الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
34. باب وَمِنْ سُورَةِ الأَحْزَابِ
34. باب: سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3199
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا صَاعِدٌ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، أَخْبَرَنَا قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: قُلْنَا لِابْنِ عَبَّاسٍ، أَرَأَيْتَ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ سورة الأحزاب آية 4 مَا عَنَى بِذَلِكَ؟ قَالَ: قَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا يُصَلِّي، فَخَطَرَ خَطْرَةً، فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ الَّذِينَ يُصَلُّونَ مَعَهُ: أَلَا تَرَى أَنَّ لَهُ قَلْبَيْنِ: قَلْبًا مَعَكُمْ، وَقَلْبًا مَعَهُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ سورة الأحزاب آية 4 "،
ابوظبیان کہتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس رضی الله عنہما سے کہا: ذرا بتائیں اللہ تعالیٰ کے اس قول «ما جعل الله لرجل من قلبين في جوفه» اللہ تعالیٰ نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ہیں (الاحزاب: ۴)، کا کیا معنی و مطلب ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ سے کچھ سہو ہو گیا، آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والے منافقین نے کہا: کیا تم دیکھتے نہیں ان کے دو دل ہیں ایک تم لوگوں کے ساتھ اور ایک اوروں کے ساتھ ہے۔ اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ما جعل الله لرجل من قلبين في جوفه» نازل فرمائی۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3199]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5406) (ضعیف) (سند میں قابوس لین الحدیث راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: (الحديث الذي في سنده: حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، أخبرنا صاعد الحراني أخبرنا زهير) ضعيف الإسناد، (الحديث الذي في سنده: حدثنا عبد بن حميد حدثني أحمد بن يونس أخبرنا زهير) ضعيف أيضا

قال الشيخ زبير على زئي: (3199) إسناده ضعيف ¤ قابوس: ضعيف (تقدم : 1053)

حدیث نمبر: 3199M
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
اس سند بھی اسی طرح روایت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3199M]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: (الحديث الذي في سنده: حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، أخبرنا صاعد الحراني أخبرنا زهير) ضعيف الإسناد، (الحديث الذي في سنده: حدثنا عبد بن حميد حدثني أحمد بن يونس أخبرنا زهير) ضعيف أيضا

حدیث نمبر: 3200
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ عَمِّي أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ: سُمِّيتُ بِهِ لَمْ يَشْهَدْ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبُرَ عَلَيَّ، فَقَالَ: أَوَّلُ مَشْهَدٍ شَهِدَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غِبْتُ عَنْهُ، أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ أَرَانِي اللَّهُ مَشْهَدًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَعْدُ لَيَرَيَنَّ اللَّهُ مَا أَصْنَعُ، قَالَ: فَهَابَ أَنْ يَقُولَ غَيْرَهَا، فَشَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ مِنَ الْعَامِ الْقَابِلِ، فَاسْتَقْبَلَهُ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَمْرٍو، أَيْنَ؟ قَالَ: وَاهًا لِرِيحِ الْجَنَّةِ أَجِدُهَا دُونَ أُحُدٍ، فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ، فَوُجِدَ فِي جَسَدِهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ بَيْنِ ضَرْبَةٍ وَطَعْنَةٍ وَرَمْيَةٍ، فَقَالَتْ عَمَّتِي الرُّبَيِّعُ بِنْتُ النَّضْرِ: فَمَا عَرَفْتُ أَخِي إِلَّا بِبَنَانِهِ، وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلا سورة الأحزاب آية 23 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میرے چچا انس بن نضر رضی الله عنہ جن کے نام پر میرا نام رکھا گیا تھا جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک نہیں ہوئے تھے، یہ بات انہیں بڑی شاق اور گراں گزر رہی تھی، کہتے تھے: جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس حاضر و موجود تھے میں اس سے غیر حاضر رہا، (اس کا مجھے بےحد افسوس ہے) مگر سنو! قسم اللہ کی! اب اگر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک ہونے کا موقع ملا تو یقیناً اللہ دیکھے گا کہ میں کیا کچھ کرتا ہوں، راوی کہتے ہیں: وہ اس کے سوا اور کچھ کہنے سے ڈرتے (اور بچتے) رہے، پھر اگلے سال وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ احد میں شریک ہوئے، سعد بن معاذ رضی الله عنہ کا ان سے سامنا ہوا تو انہوں نے کہا: ابوعمرو! کہاں کا ارادہ ہے انہوں نے کہا: اے واہ! میں تو احد پہاڑ کے پرے جنت کی خوشبو پا رہا ہوں پھر وہ لڑے اور اس شان سے لڑے کہ شہید کر دیئے گئے، ان کے جسم میں اسی (۸۰) سے کچھ زائد چوٹ تیر و نیزہ کے زخم پائے گئے۔ میری پھوپھی ربیع بنت نضر رضی الله عنہا نے کہا: میں اپنے بھائی کی نعش صرف ان کی انگلیوں کے پوروں سے پہچان پائی، اسی موقع پر آیت «رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر وما بدلوا تبديلا» ایمان والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اللہ کے ساتھ جو انہوں نے وعدے کیے تھے ان میں وہ پورے اترے، ان میں سے کچھ تو انتقال کر گئے اور کچھ لوگ مرنے کے انتظار میں ہیں۔ انہوں نے اس میں یعنی (اللہ سے کیے ہوئے اپنے معاہدہ میں کسی قسم) کی تبدیلی نہیں کی (الاحزاب: ۲۳)، نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3200]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 41 (1901) (تحفة الأشراف: 406) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3201
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَمَّهُ غَابَ عَنْ قِتَالِ بَدْرٍ، فَقَالَ: غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالٍ قَاتَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُشْرِكِينَ، لَئِنْ اللَّهُ أَشْهَدَنِي قِتَالًا لَلْمُشْرِكِينَ لَيَرَيَنَّ اللَّهُ كَيْفَ أَصْنَعُ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ انْكَشَفَ الْمُسْلِمُونَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا جَاءَ بِهِ هَؤُلَاءِ، يَعْنِي الْمُشْرِكِينَ وَأَعْتَذِرُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَاءِ يَعْنِي أَصْحَابَهُ، ثُمَّ تَقَدَّمَ فَلَقِيَهُ سَعْدٌ، فَقَالَ: يَا أَخِي مَا فَعَلْتَ، أَنَا مَعَكَ فَلَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَصْنَعَ مَا صَنَعَ، فَوُجِدَ فِيهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ ضَرْبَةٍ بِسَيْفٍ وَطَعْنَةٍ بِرُمْحٍ وَرَمْيَةٍ بِسَهْمٍ، فَكُنَّا نَقُولُ فِيهِ وَفِي أَصْحَابِهِ نَزَلَتْ: فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ سورة الأحزاب آية 23 قَالَ يَزِيدُ يَعْنِي هَذِهِ الْآيَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاسْمُ عَمِّهِ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کے چچا (انس بن نضر) بدر کی لڑائی میں غیر حاضر تھے، انہوں نے (افسوس کرتے ہوئے) کہا: اس پہلی لڑائی میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے لڑائی میں غیر موجود رہا، اب اگر اللہ نے مشرکین سے مجھے کسی جنگ میں لڑنے کا موقع دیا تو اللہ ضرور دیکھے گا کہ میں (بے جگری و بہادری سے کس طرح لڑتا اور) کیا کرتا ہوں۔ پھر جب جنگ احد کی لڑائی کا موقع آیا، اور مسلمان (میدان سے) چھٹ گئے تو انہوں نے کہا: اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس شر سے جسے یہ لوگ یعنی مشرکین لے کر آئے ہیں اور ان سے یعنی آپ کے صحابہ سے جو غلطی سرزد ہوئی ہے، اس کے لیے تجھ سے معذرت خواہ ہوں، پھر وہ آگے بڑھے، ان سے سعد بن معاذ رضی الله عنہ کی ملاقات ہوئی، سعد نے ان سے کہا: میرے بھائی! آپ جو بھی کریں میں آپ کے ساتھ ساتھ ہوں، (سعد کہتے ہیں) لیکن انہوں نے جو کچھ کیا وہ میں نہ کر سکا، ان کی لاش پر تلوار کی مار کے، نیزے گھوپنے کے اور تیر لگنے کے اسّی (۸۰) سے کچھ زیادہ ہی زخم تھے، ہم کہتے تھے کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں آیت «فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر» اتری ہے۔ یزید (راوی) کہتے ہیں: اس سے مراد یہ (پوری) آیت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- انس بن مالک کے چچا کا نام انس بن نضر رضی الله عنہما ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3201]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 808) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3202
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: أَلَا أُبَشِّرُكَ، فَقُلْتُ: بَلَى، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " طَلْحَةُ مِمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِنَّمَا رُوِيَ هَذَا عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِيهِ.
موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں معاویہ رضی الله عنہ کے پاس گیا تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں ایک خوشخبری نہ سنا دوں؟ میں نے کہا: ضرور، سنائیے، کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طلحہ رضی الله عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے «ممن قضى نحبه» فرمایا ہے، یعنی جو اپنا کام پورا کر چکے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے معاویہ رضی الله عنہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- جبکہ یہ حدیث موسیٰ بن طلحہ صرف طلحہ کی حدیث سے روایت کی جاتی ہے، (جو آگے آ رہی ہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3202]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (126) (تحفة الأشراف: 11445) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (126)

قال الشيخ زبير على زئي: (3202) إسناده ضعيف /جه 127۔126، يأتي :3740 ¤ إسحاق بن يحيي بن طلحة ضعيف (تقدم:2654) والحديث الأتي (الأصل :3203) يغني عنه

حدیث نمبر: 3203
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ مُوسَى، وَعِيسَى ابني طلحة، عَنْ أَبِيهِمَا طَلْحَةَ، أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا لِأَعْرَابِيٍّ جَاهِلٍ: سَلْهُ عَمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ مَنْ هُوَ؟ وَكَانُوا لَا يَجْتَرِئُونَ عَلَى مَسْأَلَتِهِ يُوَقِّرُونَهُ وَيَهَابُونَهُ، فَسَأَلَهُ الْأَعْرَابِيُّ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ إِنِّي اطَّلَعْتُ مِنْ بَابِ الْمَسْجِدِ وَعَلَيَّ ثِيَابٌ خُضْرٌ، فَلَمَّا رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَيْنَ السَّائِلُ عَمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ؟ " قَالَ الأَعْرَابِيُّ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَذَا مِمَّنْ قَضَى نَحْبَهُ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يُونُسَ بْنِ بُكَيْرٍ.
طلحہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے ایک جاہل دیہاتی سے کہا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے «ممن قضى نحبه» سے متعلق پوچھے کہ اس سے مراد کیا ہے؟ وہ لوگ خود آپ سے یہ سوال پوچھنے کی ہمت نہیں کر رہے تھے، وہ آپ کا ادب و احترام کرتے تھے اور آپ سے ڈرتے بھی تھے، اعرابی نے آپ سے پوچھا، مگر آپ نے اعراض کیا، اس نے پھر پوچھا، آپ نے پھر اس کی طرف توجہ نہ دی، اس نے پھر پوچھا: آپ نے پھر بےرخی برتی، پھر میں مسجد کے دروازے سے نمودار ہوا اور (اندر آیا) میں (نمایاں) سبز کپڑے پہنے ہوئے تھا، جب آپ نے مجھے دیکھا تو آپ نے فرمایا: «ممن قضى نحبه» سے متعلق پوچھنے والا شخص کہاں ہے؟ اعرابی، (گنوار دیہاتی) نے کہا: اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شخص (طلحہ) انہی لوگوں میں سے ہے، جنہوں نے اپنے کام اور ذمہ داریاں پوری کر دی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف یونس بن بکیر کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3203]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5005) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، الصحيحة (1 / 36)

حدیث نمبر: 3204
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِهِ بَدَأَ بِي، فَقَالَ: " يَا عَائِشَةُ إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَسْتَعْجِلِي حَتَّى تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ "، قَالَتْ: وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَايَ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ، قَالَتْ: ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، يَقُولُ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ حَتَّى بَلَغَ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا سورة الأحزاب آية 28 ـ 29، فَقُلْتُ: فِي أَيِّ هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ، فَإِنِّي أُرِيدُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ، وَفَعَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا أَيْضًا عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دے دیں ۱؎ تو آپ نے اپنی اس کاروائی کی ابتداء مجھ سے کی: آپ نے کہا: عائشہ! میں تمہارے سامنے ایک معاملہ رکھتا ہوں، تم اپنے ماں باپ سے مشورہ لیے بغیر جواب دہی میں جلد بازی نہ کرنا، عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ آپ خوب سمجھتے تھے کہ میرے والدین مجھے آپ سے جدائی و علیحدگی اختیار کر لینے کا حکم نہیں دے سکتے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «يا أيها النبي قل لأزواجك إن كنتن تردن الحياة الدنيا وزينتها فتعالين» سے لے کر یہاں تک «للمحسنات منكن أجرا عظيما» ۲؎ میں نے کہا: کیا میں اس بارے میں ماں باپ سے مشورہ لوں؟ (نہیں مجھے کسی مشورہ کی ضرورت نہیں) میں اللہ اور اس کے رسول کو چاہتی ہوں اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہوں، آپ کی دیگر بیویوں نے بھی ویسا ہی کچھ کہا جیسا میں نے کہا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث زہری سے بھی مروی ہے، زہری نے عروہ سے اور عروہ نے عائشہ سے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3204]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الأحزاب 4 (4785)، صحیح مسلم/الطلاق 4 (1475)، سنن النسائی/النکاح 2 (3203)، والطلاق 26 (3469)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 20 (2053) (تحفة الأشراف: 17767)، و مسند احمد (6/78، 103، 185، 248، 264)، وسنن الدارمی/الطلاق 5 (2274) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی وہ چاہیں تو آپ کے ساتھ رہیں اور تنگی کی زندگی گزاریں، اور اگر دنیا اور دنیا کی زینت چاہتی ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دیں۔
۲؎: اے نبی! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئیے کہ تمہیں اگر دنیا اور دنیا کی زینت چاہیئے تو آؤ میں کچھ دے کر چھوڑ چھاڑ دوں، (طلاق کے ساتھ کچھ مال دے کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں) اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کو چاہتی ہو اور آخرت کا گھر تمہیں مطلوب ہے تو اللہ نے تم نیکو کاروں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے (الاحزاب: ۲۸-۲۹)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3205
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، رَبِيبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا سورة الأحزاب آية 33 فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، فَدَعَا فَاطِمَةَ، وَحَسَنًا، وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَاءٍ، ثُمَّ قَالَ: " اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا "، قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَأَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ: " أَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَأَنْتِ عَلَى خَيْرٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر پرورش عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا» اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والو! تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے (الاحزاب: ۳۳)، ام سلمہ رضی الله عنہا کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو آپ نے فاطمہ و حسن حسین (رضی الله عنہم) کو بلایا اور انہیں ایک چادر کے نیچے ڈھانپ دیا، علی رضی الله عنہ آپ کی پیٹھ کے پیچھے تھے آپ نے انہیں بھی چادر کے نیچے کر لیا، پھر فرمایا: اے اللہ یہ ہیں میرے اہل بیت، میرے گھر والے، ان سے ناپاکی دور کر دے اور انہیں ہر طرح کی آلائشوں سے پوری طرح پاک و صاف کر دے، ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: اور میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں، اے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا: تم اپنی جگہ ہی ٹھیک ہو، تمہیں خیر ہی کا مقام و درجہ حاصل ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے جسے عطاء عمر بن ابی سلمہ سے روایت کرتے ہیں غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3205]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف و أعادہ في المناقب 32 (برقم 3787) (تحفة الأشراف: 10687) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی اس آیت میں وارد «اہل البیت» سے مراد بتصریح نبوی علی، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں، ازواج مطہرات کو اگرچہ دیگر فضیلتیں حاصل ہیں مگر وہ اس آیت کے اس لفظ کے مفہوم میں داخل نہیں ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (976 و 1190)

حدیث نمبر: 3206
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمُرُّ بِبَابِ فَاطِمَةَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ إِذَا خَرَجَ إِلَى صَلَاةِ الْفَجْرِ، يَقُولُ: الصَّلَاةَ يَا أَهْلَ الْبَيْتِ: إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا سورة الأحزاب آية 33 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي الْحَمْرَاءِ، وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، وَأُمِّ سَلَمَةَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی الله عنہا کے دروازے کے سامنے سے چھ مہینے تک گزرتے رہے، جب فجر کے لیے نکلتے تو آپ کا معمول تھا کہ آپ آواز دیتے «الصلاة يا أهل البيت» اے میرے گھر والو! نماز فجر کے لیے اٹھو «إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا» اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری نجاست تم سے دور کر دے اور تمہیں پورے طور پر پاک کر دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ہم اسے صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے ہی جانتے ہیں،
۲- اس باب میں ابوالحمراء، معقل بن یسار اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3206]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1099) (ضعیف) (سند میں ”علی بن زید بن جدعان“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف المصدر نفسه //، الروض النضير (976 و 1190) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3206) إسناده ضعيف ¤ علي بن زيد: ضعيف (تقدم:589)

حدیث نمبر: 3207
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَوْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَاتِمًا شَيْئًا مِنَ الْوَحْيِ لَكَتَمَ هَذِهِ الْآيَةَ: " وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَعْنِي بِالْإِسْلَامِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ يَعْنِي بِالْعِتْقِ فَأَعْتَقْتَهُ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ إِلَى قَوْلِهِ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولا سورة الأحزاب آية 37، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا تَزَوَّجَهَا، قَالُوا: تَزَوَّجَ حَلِيلَةَ ابْنِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ سورة الأحزاب آية 40، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبَنَّاهُ وَهُوَ صَغِيرٌ، فَلَبِثَ حَتَّى صَارَ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ: زَيْدُ بْنُ مُحَمَّدٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ سورة الأحزاب آية 5 فُلَانٌ مَوْلَى فُلَانٍ وَفُلَانٌ أَخُو فُلَانٍ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5 يَعْنِي أَعْدَلُ عِنْدَ اللهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، قَدْ رُوِيَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " لَوْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَاتِمًا شَيْئًا مِنَ الْوَحْيِ لَكَتَمَ هَذِهِ الْآيَةَ: وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ سورة الأحزاب آية 37 " هَذَا الْحَرْفُ لَمْ يُرْوَ بِطُولِهِ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَضَّاحٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کی کوئی چیز چھپا لینے والے ہوتے تو یہ آیت «وإذ تقول للذي أنعم الله عليه» جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اسلام کے ذریعہ انعام کیے تھے اور آپ نے بھی (اسے آزاد کر کے) اس پر انعام و احسان کیے تھے کہہ رہے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دو (طلاق نہ دو) اور اللہ سے ڈرو، اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا تم لوگوں کے (لعن طعن) سے ڈرتے تھے اور اللہ اس کا زیادہ سزاوار ہے کہ تم اس سے ڈرو، سے لے کر «وكان أمر الله مفعولا» تک چھپا لیتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان سے (زینب سے) شادی کر لی تو لوگوں نے کہا: آپ نے اپنے (لے پالک) بیٹے کی بیوی سے شادی کر لی، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ما كان محمد أبا أحد من رجالكم ولكن رسول الله وخاتم النبيين» محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم لوگوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین (آخری نبی) ہیں، نازل فرمائی، زید چھوٹے تھے تبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا، وہ برابر آپ کے پاس رہے یہاں تک کہ جوان ہو گئے، اور ان کو زید بن محمد کہا جانے لگا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم» انہیں ان کے (اصلی باپ کی طرف) منسوب کر کے پکارو (جن کے نطفے سے وہ پیدا ہوئے ہیں) یہ اللہ کے نزدیک زیادہ مبنی بر انصاف بات ہے، لیکن اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو (کہ وہ کون ہیں) تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، فلاں فلاں کا دوست ہے اور فلاں فلاں کا دینی بھائی ہے ۴؎، «هو أقسط عند الله» یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف پر مبنی کا مفہوم یہ ہے کہ پورا انصاف ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے۔ اس سند سے مسروق نے عائشہ سے روایت کی ہے، وہ کہتی ہیں: اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وحی میں سے کچھ چھپانے والے ہوتے تو آپ یہ آیت «وإذ تقول للذي أنعم الله عليه وأنعمت عليه» چھپاتے، (اس روایت میں) یہ حدیث کی پوری روایت نہیں کی گئی ہے ۵؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3207]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 16169) (ضعیف الإسناد جداً)»

وضاحت: ۴؎: اگر وہ آزاد ہوں تو ترجمہ ہو گا فلاں فلاں کے دوست، حلیف اور اگر آزاد کردہ غلام ہوں تو ترجمہ ہو گا فلاں فلاں کا آزاد کردہ غلام یہی بات «موالیکم» کے ترجمہ میں بھی ملحوظ رہے۔
۵؎: یعنی: اس حدیث کی دو سندوں میں شعبی کے بعد مسروق کا اضافہ ہے، اور یہی سندیں متصل ہیں (یہ آگے آ رہی ہیں) پہلی سند میں انقطاع ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد جدا

قال الشيخ زبير على زئي: (3207) إسناده ضعيف جدًا¤ داود بن الزبرقان: متروك وكذبه الأزدي (تق:1785) والحديث الاتي (الأصل :3208) يغني عنه

حدیث نمبر: 3208
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " لَوْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَاتِمًا شَيْئًا مِنَ الْوَحْيِ لَكَتَمَ هَذِهِ الْآيَةَ: وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ سورة الأحزاب آية 37 " الْآيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی میں سے کوئی چیز چھپا لینے والے ہوتے تو آیت «وإذ تقول للذي أنعم الله عليه وأنعمت عليه» کو چھپاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3208]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر صحیح مسلم/الإیمان 77 177/288) (تحفة الأشراف: 1726) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح ومضى مطولا (3276)

حدیث نمبر: 3209
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: مَا كُنَّا نَدْعُو زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ إِلَّا زَيْدَ ابْنَ مُحَمَّدٍ، حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ: ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمد کہہ کر ہی پکارتے تھے یہاں تک کہ قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی: «ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله» ایسے لوگوں کو ان کے اصلی باپوں کے ناموں کے ساتھ پکارو یہی اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے (الاحزاب: ۵)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3209]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب 2 (4782)، و5 (4786)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 10 (2425)، ویأتي عند المؤلف في المناقب (3814) (تحفة الأشراف: 7021) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3210
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ البَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيّ، فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ سورة الأحزاب آية 40، قَالَ: مَا كَانَ لِيَعِيشَ لَهُ فِيكُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ.
‏‏‏‏ عامر شعبی اللہ کے اس قول «ما كان محمد أبا أحد من رجالكم» (لوگو!) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہیں (الاحزاب: ۴۰)، کے بارے میں کہتے ہیں: اس سے مراد زندہ نہ رہنے والی نرینہ اولاد ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3210]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (ضعیف الإسناد) (سند میں ”مسلمہ بن علقمہ“ صدوق ہیں، لیکن ان سے احادیث میں اوہام پائے جاتے ہیں)»

وضاحت: ۱؎: ورنہ نرینہ اولاد تو آپ کے یہاں بھی پیدا ہوئی ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف مقطوع

حدیث نمبر: 3211
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ حُسَيْنٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أُمِّ عُمَارَةَ الْأَنْصَارِيَّةِ، أَنَّهَا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا أَرَى كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا لِلرِّجَالِ، وَمَا أَرَى النِّسَاءَ يُذْكَرْنَ بِشَيْءٍ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ:إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ سورة الأحزاب آية 35 الْآيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ام عمارہ انصاریہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: کیا بات ہے میں ہر چیز مردوں ہی کے لیے دیکھتی ہوں اور عورتوں کا (قرآن میں) کہیں ذکر نہیں ملتا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «إن المسلمين والمسلمات والمؤمنين والمؤمنات» آخر آیت تک۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، اور یہ حدیث صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3211]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18337) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

حدیث نمبر: 3212
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ سورة الأحزاب آية 37 فِي شَأْنِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ جَاءَ زَيْدٌ يَشْكُو، فَهَمَّ بِطَلَاقِهَا، فَاسْتَأْمَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ آیت «وتخفي في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس» تم اس چیز کو اپنے جی میں چھپا کر رکھ رہے ہو جس کو اللہ ظاہر کرنے والا ہے، اور تم (اللہ سے ڈرنے کی بجائے) لوگوں سے ڈر رہے ہو (الاحزاب: ۳۷)، زینب بنت جحش رضی الله عنہا کی شان میں نازل ہوئی ہے (ان کے شوہر) زید شکایت لے کر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) آئے اور انہوں نے زینب کو طلاق دینے کا ارادہ کر لیا، اس پر انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ لیا تو آپ نے فرمایا: «أمسك عليك زوجك واتق الله» اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو (طلاق نہ دو) اور اللہ سے ڈرو (الاحزاب: ۳۷) ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3212]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب 6 (4787)، والتوحید 22 (7420) (تحفة الأشراف: 296) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہاں ایک جھوٹی روایت لوگوں نے گھڑ رکھی ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل میں ان کی بات چھپا رکھی تھی وہ یہ کہ وہ زینب سے محبت کرتے تھے اور خود ان سے شادی چاہتے تھے اس لیے چاہتے تھے کہ زید جلد طلاق دے دیں معاذاللہ، حالانکہ جس بات کے چھپانے کی طرف اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارہ کر رہا ہے، وہ یہ تھی کہ: اچھا ہوتا کہ زید زینب کو نہیں چھوڑتے، ورنہ بحکم الٰہی زینب سے مجھے ہی شادی کرنی ہو گی، تب لوگ کہیں گے: لو محمد نے اپنے لے پالک بیٹے کی مطلقہ سے شادی کر لی (یہ چیز ان کے یہاں معیوب سمجھی جاتی تھی) اسی کو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ایک دن اللہ اس کو ظاہر کر دے گا، اس شادی میں سماج سے ایک غلط روایت کو دور کرنا ہے، اور لوگوں کو صحیح بات بتانی ہے کہ لے پالک بیٹا صلبی بیٹا نہیں ہوتا کہ اس کی مطلقہ یا بیوہ حرام ہو جائے، اسی طرح لے پالک سے، دیگر خونی معاملات میں حرمت و حلت کی بات صحیح نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3213
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا سورة الأحزاب آية 37 قَالَ: فَكَانَتْ تَفْخَرُ عَلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: زَوَّجَكُنَّ أَهْلُكُنَّ، وَزَوَّجَنِي اللَّهُ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت «فلما قضى زيد منها وطرا زوجناكها» زید نے جب ان سے اپنی حاجت پوری کر لی (انہیں طلاق دے دی) تو ہم نے تمہاری شادی اس سے کر دی (الاحزاب: ۳۷)، زینب بنت جحش رضی الله عنہا کے بارے میں اتری ہے۔ انس کہتے ہیں: چنانچہ اسی بناء پر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں پر یہ کہہ کر فخر کرتی تھیں کہ تمہاری شادیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہارے گھر والوں (رشتہ داروں) نے کی ہیں، اور میری شادی تو اللہ نے آپ سے ساتویں آسمان پر کر دی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3213]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التوحید 22 (7421)، سنن النسائی/النکاح 26 (3254) (تحفة الأشراف: 307، و مسند احمد (3/226) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر العلو (84 / 6)

حدیث نمبر: 3214
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَتْ: " خَطَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاعْتَذَرْتُ إِلَيْهِ فَعَذَرَنِي، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ سورة الأحزاب آية 50 الْآيَةَ، قَالَتْ: فَلَمْ أَكُنْ أَحِلُّ لَهُ لِأَنِّي لَمْ أُهَاجِرْ، كُنْتُ مِنَ الطُّلَقَاءِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ السُّدِّيِّ.
ام ہانی بنت ابی طالب رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شادی کا پیغام دیا، تو میں نے آپ سے معذرت کر لی ۱؎ تو آپ نے میری معذرت قبول کر لی، پھر اللہ نے یہ آیت «إنا أحللنا لك أزواجك اللاتي آتيت أجورهن وما ملكت يمينك مما أفاء الله عليك وبنات عمك وبنات عماتك وبنات خالك وبنات خالاتك اللاتي هاجرن معك وامرأة مؤمنة إن وهبت نفسها للنبي» اے نبی ہم نے تیرے لیے تیری وہ بیویاں حلال کر دی ہیں جنہیں تو ان کے مہر دے چکا ہے اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں اور تیرے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموؤں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ باایمان عورت جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کر دے (الاحزاب: ۵۰)، نازل فرمائی ام ہانی کہتی ہیں کہ اس آیت کی رو سے میں آپ کے لیے حلال نہیں ہوئی کیونکہ میں نے ہجرت نہیں کی تھی میں (فتح مکہ کے موقع پر) «الطلقاء» آزاد کردہ لوگوں میں سے تھی، (اور اسی موقع پر ایمان لائی تھی)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ہم اس کو سُدّی کی روایت صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3214]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 17999) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابو صالح باذام مولی ام ہانی ضعیف مدلس راوی ہے)»

وضاحت: ۱؎: یہ معذرت اس وجہ سے تھی کہ ان کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور وہ اس بات سے ڈریں کہ ان کے رونے پیٹنے سے کہیں آپ کو تکلیف نہ ہو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد جدا

قال الشيخ زبير على زئي: (3214) إسناده ضعيف ¤ أبو صالح: ضعيف (تقدم:732)

حدیث نمبر: 3215
حَدَّثَنَا عَبْدٌ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ بَهْرَامَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا " نُهِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَصْنَافِ النِّسَاءِ إِلَّا مَا كَانَ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ الْمُهَاجِرَاتِ "، قَالَ: لا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ سورة الأحزاب آية 52 فَأَحَلَّ اللَّهُ فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ سورة الأحزاب آية 50، وَحَرَّمَ كُلَّ ذَاتِ دِينٍ غَيْرَ الْإِسْلَامِ، ثُمَّ قَالَ: وَمَنْ يَكْفُرْ بِالإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ سورة المائدة آية 5 وَقَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ إِلَى قَوْلِهِ خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ سورة الأحزاب آية 50 وَحَرَّمَ مَا سِوَى ذَلِكَ مِنْ أَصْنَافِ النِّسَاءِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ بَهْرَامَ، قَالَ: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَذْكُرُ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ: لَا بَأْسَ بِحَدِيثِ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ بَهْرَامَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مومن اور مہاجر عورتوں کے سوا دوسری عورتوں سے شادی کرنے سے روک دیا گیا، (جیسا کہ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «لا يحل لك النساء من بعد ولا أن تبدل بهن من أزواج ولو أعجبك حسنهن إلا ما ملكت يمينك» آپ کے لیے آج کے بعد کوئی عورت حلال نہیں، اور آپ کے لیے یہ بھی حلال نہیں کہ موجودہ بیویوں میں سے کسی بیوی کو ہٹا کر من بھائی عورت سے شادی کر لیں، سوائے ان لونڈیوں کے جن کے آپ مالک بن جائیں (الاحزاب: ۵۲)، اللہ نے (نبی کے لیے) تمہاری جوان مومن مسلمان عورتیں حلال کر دی ہیں۔ «وامرأة مؤمنة إن وهبت نفسها للنبي» اور وہ ایمان والی عورت بھی اللہ نے حلال کر دی ہیں جو اپنے آپ کو نبی کو پیش کر دے، اور اسلام کے سوا ہر دین والی عورت کو حرام کر دیا ہے۔ پھر اللہ نے فرمایا: «ومن يكفر بالإيمان فقد حبط عمله وهو في الآخرة من الخاسرين» جو ایمان کا منکر ہوا اس کا عمل ضائع گیا، اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہو گا (المائدہ: ۵)، اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے «يا أيها النبي إنا أحللنا لك أزواجك اللاتي آتيت أجورهن وما ملكت يمينك مما أفاء الله عليك» سے لے کر «خالصة لك من دون المؤمن» اے نبی! ہم نے تیرے لیے تیری وہ بیویاں حلال کر دی ہیں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں اور وہ باندیاں تمہارے لیے حلال کر دی ہیں جو اللہ نے تمہیں بطور مال فیٔ (غنیمت) میں عطا فرمائی ہیں (الاحزاب: ۵۰)، تک، یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے ۱؎ اور دوسرے مومنین کے لیے نہیں (ان کا نکاح بغیر مہر کے نہیں ہو سکتا) ان کے علاوہ عورتوں کی اور قسمیں حرام کر دی گئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے۔ ہم اسے عبدالحمید بن بہرام کی روایت ہی سے جانتے ہیں،
۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: عبدالحمید بن بہرام کی شہر بن حوشب سے روایات کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3215]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5683) (ضعیف الإسناد) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں)»

وضاحت: ۱؎: اس خاص حکم سے مراد یہ ہے کہ نبی کے سوا کسی اور مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ بغیر مہر اور بغیر ولی کے عورت سے شادی کر لے، اپنے آپ کو بغیر مہر کے ہبہ کرنا صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، اس کا تعلق چچا زاد، پھوپھی زاد خالہ زاد اور ماموں زاد بہنوں سے شادی سے نہیں ہے، جبکہ اس دور کے بعض متجددین نے یہ شوشہ چھوڑا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

حدیث نمبر: 3216
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: " مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أُحِلَّ لَهُ النِّسَاءُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے آپ کے لیے سب عورتیں حلال ہو چکی تھیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3216]
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/النکاح 2 (3206، 3207) (تحفة الأشراف: 7379)، وسنن الدارمی/النکاح 44 (2287) (صحیح الإسناد)»

وضاحت: ۱؎: یعنی پچھلی حدیث میں مذکور حرام کردہ عورتیں بعد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کر دی گئیں تھیں، یہ استنباط عائشہ رضی الله عنہا یا دیگر نے اس ارشاد باری سے کیا ہے، «ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء» (اے ہمارے حبیب و خلیل نبی!) تمہیں یہ بھی اختیار ہے کہ تم ان عورتوں میں سے جس کو چاہو پیچھے رہنے دو (اس سے شادی نہ کرو یا موجود بیویوں میں سے جس کی چاہو باری ٹال دو) اور جس کو چاہو اپنے پاس جگہ دو، (گو اس کو باری نہ بھی ہو) (الأحزاب: 51)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

حدیث نمبر: 3217
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَشْهَلُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: حَدَّثَنَاهُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى بَابَ امْرَأَةٍ عَرَّسَ بِهَا، فَإِذَا عِنْدَهَا قَوْمٌ فَانْطَلَقَ فَقَضَى حَاجَتَهُ فَاحْتُبِسَ، ثُمَّ رَجَعَ وَعِنْدَهَا قَوْمٌ فَانْطَلَقَ فَقَضَى حَاجَتَهُ فَرَجَعَ وَقَدْ خَرَجُوا، قَالَ: فَدَخَلَ وَأَرْخَى بَيْنِي وَبَيْنَهُ سِتْرًا، قَالَ: فَذَكَرْتُهُ لِأَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: فَقَالَ: لَئِنْ كَانَ كَمَا تَقُولُ لَيَنْزِلَنَّ فِي هَذَا شَيْءٌ، فَنَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَعَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ، يُقَالُ لَهُ: الْأَصْلَعُ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ اپنی ایک بیوی کے کمرے کے دروازہ پر تشریف لائے جن کے ساتھ آپ کو رات گزارنی تھی، وہاں کچھ لوگوں کو موجود پایا تو آپ وہاں سے چلے گئے، اور اپنا کچھ کام کاج کیا اور کچھ دیر رکے رہے، پھر آپ دوبارہ لوٹ کر آئے تو لوگ وہاں سے جا چکے تھے، انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر آپ اندر چلے گئے اور ہمارے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا (لٹکا دیا) میں نے اس بات کا ذکر ابوطلحہ سے کیا: تو انہوں نے کہا اگر بات ایسی ہی ہے جیسا تم کہتے ہو تو اس بارے میں کوئی نہ کوئی حکم ضرور نازل ہو گا، پھر آیت حجاب نازل ہوئی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3217]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وراجع: صحیح البخاری/النکاح 67 (5166)، والأطعمة 59 (5466)، والاستئذان 10 (6238)، وصحیح مسلم/النکاح 15 (1428) (تحفة الأشراف: 1109) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: آیت حجاب سے مراد یہ آیت ہے «يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم» سے «إن ذلكم كان عند الله عظيما» تک یعنی اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، الا یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے، لیکن تم پہلے ہی اس کے پکنے کا انتظار نہ کرو، بلکہ جب بلایا جائے تو داخل ہو جاؤ اور جب کھا چکو تو فوراً منتشر ہو جاؤ، …اور جب تم امہات المؤمنین سے کوئی سامان مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو … (الأحزاب: 53)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3218
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنِ الْجَعْدِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ بِأَهْلِهِ، قَالَ: فَصَنَعَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ حَيْسًا فَجَعَلَتْهُ فِي تَوْرٍ، فَقَالَتْ: يَا أَنَسُ اذْهَبْ بِهَذَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْ لَهُ: بَعَثَتْ إِلَيْكَ بِهَا أُمِّي وَهِيَ تُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَتَقُولُ: إِنَّ هَذَا لَكَ مِنَّا قَلِيلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ أُمِّي تُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَتَقُولُ: إِنَّ هَذَا مِنَّا لَكَ قَلِيلٌ، فَقَالَ: " ضَعْهُ "، ثُمَّ قَالَ: " اذْهَبْ فَادْعُ لِي فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا وَمَنْ لَقِيتَ فَسَمَّى رِجَالًا "، قَالَ: فَدَعَوْتُ مَنْ سَمَّى وَمَنْ لَقِيتُ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ عَدَدُ كَمْ كَانُوا؟ قَالَ: زُهَاءَ ثَلَاثِ مِائَةٍ، قَالَ: وَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَنَسُ هَاتِ التَّوْرَ "، قَالَ: فَدَخَلُوا حَتَّى امْتَلَأَتْ الصُّفَّةُ وَالْحُجْرَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِيَتَحَلَّقْ عَشَرَةٌ عَشَرَةٌ، وَلْيَأْكُلْ كُلُّ إِنْسَانٍ مِمَّا يَلِيهِ "، قَالَ: فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، قَالَ: فَخَرَجَتْ طَائِفَةٌ وَدَخَلَتْ طَائِفَةٌ حَتَّى أَكَلُوا كُلُّهُمْ، قَالَ: فَقَالَ لِي: " يَا أَنَسُ، ارْفَعْ "، قَالَ: فَرَفَعْتُ فَمَا أَدْرِي حِينَ وَضَعْتُ كَانَ أَكْثَرَ أَمْ حِينَ رَفَعْتُ، قَالَ: وَجَلَسَ مِنْهُمْ طَوَائِفُ يَتَحَدَّثُونَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَزَوْجَتُهُ مُوَلِّيَةٌ وَجْهَهَا إِلَى الْحَائِطِ، فَثَقُلُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَى نِسَائِهِ ثُمَّ رَجَعَ، فَلَمَّا رَأَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَجَعَ ظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ ثَقُلُوا عَلَيْهِ، قَالَ: فَابْتَدَرُوا الْبَابَ فَخَرَجُوا كُلُّهُمْ، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَرْخَى السِّتْرَ وَدَخَلَ وَأَنَا جَالِسٌ فِي الْحُجْرَةِ، فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى خَرَجَ عَلَيَّ وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَاتُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُنَّ عَلَى النَّاسِ: " يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ سورة الأحزاب آية 53 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ "، قَالَ الْجَعْدُ: قَالَ أَنَسٌ: أَنَا أَحْدَثُ النَّاسِ عَهْدًا بِهَذِهِ الْآيَاتِ، وَحُجِبْنَ نِسَاءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْجَعْدُ هُوَ ابْنُ عُثْمَانَ، وَيُقَالُ: هُوَ ابْنُ دِينَارٍ، وَيُكْنَى أَبَا عُثْمَانَ بَصْرِيٌّ وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، رَوَى عَنْهُ يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَشُعْبَةُ وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور اپنی بیوی (زینب بنت جحش رضی الله عنہا) کے پاس تشریف لے گئے، اس موقع پر میری ماں ام سلیم رضی الله عنہا نے حیس ۱؎ تیار کیا، اسے ایک چھوٹے برتن میں رکھا، پھر (مجھ سے) کہا: (بیٹے) انس! اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ سے کہو: اسے میری امی جان نے آپ کے پاس بھیجا ہے اور انہوں نے آپ کو سلام عرض کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تھوڑا سا ہدیہ میری طرف سے آپ کی خدمت میں پیش ہے، اللہ کے رسول! میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، میں نے عرض کیا: میری امی جان آپ کو سلام کہتی ہیں اور کہتی ہیں: یہ میری طرف سے آپ کے لیے تھوڑا سا ہدیہ ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے رکھ دو، پھر فرمایا: جاؤ فلاں فلاں، اور فلاں کچھ لوگوں کے نام لیے اور جو بھی تمہیں ملے سب کو میرے پاس بلا کر لے آؤ، انس کہتے ہیں: جن کے نام آپ نے لیے تھے انہیں اور جو بھی مجھے آتے جاتے ملا اسے بلا لیا، راوی جعد بن عثمان کہتے ہیں: میں نے انس رضی الله عنہ سے پوچھا: کتنے لوگ رہے ہوں گے؟ انہوں نے کہا: تقریباً تین سو، انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انس «تَور» پیالہ لے آؤ۔ انس کہتے ہیں: لوگ اندر آئے یہاں تک کہ صفہ (چبوترہ) اور کمرہ سب بھر گیا، آپ نے فرمایا: دس دس افراد کی ٹولی بنا لو اور ہر شخص اپنے قریب سے کھائے، لوگوں نے پیٹ بھر کر کھایا، ایک ٹولی (کھا کر) باہر جاتی اور دوسری ٹولی (کھانے کے لیے) اندر آ جاتی اس طرح سبھی نے کھا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: انس: اب (برتن) اٹھا لو۔ میں نے (پیالہ) اٹھا لیا، مگر (صحیح صحیح) بتا نہ پاؤں گا کہ جب میں نے پیالہ لا کر رکھا تھا تب اس میں حیس زیادہ تھا یا جب اٹھایا تھا تب؟ کچھ لوگ کھانے سے فارغ ہو کر آپ کے گھر میں بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگ گئے۔ (انہوں نے کچھ بھی خیال نہ کیا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور آپ کی اہلیہ محترمہ دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہیں، وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بوجھ بن گئے، آپ وہاں سے اٹھ کر اپنی دوسری بیویوں کی طرف چلے گئے اور انہیں سلام کیا (مزاج پرسی کی) اور پھر لوٹ آئے، جب لوگوں نے دیکھا کہ آپ لوٹ آئے ہیں تو انہیں احساس و گمان ہوا کہ وہ لوگ آپ کے لیے باعث اذیت بن گئے ہیں، تو وہ لوگ تیزی سے دروازہ کی طرف بڑھے اور سب کے سب باہر نکل گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے دروازہ کا پردہ گرا دیا اور خود اندر چلے گئے، میں کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور آپ پر یہ آیتیں اتریں پھر آپ نے باہر آ کر لوگوں کو یہ آیتیں «يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه ولكن إذا دعيتم فادخلوا فإذا طعمتم فانتشروا ولا مستأنسين لحديث إن ذلكم كان يؤذي النبي» اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لیے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو، بلکہ جب بلایا جائے تب جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو، نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے (الاحزاب: ۵۳)، آخر تک پڑھ کر سنائیں۔ میں ان آیات سے سب سے پہلا واقف ہونے والا ہوں، اور اسی وقت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں پردہ کرنے لگیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- جعد: عثمان کے بیٹے ہیں، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دینار کے بیٹے ہیں اور ان کی کنیت ابوعثمان بصریٰ ہے، اور یہ محدثین کے نزدیک ثقہ (قوی) ہیں، ان سے یونس بن عبید، شعبہ اور حماد بن زید نے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3218]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 65 (تعلیقا) صحیح مسلم/النکاح 15 (1421/94)، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 513) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: حیس ایک قسم کا کھانا ہے جو کھجور، گھی اور ستو سے تیار کیا جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3219
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ مُجَالِدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ بَيَانٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " بَنَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهِ، فَأَرْسَلَنِي فَدَعَوْتُ قَوْمًا إِلَى الطَّعَامِ، فَلَمَّا أَكَلُوا وَخَرَجُوا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْطَلِقًا قِبَلَ بَيْتِ عَائِشَةَ، فَرَأَى رَجُلَيْنِ جَالِسَيْنِ فَانْصَرَفَ رَاجِعًا، فَقَامَ الرَّجُلَانِ فَخَرَجَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ سورة الأحزاب آية 53 "، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ بَيَانٍ، وَرَوَى ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کے ساتھ شادی والی رات گزاری، پھر آپ نے مجھے کچھ لوگوں کو کھانے پر بلانے کے لیے بھیجا۔ جب لوگ کھا پی کر چلے گئے، تو آپ اٹھے، عائشہ رضی الله عنہا کے گھر کا رخ کیا پھر آپ کی نظر دو بیٹھے ہوئے آدمیوں پر پڑی۔ تو آپ (فوراً) پلٹ پڑے (انہیں اس کا احساس ہو گیا) وہ دونوں اٹھے اور وہاں سے نکل گئے۔ اسی موقع پر اللہ عزوجل نے آیت «يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه» نازل فرمائی، اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- بیان کی روایت سے یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ثابت نے انس کے واسطہ سے یہ حدیث پوری کی پوری بیان کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3219]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 69 (5170)، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 257) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ قصہ پچھلی حدیث میں گزرا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3220
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرِ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيَّ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ الَّذِي كَانَ أُرِيَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي مَجْلِسِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ لَهُ بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ: أَمَرَنَا اللَّهُ أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَمَنَّيْنَا أَنَّهُ لَمْ يَسْأَلْهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُولُوا: " اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَالسَّلَامُ كَمَا قَدْ عُلِّمْتُمْ "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي حُمَيْدٍ، وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، وَطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَزَيْدِ بْنِ خَارِجَةَ، وَيُقَالُ: ابْنُ جَارِيَةَ، وَبُرَيْدَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم سعد بن عبادہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ سے بشیر بن سعد نے کہا: اللہ نے ہمیں آپ پر صلاۃ (درود) بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ تو ہم کیسے آپ پر صلاۃ (درود) بھیجیں، راوی کہتے ہیں: آپ (یہ سن کر) خاموش رہے۔ یہاں تک کہ ہم سوچنے لگے کہ انہوں نے نہ پوچھا ہوتا تو ہی ٹھیک تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو: «اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم وبارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم في العالمين إنك حميد مجيد» اور سلام تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تم (التحیات میں) جانتے ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں علی، ابوحمید، کعب بن عجرہ اور طلحہ بن عبیداللہ اور ابو سعید خدری اور زید بن خارجہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور زید کو ابن جاریہ اور ابن بریدہ بھی کہا جاتا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3220]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 17 (405)، سنن ابی داود/ الصلاة 183 (980)، سنن النسائی/السھو 49 (1286) (تحفة الأشراف: 10007)، موطا امام مالک/ صلاة السفر 22 (67)، و مسند احمد (5/274)، وسنن الدارمی/الصلاة 85 (1382) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: مولف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ «إن الله وملائكته يصلون على النبي يا أيها الذين آمنوا صلوا عليه وسلموا تسليما» (الأحزاب: ۵۶) کے تفسیر میں ذکر کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صفة الصلاة، صحيح أبي داود (901)

حدیث نمبر: 3221
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنِ الْحَسَنِ، وَمُحَمَّدٍ، وَخِلَاسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ رَجُلًا حَيِيًّا سَتِيرًا مَا يُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَيْءٌ اسْتِحْيَاءً مِنْهُ، فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ "، فَقَالُوا: مَا يَسْتَتِرُ هَذَا السِّتْرَ إِلَّا مِنْ عَيْبٍ بِجِلْدِهِ، إِمَّا بَرَصٌ، وَإِمَّا أُدْرَةٌ، وَإِمَّا آفَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَرَادَ أَنْ يُبَرِّئَهُ مِمَّا قَالُوا، وَإِنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام خَلَا يَوْمًا وَحْدَهُ فَوَضَعَ ثِيَابَهُ عَلَى حَجَرٍ، ثُمَّ اغْتَسَلَ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَى ثِيَابِهِ لِيَأْخُذَهَا، وَإِنَّ الْحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِهِ فَأَخَذَ مُوسَى عَصَاهُ فَطَلَبَ الْحَجَرَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: ثَوْبِي حَجَرُ ثَوْبِي حَجَرُ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَرَأَوْهُ عُرْيَانًا أَحْسَنَ النَّاسِ خَلْقًا، وَأَبْرَأَهُ مِمَّا كَانُوا يَقُولُونَ، قَالَ: وَقَامَ الْحَجَرُ فَأَخَذَ ثَوْبَهُ وَلَبِسَهُ وَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاهُ فَوَاللَّهِ إِنَّ بِالْحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ عَصَاهُ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللَّهِ وَجِيهًا سورة الأحزاب آية 69 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِيهِ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام باحیاء، پردہ پوش انسان تھے، ان کے بدن کا کوئی حصہ ان کے شرما جانے کے ڈر سے دیکھا نہ جا سکتا تھا، مگر انہیں تکلیف پہنچائی جس کسی بھی اسرائیلی نے تکلیف پہنچائی، ان لوگوں نے کہا: یہ شخص (اتنی زبردست) ستر پوشی محض اس وجہ سے کر رہا ہے کہ اسے کوئی جلدی بیماری ہے: یا تو اسے برص ہے، یا اس کے خصیے بڑھ گئے ہیں، یا اسے کوئی اور بیماری لاحق ہے۔ اللہ نے چاہا کہ ان پر جو تہمت اور جو الزامات لگائے جا رہے ہیں ان سے انہیں بری کر دے۔ (تو ہوا یوں کہ) موسیٰ علیہ السلام ایک دن تنہا تھے، کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ کر نہانے لگے، جب نہا چکے اور اپنے کپڑے لینے کے لیے آگے بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی اٹھائی، پتھر کو بلانے اور کہنے لگے «ثوبي حجر ثوبي حجر» پتھر: میرا کپڑا دے، پتھر! میرا کپڑا دے اور یہ کہتے ہوئے پیچھے پیچھے دوڑتے رہے یہاں تک کہ وہ پتھر بنی اسرائیل کی ایک جماعت (ایک گروہ) کے پاس جا پہنچا، دوسروں نے انہیں (مادر زاد) ننگا اپنی خلقت و بناوٹ میں لوگوں سے اچھا دیکھا۔ اللہ نے انہیں ان تمام عیبوں اور خرابیوں سے پاک و صاف دکھا دیا جو عیب وہ ان میں بتا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: پھر وہ پتھر رک گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے، پھر اپنی لاٹھی سے پتھر کو پیٹنے لگے۔ تو قسم اللہ کی پتھر پر لاٹھی کی مار سے تین، چار یا پانچ چوٹ کے نشان تھے۔ یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی اس آیت «يا أيها الذين آمنوا لا تكونوا كالذين آذوا موسى فبرأه الله مما قالوا وكان عند الله وجيها» اے ایمان لانے والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنے جھوٹے الزامات سے تکلیف پہنچائی، تو اللہ نے انہیں اس تہمت سے بری قرار دیا، وہ اللہ کے نزدیک بڑی عزت و مرتبت والا تھا (الاحزاب: ۶۹)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، اور اس میں ایک حدیث انس کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3221]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 28 (3404)، وتفسیر سورة الأحزاب 11 (4799) (تحفة الأشراف: 12242، و12302، و14480) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح