الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
53. باب وَمِنْ سُورَةِ وَالنَّجْمِ
53. باب: سورۃ النجم سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3276
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا بَلَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، قَالَ: " انْتَهَى إِلَيْهَا مَا يَعْرُجُ مِنَ الْأَرْضِ، وَمَا يَنْزِلُ مِنْ فَوْقَ "، قَالَ: فَأَعْطَاهُ اللَّهُ عِنْدَهَا ثَلَاثًا لَمْ يُعْطِهِنَّ نَبِيًّا كَانَ قَبْلَهُ، فُرِضَتْ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ خَمْسًا، وَأُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَغُفِرَ لِأُمَّتِهِ الْمُقْحِمَاتُ مَا لَمْ يُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى سورة النجم آية 16، قَالَ: السِّدْرَةُ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، قَالَ سُفْيَانُ: فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ، وَأَشَارَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ فَأَرْعَدَهَا، وَقَالَ غَيْرُ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ: إِلَيْهَا يَنْتَهِي عِلْمُ الْخَلْقِ لَا عِلْمَ لَهُمْ بِمَا فَوْقَ ذَلِكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (معراج کی رات) سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچے تو کہا: یہی وہ آخری جگہ ہے جہاں زمین سے چیزیں اٹھ کر پہنچتی ہیں اور یہی وہ بلندی کی آخری حد ہے جہاں سے چیزیں نیچے آتی اور اترتی ہیں، یہیں اللہ نے آپ کو وہ تین چیزیں عطا فرمائیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں فرمائی تھیں، (۱) آپ پر پانچ نمازیں فرض کی گئیں، (۲) سورۃ البقرہ کی «خواتیم» (آخری آیات) عطا کی گئیں، (۳) اور آپ کی امتیوں میں سے جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا، ان کے مہلک و بھیانک گناہ بھی بخش دیئے گئے، (پھر) ابن مسعود رضی الله عنہ نے آیت «إذ يغشى السدرة ما يغشى» ڈھانپ رہی تھی سدرہ کو جو چیز ڈھانپ رہی تھی (النجم: ۱۶)، پڑھ کر کہا «السدرہ» (بیری کا درخت) چھٹے آسمان پر ہے، سفیان کہتے ہیں: سونے کے پروانے ڈھانپ رہے تھے اور سفیان نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے انہیں چونکا دیا (یعنی تصور میں چونک کر ان پروانوں کے اڑنے کی کیفیت دکھائی) مالک بن مغول کے سوا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہیں تک مخلوق کے علم کی پہنچ ہے اس سے اوپر کیا کچھ ہے کیا کچھ ہوتا ہے انہیں اس کا کچھ بھی علم اور کچھ بھی خبر نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3276]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 76 (173)، سنن النسائی/الصلاة 1 (452) (تحفة الأشراف: 9548)، و مسند احمد (1/387، 422) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3277
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ، عَنْ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى سورة النجم آية 9 فَقَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ مَسْعُودٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " رَأَى جِبْرِيلَ وَلَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے زر بن حبیش سے آیت: «فكان قاب قوسين أو أدنى» دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم فرق رہ گیا (النجم: ۹)، کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے کہا: مجھے ابن مسعود رضی الله عنہ نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کو دیکھا اور ان کے چھ سو پر تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3277]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 7 (3232)، وتفسیر سورة النجم 2 (4856)، و3 (4857)، صحیح مسلم/الإیمان 76 (174) (تحفة الأشراف: 9205) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3278
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: لَقِيَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَعْبًا بِعَرَفَةَ، فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ، فَكَبَّرَ حَتَّى جَاوَبَتْهُ الْجِبَالُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّا بَنُو هَاشِمٍ، فَقَالَ كَعْبٌ إِنَّ اللَّهَ قَسَمَ رُؤْيَتَهُ وَكَلَامَهُ بَيْنَ مُحَمَّدٍ، وَمُوسَى، فَكَلَّمَ مُوسَى مَرَّتَيْنِ، وَرَآهُ مُحَمَّدٌ مَرَّتَيْنِ قَالَ مَسْرُوقٌ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْتُ: هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ تَكَلَّمْتَ بِشَيْءٍ قَفَّ لَهُ شَعْرِي، قُلْتُ: رُوَيْدًا ثُمَّ قَرَأْتُ: " لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى سورة النجم آية 18، فَقَالَتْ: أَيْنَ يُذْهَبُ بِكَ إِنَّمَا هُوَ جِبْرِيلُ، مَنْ أَخْبَرَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ، أَوْ كَتَمَ شَيْئًا مِمَّا أُمِرَ بِهِ، أَوْ يَعْلَمُ الْخَمْسَ الَّتِي قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ سورة لقمان آية 34 فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ، وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ، لَمْ يَرَهُ فِي صُورَتِهِ إِلَّا مَرَّتَيْنِ: مَرَّةً عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَمَرَّةً فِي جِيَادٍ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَحَدِيثُ دَاوُدَ أَقْصَرُ مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ.
عامر شراحیل شعبی کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی الله عنہما کی ملاقات کعب الاحبار سے عرفہ میں ہوئی، انہوں نے کعب سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے تکبیرات پڑھیں جن کی صدائے بازگشت پہاڑوں میں گونجنے لگی، ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: ہم بنو ہاشم سے تعلق رکھتے ہیں، کعب نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اپنی رویت و دیدار کو اور اپنے کلام کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔ اللہ نے موسیٰ سے دو بار بات کی، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو دو بار دیکھا۔ مسروق کہتے ہیں: میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس پہنچا، میں نے ان سے پوچھا: کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: تم نے تو ایسی بات کہی ہے جسے سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں، میں نے کہا: ٹھہریئے، جلدی نہ کیجئے (پوری بات سن لیجئے) پھر میں نے آیت «لقد رأى من آيات ربه الكبرى» پھر آپ نے اللہ کی بڑی آیات و نشانیاں دیکھیں (النجم: ۱۸)، تلاوت کی ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایا: تمہیں کہاں لے جایا گیا ہے؟ (کہاں بہکا دیے گئے ہو؟) یہ دیکھے جانے والے تو جبرائیل تھے، تمہیں جو یہ خبر دے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ یا جن باتوں کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ان میں سے آپ نے کچھ چھپا لیا ہے، یا وہ پانچ چیزیں جانتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ «إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث» اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ بارش کب اور کہاں نازل ہو گی (سورۃ لقمان: ۳۴)، اس نے بڑا جھوٹ بولا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپ نے جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا، جبرائیل علیہ السلام کو آپ نے ان کی اپنی اصل صورت میں صرف دو مرتبہ دیکھا ہے، (ایک بار) سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اور ایک بار جیاد میں (جیاد نشیبی مکہ کا ایک محلہ ہے) جبرائیل علیہ السلام کے چھ سو بازو تھے، انہوں نے سارے افق کو اپنے پروں سے ڈھانپ رکھا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
داود بن ابی ہند نے شعبی سے، شعبی نے مسروق سے اور مسروق نے عائشہ رضی الله عنہا کے واسطہ سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس جیسی حدیث روایت کی، داود کی حدیث مجالد کی حدیث سے چھوٹی ہے (لیکن وہی صحیح ہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3278]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (بقصة ابن عباس مع کعب) وانظر حدیث رقم 3068 (للجزء الأخیر) (ضعیف الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: (3278) إسناده ضعيف ¤ مجالد: ضعيف كما تقدم (653) وأصل الحديث فى صحيح البخاري (4855) ومسلم (177) بغير ھذا اللفظ

حدیث نمبر: 3279
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمْرِو بْنِ نَبْهَانَ بْنِ صَفْوَانَ الْبَصْرِيُّ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ الْعَنْبَرِيُّ أَبُو غَسَّانَ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ، قُلْتُ: أَلَيْسَ اللَّهُ يَقُولُ: لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ سورة الأنعام آية 103 قَالَ: وَيْحَكَ ذَاكَ إِذَا تَجَلَّى بِنُورِهِ الَّذِي هُوَ نُورُهُ، وَقَالَ: أُرِيَهُ وَقَدْ رَأَى مُحَمّدُ رَبَّهُ مَرَّتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عکرمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے، میں نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار» اس کو آنکھیں نہیں پا سکتی ہیں ہاں وہ خود نگاہوں کو پا لیتا ہے (الانعام: ۱۰۳)، انہوں نے کہا: تم پر افسوس ہے (تم سمجھ نہیں سکے) یہ تو اس وقت کی بات ہے جب وہ اپنے ذاتی نور کے ساتھ تجلی فرمائے، انہوں نے کہا: آپ نے اپنے رب کو دو بار دیکھا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3279]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 6040) (ضعیف) (سند میں حکم بن ابان سے وہم ہو جایا کرتا تھا)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف ظلال الجنة (190 / 437)

قال الشيخ زبير على زئي: (3279) إسناده ضعيف (بل ھو حسن) ¤ محمد بن عمرو بن نبھان البصري مجھول ، وثقه الترمذي وحده . . . (وله طريق آخر عند ابن أبى عاصم فى السنة(437) وسنده حسن و رواه ابن خزيمة فى كتاب التوحيد (ص198 ح 273)

حدیث نمبر: 3280
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِ اللَّهِ " فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى {9} فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى {10} سورة النجم آية 9-10، وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى {13} عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى {14} سورة النجم آية 13-14 "، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَدْ رَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوسلمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما نے آیت: «ولقد رآه نزلة أخرى عند سدرة المنتهى» ۱؎ «فأوحى إلى عبده ما أوحى» ۲؎ «فكان قاب قوسين أو أدنى» ۳؎ کی تفسیر میں کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3280]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6563) (حسن صحیح)»

وضاحت: ۱؎: النجم: ۱۳، ۲؎: النجم: ۱۰، ۳؎: النجم: ۹

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح الظلال (191 / 439)

حدیث نمبر: 3281
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَابْنُ أَبِي رِزْمَةَ، وأبو نعيم، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى سورة النجم آية 11، قَالَ: رَآهُ بِقَلْبِهِ ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت «ما كذب الفؤاد ما رأى» جو کچھ انہوں نے دیکھا اسے دل نے جھٹلایا نہیں (بلکہ اس کی تصدیق کی) (النجم: ۱۱)، پڑھی، کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دل کی آنکھ سے دیکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3281]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6121) (صحیح) (عکرمہ سے سماک کی روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الظلال (191 / 439)

حدیث نمبر: 3282
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التُّسْتَرِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ: لَوْ أَدْرَكْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ، فَقَال: عَمَّا كُنْتَ تَسْأَلُهُ؟ قُلْتُ: كُنْتُ أَسْأَلُهُ، هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ؟ فَقَالَ: قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: " نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر رضی الله عنہ سے کہا: اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا ہوتا تو آپ سے پوچھتا، انہوں نے کہا: تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا پوچھتے؟ میں نے کہا: میں یہ پوچھتا کہ کیا آپ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ ابوذر رضی الله عنہ نے کہا: میں نے آپ سے یہ بات پوچھی تھی، آپ نے فرمایا: وہ نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3282]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 78 (178) (تحفة الأشراف: 11938) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الظلال (192 / 441)

حدیث نمبر: 3283
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، وَابْنُ أَبِي رِزْمَةَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ: مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى سورة النجم آية 11، قَالَ: " رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِيلَ فِي حُلَّةٍ مِنْ رَفْرَفٍ قَدْ مَلَأَ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
‏‏‏‏ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ اس آیت: «ما كذب الفؤاد ما رأى» کی تفسیر میں کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو باریک ریشمی جوڑا پہنے ہوئے دیکھا۔ آسمان و زمین کی ساری جگہیں ان کے وجود سے بھر گئی تھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3283]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) وراجع صحیح البخاری/ (4858) (تحفة الأشراف: 9394) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3284
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلا اللَّمَمَ سورة النجم آية 32 قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ تَغْفِرِ اللَّهُمَّ تَغْفِرْ جَمَّا، وَأَيُّ عَبْدٍ لَكَ لَا أَلَمَّا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاق.
‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت «الذين يجتنبون كبائر الإثم والفواحش إلا اللمم» جو لوگ بڑے گناہوں سے بچتے ہیں مگر چھوٹے گناہ (جو کبھی ان سے سرزد ہو جائیں تو وہ بھی معاف ہو جائیں گے) (النجم: ۳۲)، کی تفسیر میں کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے رب اگر بخشتا ہے تو سب ہی گناہ بخش دے، اور تیرا کون سا بندہ ایسا ہے جس سے کوئی چھوٹا گناہ بھی سرزد نہ ہوا ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف زکریا بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3284]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5949) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (2349 / التحقيق الثانى)