الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
5. باب وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ
5. باب: سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3015
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَال: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: " مَرِضْتُ فَأَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ، فَلَمَّا أَفَقْتُ قُلْتُ: كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي؟ فَسَكَتَ عَنِّي حَتَّى نَزَلَتْ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ سورة النساء آية 11 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ.
محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کو کہتے ہوئے سنا: میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو تشریف لائے اس وقت مجھ پر بے ہوشی طاری تھی، پھر جب مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا: میں اپنے مال میں کس طرح تقسیم کروں؟ آپ یہ سن کر خاموش رہے، مجھے کوئی جواب نہیں دیا، پھر یہ آیات «يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين» نازل ہوئیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسے کئی اور لوگوں نے بھی محمد بن منکدر سے روایت کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3015]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2097 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے (النساء: ۱۱)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2728)

حدیث نمبر: 3015M
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ بْن عَبْدِ اللهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَفِي حَدِيثِ الْفَضْلِ بْنِ الصَّبَّاحِ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا.
اس سند سے ابن منکدر نے جابر کے واسطہ سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔ فضل بن صباح کی حدیث میں اس روایت سے کچھ زیادہ ہی باتیں ہیں ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3015M]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2097 (صحیح)»

وضاحت: ۲؎: فضل بن صباح کی تفصیل روایت ۲۰۹۷ پر گزر چکی ہے، وہاں آیت: «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» (النساء: 176) کا تذکرہ ہے، دیکھئیے حدیث رقم مذکور کا حاشیہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2728)

حدیث نمبر: 3016
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْهَاشِمِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: " لَمَّا كَانَ يَوْمُ أَوْطَاسٍ أَصَبْنَا نِسَاءً لَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي الْمُشْرِكِينَ فَكَرِهَهُنَّ رِجَالٌ مِنْهُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 24 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جنگ اوطاس کے موقع پر غنیمت میں ہمیں کچھ ایسی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے مشرک شوہر موجود تھے کچھ مسلمانوں نے عورتوں سے صحبت کرنے کو مکروہ جانا ۱؎ تو اللہ تعالیٰ نے آیت «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم» ۱؎ نازل فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3016]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1132 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: جبکہ غزوہ میں بطور مال غنیمت ہاتھ آئی شوہر دار عورتیں بھی اپنے مالکوں کے لیے حلال ہیں، صرف ایک ماہواری استبراء رحم کے لیے انتظار کرنا ہے۔
۲؎: اور (حرام کی گئیں) شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آ جائیں (النساء: ۲۴)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1871)

حدیث نمبر: 3017
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ الْبَتِّيُّ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: " أَصَبْنَا سَبَايَا يَوْمَ أَوْطَاسٍ لَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي قَوْمِهِنَّ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 24 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهَكَذَا رَوَى الثَّوْرِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَلَيْسَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ، وَلَا أَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا ذَكَرَ أَبَا عَلْقَمَةَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا مَا ذَكَرَ هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، وَأَبُو الْخَلِيلِ اسْمُهُ صَالِحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ جنگ اوطاس میں ہمیں کچھ ایسی قیدی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے شوہر ان کی قوم میں موجود تھے، تو لوگوں نے اس بات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا، اس پر آیت «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم» نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- ثوری نے عثمان بتی سے اور عثمان بتی نے ابوالخلیل سے اور ابوالخلیل نے ابو سعید خدری رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی،
۳-
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس حدیث میں علقمہ سے روایت کا ذکر نہیں ہے۔ (جب کہ پچھلی سند میں ہے) اور میں نہیں جانتا کہ کسی نے اس حدیث میں ابوعلقمہ کا ذکر کیا ہو سوائے ہمام کے،
۴- ابوالخلیل کا نام صالح بن ابی مریم ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3017]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 132 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (3016)

حدیث نمبر: 3018
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكَبَائِرِ، قَالَ: " الشِّرْكُ بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَقَوْلُ الزُّورِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَرَوَاهُ رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ شُعْبَةَ، وَقَالَ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، وَلَا يَصِحُّ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبیرہ گناہ: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، (ناحق) کسی کو قتل کرنا، جھوٹ کہنا یا جھوٹ بولنا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،
۲- اس کو روح بن عبادہ نے بھی شعبہ یہ روایت کیا ہے، لیکن (عبیداللہ کی جگہ عبداللہ بن ابی بکر کہا ہے، (عبیداللہ ہی صحیح ہے) لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3018]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1207 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: حدیث مولف ارشاد باری: «إن تجتنبوا كبآئر ما تنهون عنه» (النساء: 31) کی تفسیر میں لائے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (277)

حدیث نمبر: 3019
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ بَصْرِيٌّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، قَالَ: وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا، قَالَ: وَشَهَادَةُ الزُّورِ أَوْ قَالَ قَوْلُ الزُّورِ، قَالَ: فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں بڑے سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ صحابہ نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! ضرور بتائیے۔ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر اٹھ بیٹھے اور فرمایا: جھوٹی گواہی دینا، یا جھوٹی بات کہنا، آپ یہ بات باربار دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے جی میں کہنے لگے کاش آپ خاموش ہو جاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3019]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1901، و2301 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح غاية المرام (277)

حدیث نمبر: 3020
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ الْتَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَالْيَمِينُ الْغَمُوسُ، وَمَا حَلَفَ حَالِفٌ بِاللَّهِ يَمِينَ صَبْرٍ فَأَدْخَلَ فِيهَا مِثْلَ جَنَاحِ بَعُوضَةٍ إِلَّا جُعِلَتْ نُكْتَةً فِي قَلْبِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو أُمَامَةَ الْأَنْصَارِيُّ هُوَ ابْنُ ثَعْلَبَةَ وَلَا نَعْرِفُ اسْمَهُ وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن انیس جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ یہ ہیں: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ہے، جھوٹی قسم کھانا۔ تو جس کسی نے بھی ایسی قسم کھائی جس پر وہ مجبور کر دیا گیا اور (اسی پر فیصلہ کا انحصار ہے) پھر اس نے اس میں مچھر کے پر کے برابر جھوٹ شامل کر دیا تو اس کے دل میں ایک (کالا) نکتہ ڈال دیا جائے گا جو قیامت تک قائم اور باقی رہے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ابوامامہ انصاری ثعلبہ کے بیٹے ہیں اور ان کا نام ہمیں نہیں معلوم ہے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3020]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5147) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (3777 / التحقيق الثاني)

حدیث نمبر: 3021
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْكَبَائِرُ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ أَوْ قَالَ الْيَمِينُ الْغَمُوسُ " شَكَّ شُعْبَةُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبائر یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، یا کہا: جھوٹی قسم کھانا۔ اس میں شعبہ کو شک ہو گیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3021]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأیمان والنذور 16 (6675)، والدیات 2 (6870)، والمرتدین 1 (6920) (تحفة الأشراف: 8835) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3022
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " يَغْزُو الرِّجَالُ وَلَا تَغْزُو النِّسَاءُ، وَإِنَّمَا لَنَا نِصْفُ الْمِيرَاثِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: وَلا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ سورة النساء آية 32، قَالَ مُجَاهِدٌ: فَأَنْزَلَ فِيهَا إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ سورة الأحزاب آية 35 وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ أَوَّلَ ظَعِينَةٍ قَدِمَتْ الْمَدِينَةَ مُهَاجِرَةً "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ مُرْسَلٌ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: كَذَا وَكَذَا.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ مرد جنگ کرتے ہیں، عورتیں جنگ نہیں کرتیں، ہم عورتوں کو آدھی میراث ملتی ہے (یعنی مرد کے حصے کا آدھا) تو اللہ تعالیٰ نے آیت «ولا تتمنوا ما فضل الله به بعضكم على بعض» ۱؎ نازل فرمائی۔ مجاہد کہتے ہیں: انہیں کے بارے میں آیت «إن المسلمين والمسلمات» ۲؎ بھی نازل ہوئی ہے، ام سلمہ پہلی مسافرہ ہیں جو ہجرت کر کے مدینہ آئیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ مرسل حدیث ہے،
۲- اس حدیث کو بعض راویوں نے ابن ابی نجیح کے واسطہ سے مجاہد سے مرسلاً روایت کیا ہے، کہ ام سلمہ نے اس اس طرح کہا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3022]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18210) (صحیح الإسناد)»

وضاحت: ۱؎: اور اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض کے اوپر جو برتری دی ہے اس کی تمنا نہ کرو (النساء: ۳۲)، اور اس ممانعت سے مراد ایسی تمنا ہے کہ یہ چیز اس کو کیوں ملی ہے ہم کو کیوں نہیں ملی؟ یہ اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر پر اعتراض ہے، ہاں یہ تمنا جائز ہے کہ اللہ ہمیں بھی ایسی ہی نعمت سے بہرہ ور فرما دے، شرط یہ ہے کہ یہ چیز بھی اس کے لحاظ سے ممکنات میں سے ہو اپنے لیے کسی غیر ممکن اور محال چیز کی تمنا جائز نہیں، جیسے یہ کہ اللہ مجھے بھی کسی دن امریکا کا صدر بنا دے۔
۲؎: بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں … (الاحزاب: ۳۵)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: (3022) إسناده ضعيف ¤ السند مرسل وابن أبى نجيح عنعن (د 364)

حدیث نمبر: 3023
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ وَلَدِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا أَسْمَعُ اللَّهَ ذَكَرَ النِّسَاءَ فِي الْهِجْرَةِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: أَنِّي لا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ سورة آل عمران آية 195 ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول! میں عورتوں کی ہجرت کا ذکر کلام پاک میں نہیں سنتی، تو اللہ تعالیٰ نے آیت «أني لا أضيع عمل عامل منكم من ذكر أو أنثى بعضكم من بعض» ۱؎ نازل فرمائی۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3023]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18249) (صحیح) (سند میں ”رجل من ولد أم سلمہ“ مبہم ہے، سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»

وضاحت: ۱؎: تم میں سے کسی عمل صالح کرنے والے کے عمل کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت میں ہرگز ضائع نہیں کروں گا، تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو (آل عمران: ۱۹۵)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح بما قبله (3022)

حدیث نمبر: 3024
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: " أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْهِ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ حَتَّى إِذَا بَلَغْتُ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا سورة النساء آية 41، غَمَزَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَعَيْنَاهُ تَدْمَعَانِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَإِنَّمَا هُوَ إِبْرَاهِيمُ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے، آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں، چنانچہ میں نے آپ کے سامنے سورۃ نساء میں سے تلاوت کی، جب میں آیت «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا» ۱؎ پر پہنچا تو رسول اللہ نے مجھے ہاتھ سے اشارہ کیا (کہ بس کرو، آگے نہ پڑھو) میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ابولأحوص نے اعمش سے، اعمش نے ابراہیم سے اور ابراہیم نے علقمہ کے واسطہ سے، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے اسی طرح روایت کی ہے، اور حقیقت میں وہ سند یوں ہے «إبراهيم عن عبيدة عن عبد الله» ( «عن علقمة» نہیں)۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3024]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 19 (4194)، وانظر مابعدہ (تحفة الأشراف: 9428) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: پس کیا حال ہو گا اس وقت کہ جب ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے (النسا: ۴۱)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: (3024) إسناده ضعيف ¤ سليمان الأعمش عنعن (تقدم: 169) وحديث البخاري (4582) ومسلم (800) يغني عنه

حدیث نمبر: 3025
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَأْ عَلَيَّ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ؟ قَالَ: إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي، فَقَرَأْتُ سُورَةَ النِّسَاءِ حَتَّى إِذَا بَلَغْتُ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا سورة النساء آية 41 قَالَ: فَرَأَيْتُ عَيْنَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَهْمِلَانِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْأَحْوَصِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کے سامنے قرآن پڑھوں قرآن تو آپ ہی پر نازل ہوا ہے؟، آپ نے فرمایا: اپنے سے ہٹ کر دوسرے سے سننا چاہتا ہوں، تو میں نے سورۃ نساء پڑھی، جب میں آیت: «وجئنا بك على هؤلاء شهيدا» پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ آپ کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث ابوالا ٔحوص کی روایت سے صحیح تر ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3025]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر النساء 9 (4582)، وفضائل القرآن 32 (5049)، و33 (5050)، و35 (5055)، صحیح مسلم/المسافرین 40 (800)، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 9402)، و مسند احمد (1/380) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3025M
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، نَحْوَ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ هِشَامٍ.
اس سند سے ابن مبارک نے اور ابن مبارک نے سفیان کے واسطہ سے اعمش سے معاویہ بن ہشام کی حدیث جیسی حدیث روایت کی۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3025M]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3026
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: " صَنَعَ لَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ طَعَامًا، فَدَعَانَا وَسَقَانَا مِنَ الْخَمْرِ، فَأَخَذَتِ الْخَمْرُ مِنَّا، وَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَقَدَّمُونِي، فَقَرَأْتُ " قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ " لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ، وَنَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ سورة النساء آية 43 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے ہمارے لیے کھانا تیار کیا، پھر ہمیں بلا کر کھلایا اور شراب پلائی۔ شراب نے ہماری عقلیں ماؤف کر دیں، اور اسی دوران نماز کا وقت آ گیا، تو لوگوں نے مجھے (امامت کے لیے) آگے بڑھا دیا، میں نے پڑھا «قل يا أيها الكافرون لا أعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون» اے نبی! کہہ دیجئیے: کافرو! جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا، اور ہم اسی کو پوجتے ہیں جنہیں تم پوجتے ہو، تو اللہ تعالیٰ نے آیت «يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون» اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو، تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو (النساء: ۴۳) ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3026]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأشربة 1 (3671) (تحفة الأشراف: 10175) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: پھر بعد میں یہ حکم بھی منسوخ ہو گیا، یعنی شراب بالکل حرام کر دی گئی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: (3026) إسناده ضعيف ¤ عطاء بن السائب صدوق اختلط ( د 2819) وحديث أبى داود ( 3671، سنده حسن) يغني عنه

حدیث نمبر: 3027
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: سَرِّحِ الْمَاءَ يَمُرُّ، فَأَبَى عَلَيْهِ، فَاخْتَصَمُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ: " اسْقِ يَا زُبَيْرُ، وَأَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ "، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ، فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: " يَا زُبَيْرُ، اسْقِ وَاحْبِسِ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ "، فَقَالَ الزُّبَيْرُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ سورة النساء آية 65 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: قَدْ رَوَى ابْنُ وَهْبٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، وَيُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَى شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ الزُّبَيْرِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ.
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے (ان کے والد) زبیر بن العوام رضی الله عنہ سے، حرہ ۱؎ کی نالی کے معاملہ میں، جس سے لوگ کھجور کے باغات کی سینچائی کرتے تھے، جھگڑا کیا، انصاری نے زبیر رضی الله عنہ سے کہا کہ پانی کو بہنے دو تاکہ میرے کھیت میں چلا جائے ۲؎، زبیر نے انکار کیا، پھر وہ لوگ اس جھگڑے کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر سے کہا: زبیر! تم (اپنا کھیت) سینچ کر پانی پڑوسی کے کھیت میں جانے دو، (یہ سن کر) انصاری غصہ ہو گیا، اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ وہ (زبیر) آپ کے پھوپھی کے بیٹے ہیں؟ (یہ سن کر) آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا آپ نے کہا: زبیر! اپنا کھیت سینچ لو، اور پانی اتنا بھر لو کہ منڈیروں تک پہنچ جائے۔ زبیر کہتے ہیں: قسم اللہ کی میں گمان کرتا ہوں کہ آیت: «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم» سو قسم ہے تیرے رب کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں (النساء: ۶۵)۔ اسی مقدمہ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ابن وہب نے بطریق: «الليث بن سعد ويونس عن الزهري عن عروة عن عبد الله بن الزبير» اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے،
۲- اور شعیب بن ابی حمزہ نے بطریق: «الزهري عن عروة عن الزبير» روایت کی ہے اور انہوں نے اپنی روایت میں عبداللہ بن زبیر کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3027]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1363 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: مدینہ میں ایک معروف جگہ ہے
۲؎: زبیر رضی الله عنہ کا کھیت انصاری کے کھیت سے پہلے اونچائی پر پڑتا تھا، پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر کو حکم دیا کہ ضرورت کے مطابق پانی لے کر پانی چھوڑ دو، مگر جب انصاری نے الزام تراشی کر دی تو آپ نے زبیر رضی الله عنہ سے فرمایا کہ تم خوب خوب اپنا کھیت سیراب کر کے ہی پانی چھوڑ و جو تمہارا شرعی اور قانونی حق ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3028
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ يُحَدِّثُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: فَمَا لَكُمْ ينَ فِئَتَيْنِ سورة النساء آية 88، قَالَ: رَجَعَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ، فَكَانَ النَّاسُ فِيهِمْ فَرِيقَيْنِ: فَرِيقٌ يَقُولُ اقْتُلْهُمْ، وَفَرِيقٌ يَقُولُ: لَا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ سورة النساء آية 88، وَقَالَ: إِنَّهَا طِيبَةُ، وَقَالَ: إِنَّهَا تَنْفِي الْخَبَثَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْحَدِيدِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيَدَ هُوَ الْأَنْصَارِيُّ الْخَطْمِيُّ وَلَهُ صُحْبَةٌ.
عبداللہ بن یزید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ آیت: «فما لكم في المنافقين فئتين» کی تفسیر کے سلسلے میں کہتے ہیں احد کی لڑائی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ (ساتھی یعنی منافق میدان جنگ سے) لوٹ آئے ۱؎ تو لوگ ان کے سلسلے میں دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ نے کہا: انہیں قتل کر دو، اور دوسرے فریق نے کہا: نہیں، قتل نہ کرو تو یہ آیت «فما لكم في المنافقين فئتين» ۱؎ نازل ہوئی، اور آپ نے فرمایا: مدینہ پاکیزہ شہر ہے، یہ ناپاکی و گندگی کو (إن شاء اللہ) ایسے دور کر دے گا جیسے آگ لوہے کی ناپاکی (میل و زنگ) کو دور کر دیتی ہے۔ (یہ منافق یہاں رہ نہ سکیں گے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- عبداللہ بن یزید انصاری خطمی ہیں اور انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3028]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل المدینة 10 (1884)، والمغازي 17 (4050)، وتفسیر النساء 15 (4589)، صحیح مسلم/المناسک 88 (1384)، والمنافقین 6 (2776) (تحفة الأشراف: 3727) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: جہاد میں شریک نہ ہوئے۔
۲؎: تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو (النساء: ۸۸)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3029
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَجِيءُ الْمَقْتُولُ بِالْقَاتِلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاصِيَتُهُ وَرَأْسُهُ بِيَدِهِ وَأَوْدَاجُهُ تَشْخَبُ دَمًا، يَقُولُ: يَا رَبِّ هَذَا قَتَلَنِي حَتَّى يُدْنِيَهُ مِنَ الْعَرْشِ "، قَالَ: فَذَكَرُوا لِابْنِ عَبَّاسٍ التَّوْبَةَ فَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ سورة النساء آية 93، قَالَ: مَا نُسِخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلَا بُدِّلَتْ وَأَنَّى لَهُ التَّوْبَةُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنَ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن مقتول قاتل کو ساتھ لے کر آ جائے گا، اس کی پیشانی اور سر مقتول کے ہاتھ میں ہوں گے، مقتول کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا، کہے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا، (یہ کہتا ہوا) اسے لیے ہوئے عرش کے قریب جا پہنچے گا۔ راوی کہتے ہیں: لوگوں نے ابن عباس رضی الله عنہما سے توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم» ۱؎ تلاوت کی، اور کہا کہ یہ آیت نہ منسوخ ہوئی ہے اور نہ ہی تبدیل، تو پھر اس کی توبہ کیوں کر قبول ہو گی؟ ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس حدیث کو بعض راویوں نے عمر بن دینار کے واسطہ سے ابن عباس سے اسی طرح روایت کی ہے اس کو مرفوع نہیں کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3029]
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/المحاربة (تعظیم الدم) 2 (4010) (تحفة الأشراف: 6303) (وانظر أیضا: سنن النسائی/المحاربة 2 (400
4- 4009)، و48 (4870)، وسنن ابن ماجہ/الدیات 2 (2621)، و مسند احمد (1/240، 294، 364) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا (النساء: ۹۳)۔
۲؎: کسی مومن کو عمداً اور ناحق قتل کرنے والے کی توبہ قبول ہو گی یا نہیں؟ اس بابت صحابہ میں اختلاف ہے، ابن عباس رضی الله عنہما کی رائے ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی، ان کی دلیل یہی آیت ہے جوان کے بقول بالکل آخری آیت ہے، جس کو منسوخ کرنے والی کوئی آیت نہیں اتری، مگر جمہور صحابہ و سلف کی رائے ہے کہ قرآن کی دیگر آیات کا مفاد ہے کہ تمام گناہوں سے توبہ ہے، جب مشرک سے توبہ کرنے والی کی توبہ قبول ہو گی تو قاتل عمد کی توبہ کیوں قبول نہیں ہو گی۔ البتہ یہ ہے کہ اللہ مقتول کو راضی کر دیں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3465 / التحقيق الثاني) ، التعليق الرغيب (3 / 203) ، الصحيحة (2697)

حدیث نمبر: 3030
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " مَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ عَلَى نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ غَنَمٌ لَهُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ، قَالُوا: مَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا لِيَتَعَوَّذَ مِنْكُمْ؟ فَقَامُوا: فَقَتَلُوهُ وَأَخَذُوا غَنَمَهُ فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا سورة النساء آية 94 "، قَالَ أَبُو عِيسَى 12: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ بنو سلیم کا ایک آدمی صحابہ کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا، اس کے ساتھ اس کی بکریاں بھی تھیں، اس نے ان لوگوں کو سلام کیا، ان لوگوں نے کہا: اس نے تم لوگوں کی پناہ لینے کے لیے تمہیں سلام کیا ہے، پھر ان لوگوں نے بڑھ کر اسے قتل کر دیا، اس کی بکریاں اپنے قبضہ میں لے لیں۔ اور انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «يا أيها الذين آمنوا إذا ضربتم في سبيل الله فتبينوا ولا تقولوا لمن ألقى إليكم السلام لست مؤمنا» اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو تم سے سلام کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں (النساء: ۹۴) نازل فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں اسامہ بن زید سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3030]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6119) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3031
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95، جَاءَ عَمْرُو ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَكَانَ ضَرِيرَ الْبَصَرِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تَأْمُرُنِي إِنِّي ضَرِيرُ الْبَصَرِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ: غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِيتُونِي بِالْكَتِفِ وَالدَّوَاةِ أَوِ اللَّوْحِ وَالدَّوَاةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُقَالُ عَمْرُو ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، وَيُقَالُ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَائِدَةَ، وَأُمُّ مَكْتُومٍ أُمُّهُ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بیٹھے رہ جانے والے مومن برابر نہیں (النساء: ۹۵) نازل ہوئی تو عمرو بن ام مکتوم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، وہ نابینا تھے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں، میں تو اندھا ہوں؟ تو اللہ تعالیٰ نے آیت: «غير أولي الضرر» نازل فرمائی، یعنی مریض اور معذور لوگوں کو چھوڑ کر، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس شانہ کی ہڈی اور دوات لے آؤ (یا یہ کہا) تختی اور دوات لے آؤ کہ میں لکھا کر دے دوں کہ تم معذور لوگوں میں سے ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس روایت میں عمرو بن ام مکتوم رضی الله عنہ کہا گیا ہے، انہیں عبداللہ بن ام مکتوم بھی کہا جاتا ہے، وہ عبداللہ بن زائدہ ہیں، اور ام مکتوم ان کی ماں ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3031]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 31 (2831)، وتفسیر النساء 18 (4593، 4594)، وفضائل القرآن 4 (4990)، صحیح مسلم/الإمارة 40 (1898) (تحفة الأشراف: 1854) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بیٹھے رہ جانے والے مومن برابر نہیں (النساء: ۹۵)، اس کے بعد والے ٹکڑے نے بیٹھے رہ جانے والوں میں سے معذروں کو مستثنیٰ کر دیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3032
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْكَرِيمِ، سَمِعَ مِقْسَمًا مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: " لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95 عَنْ بَدْرٍ، وَالْخَارِجُونَ إِلَى بَدْرٍ لَمَّا نَزَلَتْ غَزْوَةُ بَدْرٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَحْشِ، وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ: إِنَّا أَعْمَيَانِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَهَلْ لَنَا رُخْصَةٌ؟ فَنَزَلَتْ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95 وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً، فَهَؤُلَاءِ الْقَاعِدُونَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا {95} دَرَجَاتٍ مِنْهُ سورة النساء آية 94-95 عَلَى الْقَاعِدِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرِ أُولِي الضَّرَرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَمِقْسَمٌ يُقَالُ: هُوَ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، وَيُقَالُ: هُوَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَكُنْيَتُهُ أَبُو الْقَاسِمِ.
‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير أولي الضرر» کی تفسیر میں کہتے ہیں: جب جنگ بدر کا موقع آیا تو اس موقع پر یہ آیت جنگ بدر میں شریک ہونے والے اور نہ شریک ہونے والے مسلمانوں کے متعلق نازل ہوئی۔ تو عبداللہ بن جحش اور ابن ام مکتوم رضی الله عنہما دونوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم دونوں اندھے ہیں کیا ہمارے لیے رخصت ہے کہ ہم جہاد میں نہ جائیں؟ تو آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين غير أولي الضرر» نازل ہوئی، اور اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو بیٹھے رہنے والوں پر ایک درجہ فضیلت دی ہے۔ ان بیٹھ رہنے والوں سے مراد اس آیت میں غیر معذور لوگ ہیں، باقی رہے معذور لوگ تو وہ مجاہدین کے برابر ہیں۔ اللہ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر اجر عظیم کے ذریعہ فضیلت دی ہے۔ اور بیٹھ رہنے والے مومنین پر اپنی جانب سے ان کے درجے بڑھا کر فضیلت دی ہے۔ اور یہ بیٹھ رہنے والے مومنین وہ ہیں جو بیمار و معذور نہیں ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے حسن غریب ہے،
۲- مقسم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عبداللہ بن حارث کے آزاد کردہ غلام ہیں، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ابن عباس کے آزاد کردہ غلام ہیں اور مقسم کی کنیت ابوالقاسم ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3032]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 5 (3954)، وتفسیر النساء 19 (4595) (تحفة الأشراف: 6492) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3033
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: رَأَيْتُ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَأَخْبَرَنَا، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَمْلَى عَلَيْهِ، " لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، قَالَ: فَجَاءَهُ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهُوَ يُمْلِيهَا عَلَيَّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَوْ أَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ لَجَاهَدْتُ وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي فَثَقُلَتْ حَتَّى هَمَّتْ تَرُضُّ فَخِذِي ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ نَحْوَ هَذَا، وَرَوَى مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ رِوَايَةُ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ مِنَ التَّابِعِين، رَوَاهُ سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، وَمَرْوَانُ لم يسمع من النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مِنَ التَّابِعِين.
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے مروان بن حکم کو مسجد میں بیٹھا ہوا دیکھا تو میں بھی آگے بڑھ کر ان کے پہلو میں جا بیٹھا انہوں نے ہمیں بتایا کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ نے انہیں خبر دی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں املا کرایا «‏‏‏‏(لا يستوي القاعدون من المؤمنين» «والمجاهدون في سبيل الله» گھروں میں بیٹھ رہنے والے مسلمان، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے دونوں برابر نہیں ہو سکتے اسی دوران ابن ام مکتوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ پہنچے اور آپ اس آیت کا ہمیں املا کرا رہے تھے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی، اگر میں جہاد کی طاقت رکھتا تو ضرور جہاد کرتا، وہ نابینا شخص تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر آیت «غير أولي الضرر» نازل فرمائی اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت آپ کی ران (قریب بیٹھے ہونے کی وجہ سے) میری ران پر تھی، وہ (نزول وحی کے دباؤ سے) بوجھل ہو گئی، لگتا تھا کہ میری ران پس جائے گی۔ پھر (جب نزول وحی کی کیفیت ختم ہو گئی) تو آپ کی پریشانی دور ہو گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسی طرح کئی راویوں نے زہری سے اور زہری نے سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت کی ہے،
۳- معمر نے زہری سے یہ حدیث قبیصہ بن ذویب کے واسطہ سے، قبیصہ نے زید بن ثابت سے روایت کی ہے، اور اس حدیث میں ایک روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کی ایک تابعی سے ہے، روایت کیا ہے سہل بن سعد انصاری (صحابی) نے مروان بن حکم (تابعی) سے۔ اور مروان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا ہے، وہ تابعی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3033]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 31 (2832)، وتفسیر النساء 19 (4592) (تحفة الأشراف: 3739) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3034
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَاهُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: إِنَّمَا قَالَ اللَّهُ: أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا سورة النساء آية 101، وَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ، فَقَالَ عُمَرُ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ، فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی الله عنہ سے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم» تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں پریشان کریں گے (النساء: ۱۰۱)، اور اب تو لوگ امن و امان میں ہیں (پھر قصر کیوں کر جائز ہو گی؟) عمر رضی الله عنہ نے کہا: جو بات تمہیں کھٹکی وہ مجھے بھی کھٹک چکی ہے، چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: یہ اللہ کی جانب سے تمہارے لیے ایک صدقہ ہے جو اللہ نے تمہیں عنایت فرمایا ہے، پس تم اس کے صدقے کو قبول کر لو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3034]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 1 (686)، سنن ابی داود/ الصلاة 270 (1199)، سنن النسائی/تقصیر الصلاة 1 (1434)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 73 (1065) (تحفة الأشراف: 10659)، و مسند احمد (1/25، 36)، وسنن الدارمی/الصلاة 179 (1546) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1065)

حدیث نمبر: 3035
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْهُنَائِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ بَيْنَ ضَجْنَانَ وَعُسْفَانَ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: إِنَّ لِهَؤُلَاءِ صَلَاةً هِيَ أَحَبُّ إِلَيْهِمْ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَبْنَائِهِمْ وَهِيَ الْعَصْرُ، فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ فَمِيلُوا عَلَيْهِمْ مَيْلَةً وَاحِدَةً، وَأَنَّ جِبْرِيلَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَقْسِمَ أَصْحَابَهُ شَطْرَيْنِ فَيُصَلِّيَ بِهِمْ وَتَقُومُ طَائِفَةٌ أُخْرَى وَرَاءَهُمْ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي الْآخَرُونَ وَيُصَلُّونَ مَعَهُ رَكْعَةً وَاحِدَةً ثُمَّ يَأْخُذُ هَؤُلَاءِ حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ، فَتَكُونُ لَهُمْ رَكْعَةٌ رَكْعَةٌ وَلِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَانِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيِّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَحُذَيْفَةَ، وَأَبِي بَكْرَةَ، وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، وَأَبُو عَيَّاشٍ الزُّرَقِيُّ اسْمُهُ زَيْدُ بْنُ صَامِتٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضجنان اور عسفان (نامی مقامات) کے درمیان قیام فرما ہوئے، مشرکین نے کہا: ان کے یہاں ایک نماز ہوتی ہے جو انہیں اپنے باپ بیٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے، اور وہ نماز عصر ہے، تو تم پوری طرح تیاری کر لو پھر ان پر یک بارگی ٹوٹ پڑو۔ (اس پر) جبرائیل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو حکم دیا کہ اپنے صحابہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں (ان میں سے) ایک گروہ کے ساتھ آپ نماز پڑھیں اور دوسرا گروہ ان کے پیچھے اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار لے کر کھڑا رہے۔ پھر دوسرے گروہ کے لوگ آئیں اور آپ کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں پھر یہ (پہلے گروہ والے لوگ) اپنی ڈھالیں اور ہتھیار لے کر ان کے پیچھے کھڑے رہیں ۱؎ اس طرح ان سب کی ایک ایک رکعت ہو گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعتیں ہوں گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس سند سے عبداللہ بن شقیق کی روایت سے جسے وہ ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، زید بن ثابت، ابن عباس، جابر، ابوعیاش زرقی، ابن عمر، حذیفہ، ابوبکرہ اور سہل بن ابوحشمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور ابوعیاش کا نام زید بن صامت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3035]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 13566) (صحیح الإسناد)»

وضاحت: ۱؎: یہ اشارہ ہے اس آیت کی طرف «وإذا كنت فيهم فأقمت لهم الصلاة فلتقم طآئفة منهم معك وليأخذوا أسلحتهم» (النساء: ۱۰۲)۔

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد

حدیث نمبر: 3036
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي شُعَيْبٍ أَبُو مُسْلِمٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ، قَالَ: " كَانَ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَّا يُقَالُ لَهُمْ بَنُو أُبَيْرِقٍ بِشْرٌ، وَبُشَيْرٌ، وَمُبَشِّرٌ، وَكَانَ بُشَيْرٌ رَجُلًا مُنَافِقًا يَقُولُ: الشِّعْرَ يَهْجُو بِهِ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَنْحَلُهُ بَعْضَ الْعَرَبِ، ثُمَّ يَقُولُ: قَالَ فُلَانٌ كَذَا وَكَذَا، قَالَ فُلَانٌ كَذَا وَكَذَا، فَإِذَا سَمِعَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ الشِّعْرَ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا يَقُولُ هَذَا الشِّعْرَ إِلَّا هَذَا الْخَبِيثُ أَوْ كَمَا قَالَ الرَّجُلُ، وَقَالُوا: ابْنُ الْأُبَيْرِقِ قَالَهَا، قَالَ: وَكَانُوا أَهْلَ بَيْتِ حَاجَةٍ وَفَاقَةٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَالْإِسْلَامِ، وَكَانَ النَّاسُ إِنَّمَا طَعَامُهُمْ بِالْمَدِينَةِ التَّمْرُ وَالشَّعِيرُ وَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا كَانَ لَهُ يَسَارٌ فَقَدِمَتْ ضَافِطَةٌ مِنَ الشَّامِ، مِنَ الدَّرْمَكِ، ابْتَاعَ الرَّجُلُ مِنْهَا فَخَصَّ بِهَا نَفْسَهُ، وَأَمَّا الْعِيَالُ فَإِنَّمَا طَعَامُهُمُ التَّمْرُ وَالشَّعِيرُ، فَقَدِمَتْ ضَافِطَةٌ مِنَ الشَّامِ فَابْتَاعَ عَمِّي رِفَاعَةُ بْنُ زَيْدٍ حِمْلًا مِنَ الدَّرْمَكِ، فَجَعَلَهُ فِي مَشْرَبَةٍ لَهُ، وَفِي الْمَشْرَبَةِ سِلَاحٌ وَدِرْعٌ وَسَيْفٌ، فَعُدِيَ عَلَيْهِ مِنْ تَحْتِ الْبَيْتِ فَنُقِبَتِ الْمَشْرَبَةُ وَأُخِذَ الطَّعَامُ وَالسِّلَاحُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَانِي عَمِّي رِفَاعَةُ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، إِنَّهُ قَدْ عُدِيَ عَلَيْنَا فِي لَيْلَتِنَا هَذِهِ فَنُقِبَتْ مَشْرَبَتُنَا فَذُهِبَ بِطَعَامِنَا وَسِلَاحِنَا، قَالَ: فَتَحَسَّسْنَا فِي الدَّارِ وَسَأَلْنَا، فَقِيلَ لَنَا: قَدْ رَأَيْنَا بَنِي أُبَيْرِقٍ اسْتَوْقَدُوا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ، وَلَا نَرَى فِيمَا نَرَى إِلَّا عَلَى بَعْضِ طَعَامِكُمْ، قَالَ: وَكَانَ بَنُو أُبَيْرِقٍ، قَالُوا: وَنَحْنُ نَسْأَلُ فِي الدَّارِ وَاللَّهِ مَا نُرَى صَاحِبَكُمْ إِلَّا لَبِيدَ بْنَ سَهْلٍ رَجُلٌ مِنَّا لَهُ صَلَاحٌ وَإِسْلَامٌ، فَلَمَّا سَمِعَ لَبِيدٌ اخْتَرَطَ سَيْفَهُ، وَقَالَ: أَنَا أَسْرِقُ! فَوَاللَّهِ لَيُخَالِطَنَّكُمْ هَذَا السَّيْفُ أَوْ لَتُبَيِّنُنَّ هَذِهِ السَّرِقَةَ، قَالُوا: إِلَيْكَ عَنْهَا أَيُّهَا الرَّجُلُ فَمَا أَنْتَ بِصَاحِبِهَا، فَسَأَلْنَا فِي الدَّارِ حَتَّى لَمْ نَشُكَّ أَنَّهُمْ أَصْحَابُهَا، فَقَالَ لِي عَمِّي: يَا ابْنَ أَخِي، لَوْ أَتَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتَ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ قَتَادَةُ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَهْلَ بَيْتٍ مِنَّا أَهْلَ جَفَاءٍ عَمَدُوا إِلَى عَمِّي رِفَاعَةَ بْنِ زَيْدٍ فَنَقَبُوا مَشْرَبَةً لَهُ وَأَخَذُوا سِلَاحَهُ وَطَعَامَهُ فَلْيَرُدُّوا عَلَيْنَا سِلَاحَنَا فَأَمَّا الطَّعَامُ فَلَا حَاجَةَ لَنَا فِيهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَآمُرُ فِي ذَلِكَ، فَلَمَّا سَمِعَ بَنُو أُبَيْرِقٍ أَتَوْا رَجُلًا مِنْهُمْ، يُقَالُ لَهُ: أَسَيْرُ بْنُ عُرْوَةَ فَكَلَّمُوهُ فِي ذَلِكَ، فَاجْتَمَعَ فِي ذَلِكَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ قَتَادَةَ بْنَ النُّعْمَانِ وَعَمَّهُ عَمَدَا إِلَى أَهْلِ بَيْتٍ مِنَّا أَهْلِ إِسْلَامٍ وَصَلَاحٍ يَرْمُونَهُمْ بِالسَّرِقَةِ مِنْ غَيْرِ بَيِّنَةٍ وَلَا ثَبَتٍ، قَالَ قَتَادَةُ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمْتُهُ، فَقَالَ: عَمَدْتَ إِلَى أَهْلِ بَيْتٍ ذُكِرَ مِنْهُمْ إِسْلَامٌ وَصَلَاحٌ تَرْمِهِمْ بِالسَّرِقَةِ عَلَى غَيْرِ ثَبَتٍ وَلَا بَيِّنَةٍ، قَالَ: فَرَجَعْتُ وَلَوَدِدْتُ أَنِّي خَرَجْتُ مِنْ بَعْضِ مَالِي وَلَمْ أُكَلِّمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، فَأَتَانِي عَمِّي رِفَاعَةُ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، مَا صَنَعْتَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ نَزَلَ الْقُرْآنُ إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ وَلا تَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا سورة النساء آية 105 بَنِي أُبَيْرِقٍ وَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ سورة النساء آية 106 أَيْ مِمَّا قُلْتَ لِقَتَادَةَ: إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا {106} وَلا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا {107} يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلا يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللَّهِ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورًا رَحِيمًا سورة النساء آية 106 ـ 110 أَيْ لَوِ اسْتَغْفَرُوا اللَّهَ لَغَفَرَ لَهُمْ وَمَنْ يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَى نَفْسِهِ إِلَى قَوْلِهِ وَإِثْمًا مُبِينًا سورة النساء آية 111 قَوْلَهُ لِلَبِيدٍ وَلَوْلا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ إِلَى قَوْلِهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا سورة النساء آية 113 ـ 114، فَلَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسِّلَاحِ فَرَدَّهُ إِلَى رِفَاعَةَ، فَقَالَ قَتَادَةُ: لَمَّا أَتَيْتُ عَمِّي بِالسِّلَاحِ وَكَانَ شَيْخًا قَدْ عَشَا أَوْ عَسَى فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكُنْتُ أُرَى إِسْلَامُهُ مَدْخُولًا، فَلَمَّا أَتَيْتُهُ بِالسِّلَاحِ، قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، هُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَعَرَفْتُ أَنَّ إِسْلَامَهُ كَانَ صَحِيحًا، فَلَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ لَحِقَ بُشَيْرٌ بِالْمُشْرِكِينَ فَنَزَلَ عَلَى سُلَافَةَ بِنْتِ سَعْدِ ابْنِ سُمَيَّةَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا {115} إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالا بَعِيدًا {116} سورة النساء آية 115-116 فَلَمَّا نَزَلَ عَلَى سُلَافَةَ رَمَاهَا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ بِأَبْيَاتٍ مِنْ شِعْرِهِ، فَأَخَذَتْ رَحْلَهُ فَوَضَعَتْهُ عَلَى رَأْسِهَا، ثُمَّ خَرَجَتْ بِهِ فَرَمَتْ بِهِ فِي الْأَبْطَحِ ثُمَّ قَالَتْ: أَهْدَيْتَ لِي شِعْرَ حَسَّانَ مَا كُنْتَ تَأْتِينِي بِخَيْرٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ غَيْرَ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيِّ، وَرَوَى يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ مُرْسَلٌ، لَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، وَقَتَادَةُ بْنُ النُّعْمَانِ هُوَ أَخُو أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ لِأُمِّهِ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ.
قتادہ بن نعمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (انصار) میں سے ایک خاندان ایسا تھا، جنہیں بنو ابیرق کہا جاتا تھا۔ اور وہ تین بھائی تھے، بشر، بشیر اور مبشر، بشیر منافق تھا، شعر کہتا تھا اور صحابہ کی ہجو کرتا تھا، پھر ان کو بعض عرب کی طرف منسوب کر کے کہتا تھا: فلان نے ایسا ایسا کہا، اور فلاں نے ایسا ایسا کہا ہے۔ صحابہ نے یہ شعر سنا تو کہا: اللہ کی قسم! یہ کسی اور کے نہیں بلکہ اسی خبیث کے کہے ہوئے ہیں - یا جیسا کہ راوی نے «خبیث» کی جگہ «الرجل» کہا - انہوں (یعنی صحابہ) نے کہا: یہ اشعار ابن ابیرق کے کہے ہوئے ہیں، وہ لوگ زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں ہی میں محتاج اور فاقہ زدہ لوگ تھے، مدینہ میں لوگوں کا کھانا کھجور اور جو ہی تھا، جب کسی شخص کے یہاں مالداری و کشادگی ہو جاتی اور کوئی غلوں کا تاجر شام سے سفید آٹا (میدہ) لے کر آتا تو وہ مالدار شخص اس میں سے کچھ خرید لیتا اور اسے اپنے کھانے کے لیے مخصوص کر لیتا، اور بال بچے کھجور اور جو ہی کھاتے رہتے۔ (ایک بار ایسا ہوا) ایک مال بردار شتربان شام سے آیا تو میرے چچا رفاعہ بن زید نے میدے کی ایک بوری خرید لی اور اسے اپنے اسٹاک روم میں رکھ دی، اور اس اسٹور روم میں ہتھیار، زرہ اور تلوار بھی رکھی ہوئی تھی۔ ان پر ظلم و زیادتی یہ ہوئی کہ گھر کے نیچے سے اس اسٹاک روم میں نقب لگائی گئی اور راشن اور ہتھیار سب کا سب چرا لیا گیا، صبح کے وقت میرے چچا رفاعہ میرے پاس آئے اور کہا: میرے بھتیجے آج کی رات تو مجھ پر بڑی زیادتی کی گئی۔ میرے اسٹور روم میں نقب لگائی گئی ہے اور ہمارا راشن اور ہمارا ہتھیار سب کچھ چرا لیا گیا ہے۔ ہم نے محلے میں پتہ لگانے کی کوشش کی اور لوگوں سے پوچھ تاچھ کی تو ہم سے کہا گیا کہ ہم نے بنی ابیرق کو آج رات دیکھا ہے، انہوں نے آگ جلا رکھی تھی، اور ہمارا خیال ہے کہ تمہارے ہی کھانے پر (جشن) منا رہے ہوں گے۔ (یعنی چوری کا مال پکا رہے ہوں گے) جب ہم محلے میں پوچھ تاچھ کر رہے تھے تو ابوابیرق نے کہا: قسم اللہ کی! ہمیں تو تمہارا چور لبید بن سہل ہی لگتا ہے، لبید ہم میں ایک صالح مرد اور مسلمان شخص تھے، جب لبید نے سنا کہ بنو ابیرق اس پر چوری کا الزام لگا رہے ہیں تو انہوں نے اپنی تلوار سونت لی، اور کہا میں چور ہوں؟ قسم اللہ کی! میری یہ تلوار تمہارے بیچ رہے گی یا پھر تم اس چوری کا پتہ لگا کر دو۔ لوگوں نے کہا: جناب! آپ اپنی تلوار ہم سے دور ہی رکھیں، آپ چور نہیں ہو سکتے، ہم نے محلے میں مزید پوچھ تاچھ کی، تو ہمیں اس میں شک نہیں رہ گیا کہ بنو ابیرق ہی چور ہیں۔ میرے چچا نے کہا: بھتیجے! اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے اور آپ سے اس (حادثے) کا ذکر کرتے (تو ہو سکتا ہے میرا مال مجھے مل جاتا) قتادہ بن نعمان رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، اور عرض کیا: ہمارے ہی لوگوں میں سے ایک گھر والے نے ظلم و زیادتی کی ہے۔ انہوں نے ہمارے چچا رفاعہ بن زید (کے گھر) کا رخ کیا ہے اور ان کے اسٹور روم میں نقب لگا کر ان کا ہتھیار اور ان کا راشن (کھانا) چرا لے گئے ہیں، تو ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ہتھیار ہمیں واپس دے دیں۔ راشن (غلے) کی واپسی کا ہم مطالبہ نہیں کرتے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس بارے میں مشورہ (اور پوچھ تاچھ) کے بعد ہی کوئی فیصلہ دوں گا۔ جب یہ بات بنو ابیرق نے سنی تو وہ اپنی قوم کے ایک شخص کے پاس آئے، اس شخص کو اسیر بن عروہ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے اس سے اس معاملے میں بات چیت کی اور محلے کے کچھ لوگ بھی اس معاملے میں ان کے ساتھ ایک رائے ہو گئے۔ اور ان سب نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر) کہا: اللہ کے رسول! قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا دونوں ہم ہی لوگوں میں سے ایک گھر والوں پر جو مسلمان ہیں اور بھلے لوگ ہیں بغیر کسی گواہ اور بغیر کسی ثبوت کے چوری کا الزام لگاتے ہیں۔ آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «ومن يكسب إثما فإنما يكسبه على نفسه» إلی قولہ «إثما مبينا» ۳؎ اس سے اشارہ نبی ابیرق کی اس بات کی طرف ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ چوری لبید بن سہل نے کی ہے۔ اور آگے اللہ نے فرمایا: «ولولا فضل الله عليك ورحمته» سے «فسوف نؤتيه أجرا عظيما» ۴؎ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو وہ (بنی ابیرق) ہتھیار رسول اللہ کے پاس لے آئے۔ اور آپ نے رفاعہ کو لوٹا دیئے، قتادہ کہتے ہیں: میرے چچا بوڑھے تھے اور اسلام لانے سے پہلے زمانہ جاہلیت ہی میں ان کی نگاہیں کمزور ہو چکی تھیں، اور میں سمجھتا تھا کہ ان کے ایمان میں کچھ خلل ہے لیکن جب میں ہتھیار لے کر اپنے چچا کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا: اے میرے بھتیجے! اسے میں اللہ کی راہ میں صدقہ میں دیتا ہوں، اس وقت میں نے جان لیا (اور یقین کر لیا) کہ چچا کا اسلام پختہ اور درست تھا (اور ہے) جب قرآن کی آیتیں نازل ہوئی تو بشیر مشرکوں میں جا شامل ہوا۔ اور سلافہ بنت سعد بن سمیہ کے پاس جا ٹھہرا، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء ومن يشرك بالله فقد ضل ضلالا بعيدا» نازل فرمائی ۵؎ جب وہ سلافہ کے پاس جا کر ٹھہرا تو حسان بن ثابت رضی الله عنہ نے اپنے چند اشعار کے ذریعہ اس کی ہجو کی، (یہ سن کر) اس نے سدافہ بنت سعد کا سامان اپنے سر پر رکھ کر گھر سے نکلی اور میدان میں پھینک آئی۔ پھر (اس سے) کہا: تم نے ہمیں حسان کے شعر کا تحفہ دیا ہے؟ تم سے مجھے کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، اور ہم محمد بن سلمہ حرانی کے سوا کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مرفوع کیا ہو،
۲- یونس بن بکیر اور کئی لوگوں نے اس حدیث کو محمد بن اسحاق سے اور محمد بن اسحاق نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے مرسلاً روایت کیا ہے، اور انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ عاصم نے اپنے باپ سے اور انہوں نے ان کے دادا سے روایت کی ہے،
۳- قتادہ بن نعمان، ابو سعید خدری رضی الله عنہ کے اخیافی بھائی ہیں،
۴- ابو سعید خدری سعد بن مالک بن سنان ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3036]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11075) (حسن)»

وضاحت: ۱؎: یقیناً ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ آپ لوگوں میں اس بصیرت کے مطابق فیصلہ کریں جس سے اللہ نے آپ کو نوازا ہے، اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو (النساء: ۱۰۵)۔
۲؎: اور ان کی طرف سے جھگڑا نہ کرو جو خود اپنی ہی خیانت کرتے ہیں، یقیناً دغا باز، گنہگار اللہ تعالیٰ کو اچھا نہیں لگتا، وہ لوگوں سے تو چھپ جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپ سکتے، وہ راتوں کے وقت جب کہ اللہ کے ناپسندیدہ باتوں کے خفیہ مشورے کرتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کے پاس ہوتا ہے، ان کے تمام اعمال کو وہ گھیرے ہوئے ہے، ہاں، تو یہ تم لوگ ہو کہ جنہوں نے ان لوگوں کی طرف سے دنیا کی زندگی میں جھگڑا کر لیا (ان کی حمایت کر دی) لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن ان کی حمایت کون کرے گا؟ اور وہ کون ہے جو ان کے وکیل بن کر کھڑا ہو سکے گا، جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وہ اللہ کو بخشنے والا اور مہربانی کر والا پائے گا (النساء: ۱۰۷تا۱۱۰)۔
۳؎: اور جو گناہ کرتا ہے اس کا بوجھ اسی پر ہے اور اللہ بخوبی جاننے والا اور پوری حکمت والا ہے، اور جو شخص کوئی گناہ یا خطا کر کے کسی بےگناہ کے ذمہ تھوپ دے، اس نے بہت بڑا بہتان اٹھایا اور کھلا گناہ کیا (النساء: ۱۱۱-۱۱۲)۔
۴؎: اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و رحم تجھ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے تو تجھے بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا، دراصل یہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں، یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب و حکمت اتاری ہے اور تجھے وہ سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا تھا، اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے، ان کے اکثر مصلحتیٰ مشورے خیر سے عاری ہیں، ہاں، بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے ارادے سے یہ کام کرے اسے ہم یقیناً بہت بڑا ثواب دیں گے۔
۵؎: ہدایت کے واضح ہونے کے بعد جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا اور مسلمانوں کی راہ کے خلاف چلے گا تو جدھر کا وہ رخ کرے گا ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے، اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے۔ اور جہنم بری جگہ ہے، اللہ اسے معاف نہیں کر سکتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اور شرک کے سوا جو چیز بھی اللہ جس کے لیے چاہے گا معاف کر دے گا۔ اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا وہ بہت بڑی گمراہی میں جا پڑے گا (النساء: ۱۱۵، ۱۱۶)۔

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 3037
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ ثُوَيْرِ بْنِ أَبِي فَاخِتَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: " مَا فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ هَذِهِ الْآيَةِ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ سورة النساء آية 48 "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو فَاخِتَةَ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ عِلَاقَةَ، وَثُوَيْرٌ يُكْنَى أَبَا جَهْمٍ وَهُوَ رَجُلٌ كُوفِيٌّ مِنَ التَّابِعِينَ، وَقَدْ سَمِعَ مِنَ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ مَهْدِيٍّ كَانَ يَغْمِزُهُ قَلِيلًا.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قرآن میں کوئی آیت مجھے اس آیت: «إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء» اللہ اس بات کو معاف نہیں کر سکتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، ہاں اس کے سوا جس کسی بھی چیز کو چاہے گا معاف کر دے گا (النساء: ۱۱۶)، سے زیادہ محبوب و پسندیدہ نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ابوفاختہ کا نام سعید بن علاقہ ہے،
۳- ثویر کی کنیت ابوجہم ہے اور وہ کوفہ کے رہنے والے ہیں تابعی ہیں اور ابن عمر اور ابن زبیر سے ان کا سماع ہے، ابن مہدی ان پر کچھ طعن کرتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3037]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10111) (ضعیف الإسناد) (سند میں ثویر شیعی اور ضعیف راوی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: (3037) إسناده ضعيف ¤ ثوير ضعيف رافضي (تقدم: 501)

حدیث نمبر: 3038
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي عُمَرَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْمَعْنَى وَاحِدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ مُحَيْصِنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ سورة النساء آية 123 شَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " قَارِبُوا وَسَدِّدُوا وَفِي كُلِّ مَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ كَفَّارَةٌ حَتَّى الشَّوْكَةَ يُشَاكُهَا أَوِ النَّكْبَةَ يُنْكَبُهَا "، ابْنُ مُحَيْصِنٍ هُوَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَيْصِنٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «من يعمل سوءا يجز به» جو کوئی برائی کرے گا ضرور اس کا بدلہ پائے گا (النساء: ۱۲۳)، نازل ہوئی تو یہ بات مسلمانوں پر بڑی گراں گزری، اس کی شکایت انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی، تو آپ نے فرمایا: حق کے قریب ہو جاؤ، اور سیدھے رہو، مومن کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے اس میں اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ آدمی کو کوئی کانٹا چبھ جائے یا اسے کوئی مصیبت پہنچ جائے (تو اس کے سبب سے بھی اس کے گناہ جھڑ جاتے ہیں)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3038]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البر والصلة 14 (2574) (تحفة الأشراف: 14598) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج الطحاوية (390) ، الضعيفة تحت الحديث (2924)

حدیث نمبر: 3039
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، وَعَبْدُ بْنُ حميد، قَالَا: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، أَخْبَرَنِي مَوْلَى ابْنِ سِبَاعٍ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةَ: مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلا نَصِيرًا سورة النساء آية 123، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَا أُقْرِئُكَ آيَةً أُنْزِلَتْ عَلَيَّ؟ قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَأَقْرَأَنِيهَا فَلَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنِّي قَدْ كُنْتُ وَجَدْتُ انْقِصَامًا فِي ظَهْرِي فَتَمَطَّأْتُ لَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَأْنُكَ يَا أَبَا بَكْرٍ؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي وَأَيُّنَا لَمْ يَعْمَلْ سُوءًا وَإِنَّا لَمُجْزَوْنَ بِمَا عَمِلْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا أَنْتَ يَا أَبَا بَكْرٍ وَالْمُؤْمِنُونَ فَتُجْزَوْنَ بِذَلِكَ فِي الدُّنْيَا، حَتَّى تَلْقَوْا اللَّهَ وَلَيْسَ لَكُمْ ذُنُوبٌ، وَأَمَّا الْآخَرُونَ فَيُجْمَعُ ذَلِكَ لَهُمْ حَتَّى يُجْزَوْا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، وَمُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمَوْلَى ابْنِ سِبَاعٍ مَجْهُولٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَلَيْسَ لَهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ أَيْضًا، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَائِشَةَ.
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اس وقت آپ پر یہ آیت: «من يعمل سوءا يجز به ولا يجد له من دون الله وليا ولا نصيرا» نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابوبکر! کیا میں تمہیں ایک آیت جو (ابھی) مجھ پر اتری ہے نہ پڑھا دوں؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ ابوبکر رضی الله عنہ کہتے ہیں: تو آپ نے مجھے (مذکورہ آیت) پڑھائی۔ میں نہیں جانتا کیا بات تھی، مگر میں نے اتنا پایا کہ کمر ٹوٹ رہی ہے تو میں نے اس کی وجہ سے انگڑائی لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کیا حال ہے! میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، بھلا ہم میں کون ہے ایسا جس سے کوئی برائی سرزد نہ ہوتی ہو؟ اور حال یہ ہے کہ ہم سے جو بھی عمل صادر ہو گا ہمیں اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (گھبراؤ نہیں) ابوبکر تم اور سارے مومن لوگ یہ (چھوٹی موٹی) سزائیں تمہیں اسی دنیا ہی میں دے دی جائیں گی، یہاں تک کہ جب تم اللہ سے ملو گے تو تمہارے ذمہ کوئی گناہ نہ ہو گا، البتہ دوسروں کا حال یہ ہو گا کہ ان کی برائیاں جمع اور اکٹھی ہوتی رہیں گی جن کا بدلہ انہیں قیامت کے دن دیا جائے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، اور اس کی سند میں کلام ہے،
۲- موسیٰ بن عبیدہ حدیث میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں، انہیں یحییٰ بن سعید اور احمد بن حنبل نے ضعیف کہا ہے۔ اور مولی بن سباع مجہول ہیں،
۳- اور یہ حدیث اس سند کے علاوہ سند سے ابوبکر سے مروی ہے، لیکن اس کی کوئی سند بھی صحیح نہیں ہے،
۴- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3039]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6604) (ضعیف الإسناد) (سند میں موسی بن عبیدہ ضعیف راوی ہے، اور مولی بن سباع مجہول)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (1237) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3039) إسناده ضعيف ¤ موسي بن عبيدة ضعيف (تقدم:1122) ومولي ابن سباع مجھول (تق:8521) والحديث السابق(الأصل :3038) يغني عنه

حدیث نمبر: 3040
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " خَشِيَتْ سَوْدَةُ أَنْ يُطَلِّقَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: لَا تُطَلِّقْنِي وَأَمْسِكْنِي وَاجْعَلْ يَوْمِي لِعَائِشَةَ، فَفَعَلَ فَنَزَلَتْ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ سورة النساء آية 128 "، فَمَا اصْطَلَحَا عَلَيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ جَائِزٌ كَأَنَّهُ مِنْ قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین سودہ رضی الله عنہا کو ڈر ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں طلاق دے دیں گے، تو انہوں نے عرض کیا: آپ ہمیں طلاق نہ دیں، اور مجھے اپنی بیویوں میں شامل رہنے دیں اور میری باری کا دن عائشہ رضی الله عنہا کو دے دیں، تو آپ نے ایسا ہی کیا، اس پر آیت «فلا جناح عليهما أن يصلحا بينهما صلحا والصلح خير» کوئی حرج نہیں کہ دونوں (میاں بیوی) صلح کر لیں اور صلح بہتر ہے (النساء: ۱۲۸)، تو جس بات پر بھی انہوں نے صلح کر لی، وہ جائز ہے۔ لگتا ہے کہ یہ ابن عباس رضی الله عنہما کا قول ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3040]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6122) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2020)

قال الشيخ زبير على زئي: (3040) إسناده ضعيف ¤ سليمان بن معاذ ضعيف (د 1671) وحديث البخاري (5212) و مسلم (1463) يغني عنه

حدیث نمبر: 3041
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، عَنْ أَبِي السَّفَرِ، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: " آخِرُ آيَةٍ أُنْزِلَتْ أَوْ آخِرُ شَيْءٍ نَزَلَ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ سورة النساء آية 176 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو السَّفَرِ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ أَحْمَدَ الثَّوْرِيُّ، وَيُقَالُ ابْنُ يُحْمِدَ.
براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ آخری آیت جو نازل ہوئی یا آخری چیز جو نازل کی گئی ہے وہ یہ آیت ہے «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3041]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 66 (4364)، وتفسیر النساء 27 (4605)، والفرائض 14 (6744)، صحیح مسلم/الفرائض 3 (1618)، سنن ابی داود/ الفرائض 3 (2888) (تحفة الأشراف: 1765) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: آپ سے فتوی پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتوی دیتا ہے اس آدمی کے بارے میں جس کی کوئی اولاد نہ ہو، نہ ہی ماں باپ، اللہ حکم دیتا ہے کہ ایسے آدمی کی اگر ایک بہن ہو تو اس کو جائیداد کا آدھا حصہ مل جائے گا، اگر دو بہن ہوں تو ان دونوں کو دو تہائی حصہ ملے گا اور اگر بھائی بہن مل کر ہوں تو ایک بھائی دو بہن کے برابر حصے ملے گا۔ (النساء: ۱۷۶)

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2570)

حدیث نمبر: 3042
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ سورة النساء آية 176، فَقَال لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تُجْزِئُكَ آيَةُ الصَّيْفِ ".
براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» کی تفسیر کیا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے سلسلہ میں تو تمہارے لیے آیت صیف ۱؎ کافی ہو گی۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3042]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 1906) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: آیت «صیف» گرمی کے موسم میں حجۃ الواداع کے راستہ میں نازل ہوئی۔ اور «آیت صیف» کے نام سے مشہور ہوئی۔ پوری آیت یوں ہے: «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة إن امرأ هلك ليس له ولد ــ إلى ــ فللذكر مثل حظ الأنثيين» تک (لوگ تجھ سے فتویٰ پوچھتے ہیں کہہ دو اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں بتاتا ہے)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2571)