ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے جب ہم لوٹے اور ہمیں مدینہ دکھائی دینے لگا تو لوگوں نے تکبیر کہی اور بلند آواز سے تکبیر کہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا رب بہرہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ غائب و غیر حاضر ہے، وہ تمہارے درمیان موجود ہے، وہ تمہارے کجاؤں اور سواریوں کے درمیان (یعنی بہت قریب) ہے پھر آپ نے فرمایا: ”عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟ «لا حول ولا قوة إلا بالله»(جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ابوعثمان نہدی کا نام عبدالرحمٰن بن مل ہے اور ابونعامہ سعدی کا نام عمرو بن عیسیٰ ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3374]
وضاحت: ۱؎: یعنی: جو اس کلمے کا ورد کرے گا وہ جنت کے خزانوں میں ایک خزانے کا مالک ہو جائے گا، کیونکہ اس کلمے کا مطلب برائی سے پھر نے اور نیکی کی قوت اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ ”جب بندہ اس کا باربار اظہار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بے انتہا خوش ہوتا ہے، بندے کی طرف سے اس طرح کی عاجزی کا اظہار تو عبادت حاصل ہے۔
اس سند سے ابوالملیح نے ابوصالح سے، اور ابوصالح نے ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3374M]