الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
14. باب وَمِنْ سُورَةِ الرَّعْدِ
14. باب: سورۃ الرعد سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3117
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْوَلِيدِ، وَكَانَ يَكُونُ فِي بَنِي عِجْلٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَقْبَلَتْ يَهُودُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، أَخْبِرْنَا عَنِ الرَّعْدِ مَا هُوَ؟ قَالَ: " مَلَكٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُوَكَّلٌ بِالسَّحَابِ، مَعَهُ مَخَارِيقُ مِنْ نَارٍ يَسُوقُ بِهَا السَّحَابَ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ، فَقَالُوا: فَمَا هَذَا الصَّوْتُ الَّذِي نَسْمَعُ؟ قَالَ: زَجْرُهُ بِالسَّحَابِ إِذَا زَجَرَهُ حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى حَيْثُ أُمِرَ، قَالُوا: صَدَقْتَ، فَأَخْبِرْنَا عَمَّا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَى نَفْسِهِ؟ قَالَ: اشْتَكَى عِرْقَ النَّسَا فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا يُلَائِمُهُ إِلَّا لُحُومَ الْإِبِلِ وَأَلْبَانَهَا فَلِذَلِكَ حَرَّمَهَا، قَالُوا: صَدَقْتَ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ یہود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے کہا: اے ابوالقاسم! ہمیں «رعد» کے بارے میں بتائیے وہ کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے۔ بادلوں کو گردش دینے (ہانکنے) پر مقرر ہے، اس کے پاس آگ کے کوڑے ہیں۔ اس کے ذریعہ اللہ جہاں چاہتا ہے وہ وہاں بادلوں کو ہانک کر لے جاتا ہے۔ پھر انہوں نے کہا: یہ آواز کیسی ہے جسے ہم سنتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: یہ تو بادل کو اس کی ڈانٹ ہے، جب تک کہ جہاں پہنچنے کا حکم دیا گیا ہے نہ پہنچے ڈانٹ پڑتی ہی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا: آپ نے درست فرمایا: اچھا اب ہمیں یہ بتائیے اسرائیل (یعنی یعقوب علیہ السلام) نے اپنے آپ پر کیا چیز حرام کر لی تھی؟ آپ نے فرمایا: اسرائیل کو عرق النسا کی تکلیف ہو گئی تھی تو انہوں نے اونٹوں کے گوشت اور ان کا دودھ (بطور نذر) ۱؎ کھانا پینا حرام کر لیا تھا۔ انہوں نے کہا: آپ صحیح فرما رہے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ـ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3117]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 5445) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: مسند احمد کی روایت کے مطابق: انہوں نے نذر مانی تھی کہ اگر میں صحت یاب ہو گیا تو سب سے محبوب کھانے کو اپنے اوپر حرام کروں گا اس لیے انہوں نے اونٹوں کے گوشت اور دودھ کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1872)

حدیث نمبر: 3118
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ الثَّوْرِيُّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي قَوْلِهِ: وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ فِي الأُكُلِ سورة الرعد آية 4، قَالَ: " الدَّقَلُ وَالْفَارِسِيُّ وَالْحُلْوُ وَالْحَامِضُ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَاهُ زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ نَحْوَ هَذَا، وَسَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ هُوَ أَخُو عَمَّارِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَعَمَّارٌ أَثْبَتُ مِنْهُ وَهُوَ ابْنُ أُخْتِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس قول «ونفضل بعضها على بعض في الأكل» ہم بعض پھلوں کو بعض پر (لذت اور خوش ذائقگی میں) فضیلت دیتے ہیں (الرعد: ۴)، بارے میں فرمایا: اس سے مراد ردی اور سوکھی کھجوریں ہیں، فارسی کھجوریں ہیں، میٹھی اور کڑوی کسیلی کھجوریں ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- زید بن ابی انیسہ نے اعمش سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،
۳- اور سیف بن محمد (جو اس روایت کے راویوں میں سے ہیں) وہ عمار بن محمد کے بھائی ہیں اور عمار ان سے زیادہ ثقہ ہیں اور یہ سفیان ثوری کے بھانجے ہیں۔
فائدہ ۱؎: ان کو سیراب کرنے والا پانی ایک ہے، نشو و نما کرنے والی دھوپ، گرمی اور ہوا ایک ہے، مگر رنگ، شکلیں اور ذائقے الگ الگ ہیں، یہ اللہ کا کمال قدرت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3118]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12391) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: (3118) ضعيف ¤ الأعمش عنعن (تقدم: 169)