الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
7. باب وَمِنْ سُورَةِ الأَنْعَامِ
7. باب: سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3064
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّ أَبَا جَهْلٍ، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا لَا نُكَذِّبُكَ وَلَكِنْ نُكَذِّبُ بِمَا جِئْتَ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى " فَإِنَّهُمْ لا يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ سورة الأنعام آية 33 ".
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ابوجہل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے ہیں، بلکہ آپ جو (دین قرآن) لے کر آئے ہیں اسے جھٹلاتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے آیت «فإنهم لا يكذبونك ولكن الظالمين بآيات الله يجحدون» وہ لوگ تجھ کو نہیں جھٹلاتے ہیں بلکہ ظالم لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں (الانعام: ۳۳)۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3064]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10288) (ضعیف الإسناد) (محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز معاویہ بن ہشام سے اوہام صادر ہوئے ہیں)»

قال الشيخ الألباني: (حديث علي) ضعيف الإسناد، (حديث ناجية) ضعيف أيضا

قال الشيخ زبير على زئي: (3064) إسناده ضعيف ¤ أبو إسحاق السبيعي عنعن (تقدم: 107)

حدیث نمبر: 3064M
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ نَاجِيَةَ، أَنَّ أَبَا جَهْلٍ، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَلِيٍّ وَهَذَا أَصَحُّ.
‏‏‏‏ امام ترمذی کہتے ہیں:
اس سند سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے اور سفیان سے، سفیان نے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے ناجیہ سے روایت کی ہے کہ ابوجہل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، پھر مذکورہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی، اور اس حدیث میں علی رضی الله عنہ سے روایت کا ذکر نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اور یہ (مرسل) روایت زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3064M]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: (حديث علي) ضعيف الإسناد، (حديث ناجية) ضعيف أيضا

حدیث نمبر: 3065
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ سورة الأنعام آية 65، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَعُوذُ بِوَجْهِكَ، فَلَمَّا نَزَلَتْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ سورة الأنعام آية 65، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَاتَانِ أَهْوَنُ أَوْ هَاتَانِ أَيْسَرُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ جب آیت «قل هو القادر على أن يبعث عليكم عذابا من فوقكم أو من تحت أرجلكم» کہہ دیجئیے، وہ (اللہ) قادر ہے اس بات پر کہ وہ تم پر کوئی عذاب بھیج دے اوپر سے یا نیچے سے (الانعام: ۶۵)، نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیری ذات کی پناہ لیتا ہوں پھر جب آگے «أو يلبسكم شيعا ويذيق بعضكم بأس بعض» یا تم کو مختلف فریق بنا کر ایک کو دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھا دے (الانعام: ۶۵) کا ٹکڑا نازل ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں ہی باتیں (اللہ کے لیے) آسان ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3065]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الأنعام 2 (4628)، والإعتصام 11 (7313)، والتوحید 16 (7406) (تحفة الأشراف: 2536)، و مسند احمد (3/309) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3066
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ الْغَسَّانِيِّ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ سورة الأنعام آية 65، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا إِنَّهَا كَائِنَةٌ وَلَمْ يَأْتِ تَأْوِيلُهَا بَعْدُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «قل هو القادر على أن يبعث عليكم عذابا من فوقكم أو من تحت أرجلكم» کہہ دو (اے محمد!) وہ (اللہ) قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب بھیج دے یا تمہارے پیروں کے نیچے سے (الانعام: ۶۵)، کے متعلق فرمایا: آگاہ رہو یہ تو ہو کر رہنے والی بات ہے اور ابھی تک اس کا وقوع و ظہور نہیں ہوا ہے (یعنی یہ عذاب نہیں آیا ہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3066]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3851) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابوبکر بن أبی مریم ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: (3066) إسناده ضعيف ¤ أبو بكر بن أبى مريم : ضعيف (تقدم: 1012)

حدیث نمبر: 3067
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82 شَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَأَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَهُ؟ قَالَ: " لَيْسَ ذَلِكَ إِنَّمَا هُوَ الشِّرْكُ، أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم» جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی (الأنعام ۸۲)، نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ بات گراں گزری، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں کون ایسا ہے جس سے اپنی ذات کے حق میں ظلم و زیادتی نہ ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا: (تم غلط سمجھے) ایسی بات نہیں ہے، اس ظلم سے مراد صرف شرک ہے، کیا تم لوگوں نے سنا نہیں کہ لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کیا نصیحت کی تھی؟ انہوں نے کہا تھا: «يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم» اے میرے بیٹے! شرک نہ کر، شرک بہت بڑا گناہ ہے (لقمان: ۱۳)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3067]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 23 (32)، وأحادیث الأنبیاء 8 (3360)، و41 (3428، 3429)، تفسیر الإنعام ولقمان 1 (4776)، والمرتدین 1 (6918)، و9 (6937)، صحیح مسلم/الإیمان 56 (124) (تحفة الأشراف: 9420) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3068
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: كُنْتُ مُتَّكِئًا عِنْدَ عَائِشَةَ، فَقَالَتْ: " يَا أَبَا عَائِشَةَ، ثَلَاثٌ مَنْ تَكَلَّمَ بِوَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَى اللَّهِ الْفِرْيَةَ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَى اللَّهِ، وَاللَّهُ يَقُولُ: لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ سورة الأنعام آية 103 وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ سورة الشورى آية 51 وَكُنْتُ مُتَّكِئًا فَجَلَسْتُ فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْظِرِينِي وَلَا تُعْجِلِينِي أَلَيْسَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى سورة النجم آية 13 وَلَقَدْ رَآهُ بِالأُفُقِ الْمُبِينِ سورة التكوير آية 23، قَالَتْ: أَنَا وَاللَّهِ أَوَّلُ مَنْ سَأَلَ عَنْ هَذَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّمَا ذَاكَ جِبْرِيلُ، مَا رَأَيْتُهُ فِي الصُّورَةِ الَّتِي خُلِقَ فِيهَا غَيْرَ هَاتَيْنِ الْمَرَّتَيْنِ، رَأَيْتُهُ مُنْهَبِطًا مِنَ السَّمَاءِ سَادًّا عِظَمُ خَلْقِهِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا كَتَمَ شَيْئًا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَى اللَّهِ يَقُولُ اللَّهُ: يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ سورة المائدة آية 67، وَمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَقُولُ: قُلْ لا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ الْغَيْبَ إِلا اللَّهُ سورة النمل آية 65 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ يُكْنَى أَبَا عَائِشَةَ وَهُوَ مَسْرُوقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَهَكَذَا كَانَ اسْمُهُ فِي الدِّيوَانِ.
مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا: (۱) جس نے خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے (معراج کی رات میں) اللہ کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ کی ذات کے بارے میں بڑی بہتان لگائی۔ کیونکہ اللہ اپنی ذات کے بارے میں کہتا ہے «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير» کہ اسے انسانی نگاہیں نہیں پا سکتی ہیں، اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے (یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سبھی کو دیکھ لیتا ہے) اور اس کی ذات لطیف و خبیر ہے، «وما كان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب» کسی انسان کو بھی یہ مقام و درجہ حاصل نہیں ہے کہ اللہ اس سے بغیر وحی کے یا بغیر پردے کے براہ راست اس سے بات چیت کرے، (وہ کہتے ہیں) میں ٹیک لگائے ہوئے تھا اور اٹھ بیٹھا، میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے بولنے کا موقع دیجئیے اور میرے بارے میں حکم لگانے میں جلدی نہ کیجئے گا، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: «ولقد رآه نزلة أخرى» بیشک محمد نے اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (النجم: ۱۳) «ولقد رآه بالأفق المبين» بیشک انہوں نے اسے آسمان کے روشن کنارے پر دیکھا (التکویر: ۲۳) تب عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: قسم اللہ کی! میں وہ پہلی ذات ہوں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: وہ تو جبرائیل علیہ السلام تھے (ان آیتوں میں میرے دیکھنے سے مراد جبرائیل علیہ السلام کو دیکھنا تھا، اللہ کو نہیں) ان دو مواقع کے سوا اور کوئی موقع ایسا نہیں ہے جس میں جبرائیل علیہ السلام کو میں نے ان کی اپنی اصل صورت میں دیکھا ہو۔ جس پر ان کی تخلیق ہوئی ہے، میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا ہے، ان کی بناوٹ کی بڑائی یعنی بھاری بھر کم جسامت نے آسمان و زمین کے درمیان جگہ کو گھیر رکھا تھا، (۲): اور دوسرا وہ شخص کہ جو اللہ پر جھوٹا الزام لگانے کا بڑا مجرم ہے جس نے یہ خیال کیا کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو چیزیں اتاری ہیں ان میں سے کچھ چیزیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چھپا لی ہیں۔ جب کہ اللہ کہتا ہے «يا أيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك» جو چیز اللہ کی جانب سے تم پر اتاری گئی ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو (النساء: ۶۷)، (۳): وہ شخص بھی اللہ پر جھوٹا الزام لگانے والا ہے جو یہ سمجھے کہ کل کیا ہونے والا ہے، محمد اسے جانتے ہیں، جب کہ اللہ خود کہتا ہے «قل لا يعلم من في السموات والأرض الغيب إلا الله» کہ آسمان و زمین میں غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3068]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة النجم 1 (4855)، والتوحید 4 (7380)، و 46 (7531)، صحیح مسلم/الإیمان 77 (177) (تحفة الأشراف: 17613) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3069
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ الْحَرَشِيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَكَّائِيُّ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " أَتَى أُنَاسٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَأْكُلُ مَا نَقْتُلُ وَلَا نَأْكُلُ مَا يَقْتُلُ اللَّهُ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ إِلَى قَوْلِهِ: وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ سورة الأنعام آية 118 ـ 121 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَيْضًا، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم وہ جانور کھائیں جنہیں ہم قتل (یعنی ذبح) کرتے ہیں، اور ان جانوروں کو نہ کھائیں جنہیں اللہ قتل کرتا (یعنی مار دیتا) ہے، تو اللہ نے «فكلوا مما ذكر اسم الله عليه إن كنتم بآياته مؤمنين» سے «وإن أطعتموهم إنكم لمشركون» ۱؎ تک نازل فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اور یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے،
۳- بعض نے اسے عطا بن سائب سے اور عطاء نے سعید بن جبیر کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3069]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الضحایا 13 (2819) (تحفة الأشراف: 5568) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: جو جانور اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا اس میں سے کھاؤ اگر تم اس کی آیات (حکموں) پر ایمان رکھتے ہو، کیا بات ہے (کیا وجہ ہے) کہ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے اس میں سے نہیں کھاتے ہو۔ جب کہ وہ انہیں واضح طور پر بتا چکا ہے جو چیزیں اس نے تم پر حرام کر دی ہیں، ہاں اضطراری حالت ہو تو (بقدر ضرورت) اس (حرام) میں سے کھا سکتے ہو۔ بہت سے لوگ بغیر تحقیق کیے اپنی خواہشات و خیالات کو بنیاد بنا کر بہکاتے پھرتے ہیں، تیرا رب خوب جانتا ہے کہ حد سے بڑھنے والے کون لوگ ہیں، چھوڑ دو کھلے ہوئے گناہ کو اور چھپے ہوئے گناہ کو، جو لوگ گناہ کرتے ہیں، وہ اپنے کیے کی عنقریب سزا پائیں گے۔ اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، یہ کھانا گناہ ہے، اور شیاطین اپنے اولیاء (اپنے دوستوں و عقیدت مندوں) کے دلوں میں (اس طرح کی لغو و لایعنی باتیں) ڈالتے ہیں تاکہ وہ (ان کے ذریعہ) تم سے جھگڑا کریں۔ اور (یہ جان لو) اگر تم نے ان کا کہا مانا تو تم مشرک ہو جاؤ گے (الانعام: ۱۱۸-۱۲۱)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2058 - 2059)

حدیث نمبر: 3070
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ دَاوُدَ الْأَوْدِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى الصَّحِيفَةِ الَّتِي عَلَيْهَا خَاتَمُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَقْرَأْ هَذِهِ الْآيَاتِ قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ إِلَى قَوْلِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ سورة الأنعام آية 151 ـ 153 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جسے اس بات سے خوشی ہو کہ وہ صحیفہ دیکھے جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر ہے تو اسے یہ آیات «قل تعالوا أتل ما حرم ربكم عليكم» سے «لعلكم تتقون» ۱؎ تک پڑھنی چاہیئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3070]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9467) (ضعیف الإسناد) (سند میں داود اودی ضعیف راوی ہیں)»

وضاحت: ۱؎: تم کہہ دو (میرے پاس) آؤ، میں تمہیں سنا دیتا ہوں کہ تمہارے رب نے کیا چیزیں تم پر حرام کر دی ہیں (ایک تو یہ کہ) اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو یعنی (دوم ماں باپ کی (معروف میں) نافرمانی نہ کرو، (سوم) اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے مار نہ ڈالو، ہم ہی روزی دیتے ہیں تمہیں بھی اور انہیں بھی، اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ۔ بے حیائی کھلی ہوئی دکھائی پڑ رہی ہو یا چھپی ہوئی (بظاہر نظر نہ آ رہی ہو، لیکن پس پردہ اس کا انجام برائی و بدکاری ہی ہو) اور جس جان کو اللہ نے محترم قرار دے کر حرام ٹھہرایا ہے اسے ناحق قتل نہ کرو، (مگر جب وہ خود کو اس کا سزاوار بنا دے مثلاً قصاص وغیرہ میں تو اسے قتل کیا جا سکتا ہے) یہ ہے اللہ کی تمہارے لیے وصیت تاکہ تم عقل و سمجھ سے کام لو، اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر اس طریقے سے جو احسن طریقہ ہے (اس کے مال میں بے جا تصرف نہیں کیا جا سکتا صرف ولی بہتر و مشروع طریقہ پر احتیاط کے ساتھ تصرف کا مجاز ہے اور وہ بھی اس وقت تک جب تک کہ یتیم بالغ نہ ہو جائے۔ (جب وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے تو اس کا مال اسے سپرد کر دیا جائے گا) اور ناپ و تول کو انصاف کے ساتھ پورا کرو، ہم کسی کو اس کی وسعت و طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتے۔ اور جب بات کہو تو حق کی کہو، اگرچہ وہ اپنا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ اور اللہ سے کیا ہوا اپنا عہد (نذر و قسم بشرطیکہ غیر مشروع بات کی نہ ہو) پورا کرو، تم کو یہ باتیں بتا دی ہیں تاکہ تم نصیحت پکڑو، یہ ہے میری سیدھی راہ، تو اس سیدھی راہ پر چلو، اور دیگر (ٹیڑھے میڑھے) راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اللہ کی سیدھی راہ سے بھٹکا دیں، یہ ہے جس کی تمہیں اللہ نے وصیت کر دی ہے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو (الانعام: ۱۵۱-۱۵۳)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: (3070) إسناده ضعيف ¤ داود : اثنان أحدھما ضعيف فالسند معلل لعدم تعين الراوي

حدیث نمبر: 3071
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ سورة الأنعام آية 158، قَالَ: " طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «أو يأتي بعض آيات ربك» یا تیرے رب کی بعض نشانیاں آ جائیں (الانعام: ۱۵۸)، کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد سورج کا پچھم سے نکلنا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- بعض دوسرے لوگوں نے بھی اس حدیث کو روایت کیا، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3071]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4236) (صحیح) (سند میں محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلی اور عطیہ عوفی دونوں ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3072
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " ثَلَاثٌ إِذَا خَرَجْنَ لا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ سورة الأنعام آية 158، الدَّجَّالُ، وَالدَّابَّةُ، وَطُلُوعُ الشَّمْسِ مِنَ الْمَغْرِبِ أَوْ مَنْ مَغْرِبِهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَازِمٍ هُوَ الْأَشْجَعِيُّ الْكُوفِيُّ وَاسْمُهُ سَلْمَانُ مَوْلَى عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ جب وہ ظاہر ہوں گی، تو جو شخص پہلے سے ایمان نہ لایا ہو گا اسے اس کا (بروقت) ایمان لانا فائدہ نہ پہنچا سکے گا، (۱) دجال کا ظاہر ہونا (۲) چوپائے کا نکلنا (۳) سورج کا پچھم سے نکلنا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے
۲- ابوحازم سے حازم اشجعی کوفی مراد ہیں۔ ان کا نام سلمان ہے اور وہ عزہ اشجعیہ کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3072]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 72 (158) (تحفة الأشراف: 13421) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3073
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَقَوْلُهُ الْحَقُّ: إِذَا هَمَّ عَبْدِي بِحَسَنَةٍ فَاكْتُبُوهَا لَهُ حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا لَهُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَإِذَا هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَا تَكْتُبُوهَا، فَإِنْ عَمِلَهَا فَاكْتُبُوهَا بِمِثْلِهَا، فَإِنْ تَرَكَهَا وَرُبَّمَا قَالَ لَمْ يَعْمَلْ بِهَا فَاكْتُبُوهَا لَهُ حَسَنَةً، ثُمَّ قَرَأَ مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا سورة الأنعام آية 160 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور اس کا فرمان برحق (و درست) ہے: جب میرا بندہ کسی نیکی کا قصد و ارادہ کرے، تو (میرے فرشتو!) اس کے لیے نیکی لکھ لو، اور اگر وہ اس بھلے کام کو کر گزرے تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھ لو، اور جب وہ کسی برے کام کا ارادہ کرے تو کچھ نہ لکھو، اور اگر وہ برے کام کو کر ڈالے تو صرف ایک گناہ لکھو، پھر اگر وہ اسے چھوڑ دے (کبھی راوی نے یہ کہا) اور کبھی یہ کہا (دوبارہ) اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے) تو اس کے لیے اس پر بھی ایک نیکی لکھ لو، پھر آپ نے آیت «من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها» پڑھی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
فائدہ ۱؎: جس نے نیک کام کیا ہو گا اس کو دس گنا ثواب ملے گا، اور جس نے برائی کی ہو گی اس کو اسی قدر سزا ملے گی اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا (الانعام: ۱۶۰)۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3073]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 59 (128) (وما بعدہ) (تحفة الأشراف: 13679) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (2 / 247)