں ہے «هل يستطيع ربك» یعنی یاء تحتانیہ اور راء کے اوپر ضمہ کے ساتھ پوری آیت اس طرح ہے «هل يستطيع ربك أن ينزل علينا مآئدة من السماء» (المائدہ: ۱۱۲) اور اس حدیث میں مذکور قراءت کسائی کی ہے، معنی ہو گا کیا تو اپنے رب سے مانگنے کی طاقت رکھتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: (2930) إسناده ضعيف ¤ رشدين وابن أنعم الافريقي ضعيفان (تقدما: 54)