الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
129. باب فِي الْعَفْوِ وَالْعَافِيَةِ
129. باب: دنیا و آخرت میں عافیت طلبی کا بیان
حدیث نمبر: 3594
حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ أَبِي إِيَاسٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدُّعَاءُ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ "، قَالُوا: فَمَاذَا نَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " سَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ، وَقَدْ زَادَ يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ هَذَا الْحَرْفَ قَالُوا: فَمَاذَا نَقُولُ؟ قَالَ: " سَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ".
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذان اور اقامت کے درمیان مانگی جانے والی دعا لوٹائی نہیں جاتی، (یعنی قبول ہو جاتی ہے) لوگوں نے پوچھا: اس دوران ہم کون سی دعا مانگیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: دنیا اور آخرت (دونوں) میں عافیت مانگو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے، یحییٰ بن ابان نے اس حدیث میں اس عبارت کا اضافہ کیا ہے کہ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہم کیا کہیں؟ آپ نے فرمایا: دنیا و آخرت میں عافیت (یعنی امن و سکون) مانگو۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3594]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 212 (منکر) حدیث کا پہلا فقرہ صحیح ہے، لیکن اس کے بعد کا قصہ ”منکر“ ہے اس لیے کہ سند میں یحیی بن الیمان اور زید العمی دونوں ضعیف راوی ہیں، اور قصے کا شاہد موجود نہیں ہے، تراجع الالبانی 140)»

قال الشيخ الألباني: منكر بهذا التمام، لكن قوله:

قال الشيخ زبير على زئي: (3594) إسناده ضعيف ¤ زيد العمي: ضعيف (تقدم:1442) وحديث أبى داود (521) يغني عنه

حدیث نمبر: 3595
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ , وَأَبُو أَحْمَدَ , وَأَبُو نُعَيْمٍ , عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الدُّعَاءُ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى أَبُو إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ الْكُوفِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا وَهَذَا أَصَحُّ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذان اور اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے، (یعنی ضرور قبول ہوتی ہے۔)
امام ترمذی کہتے ہیں:
ابواسحاق ہمدانی نے برید بن ابی مریم کوفی سے اور برید کوفی نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی روایت کی ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3595]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 212 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح وقد مضى (212)

حدیث نمبر: 3596
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَبَقَ الْمُفْرِدُونَ "، قَالُوا: وَمَا الْمُفْرِدُونَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " الْمُسْتَهْتَرُونَ فِي ذِكْرِ اللَّهِ، يَضَعُ الذِّكْرُ عَنْهُمْ أَثْقَالَهُمْ فَيَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِفَافًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہلکے پھلکے لوگ آگے نکل گئے، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ ہلکے پھلکے لوگ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی یاد و ذکر میں ڈوبے رہنے والے لوگ، ذکر ان کا بوجھ ان کے اوپر سے اتار کر رکھ دے گا اور قیامت کے دن ہلکے پھلکے آئیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3596]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15411) (ضعیف) (سند میں ”عمر بن راشد“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (3690) // ضعيف الجامع الصغير (3240) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3596) إسناده ضعيف ¤ عمر بن راشد: ضعيف (تقدم: 2000) والحديث صحيح بشواهد دون قوله: ”يضع الذكر“ إلخ

حدیث نمبر: 3597
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأَنْ أَقُولَ: سُبْحَانَ اللَّهِ , وَالْحَمْدُ لِلَّهِ , وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَاللَّهُ أَكْبَرُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ساری کائنات سے کہ جس پر سورج طلوع ہوتا ہے مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں: «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر» اللہ پاک ہے، تعریف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے، کہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3597]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الذکر والدعاء 10 (2695) (تحفة الأشراف: 12511) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3598
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ سَعْدَانَ الْقُبِّيِّ، عَنْ أَبِي مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مُدِلَّةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ: الصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ، وَالْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا اللَّهُ فَوْقَ الْغَمَامِ، وَيَفْتَحُ لَهَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ الرَّبُّ: وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ، وَسَعْدَانُ الْقبِّيُّ هُوَ سَعْدَانُ بْنُ بِشْرٍ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ عِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَأَبُو عَاصِمٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَأَبُو مُجَاهِدٍ هُوَ سَعْدٌ الطَّائِيُّ، وَأَبُو مُدِلَّةَ هُوَ مَوْلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَيُرْوَى عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثُ أَتَمَّ مِنْ هَذَا وَأَطْوَلَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین لوگ ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی: ایک روزہ دار، جب تک کہ روزہ نہ کھول لے، (دوسرے) امام عادل، (تیسرے) مظلوم، اس کی دعا اللہ بدلیوں سے اوپر تک پہنچاتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور رب کہتا ہے: میری عزت (قدرت) کی قسم! میں تیری مدد کروں گا، بھلے کچھ مدت کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- سعدان قمی یہ سعدان بن بشر ہیں، ان سے عیسیٰ بن یونس، ابوعاصم اور کئی بڑے محدثین نے روایت کی ہے
۳- اور ابومجاہد سے مراد سعد طائی ہیں
۴- اور ابومدلہ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے آزاد کردہ غلام ہیں ہم انہیں صرف اسی حدیث کے ذریعہ سے جانتے ہیں اور یہی حدیث ان سے اس حدیث سے زیادہ مکمل اور لمبی روایت کی گئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3598]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصیام 48 (1752) (تحفة الأشراف: 15457)، و مسند احمد (2/30
4- 305، 445، 477) (ضعیف) (”الإمام العادل“ کے لفظ سے ضعیف ہے، اور ”المسافر“ کے لفظ سے صحیح ہے، سند میں ابو مدلہ مولی عائشہ“ مجہول راوی ہے، نیز یہ حدیث ابوہریرہ ہی کی صحیح حدیث جس میں ”المسافر“ کا لفظ ہے کے خلاف ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفة رقم 1358، والصحیحة رقم: 596)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن، الصحيحة منه الشطر الأول بلفظ: ".... المسافر " مكان " الإمام العادل "، وفي رواية " الوالد "، ابن ماجة (1752)

حدیث نمبر: 3599
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي، وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي، وَزِدْنِي عِلْمًا، الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ، وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ حَالِ أَهْلِ النَّارِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی: «اللهم انفعني بما علمتني وعلمني ما ينفعني وزدني علما الحمد لله على كل حال وأعوذ بالله من حال أهل النار» اے اللہ! مجھے اس علم سے نفع دے جو تو نے مجھے سکھایا ہے اور مجھے وہ علم سکھا جو مجھے فائدہ دے اور میرا علم زیادہ کر، ہر حال میں اللہ ہی کے لیے تعریف ہے اور میں جہنمیوں کے حال سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3599]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 23 (251)، والدعاء (3833) (تحفة الأشراف: 14356) (صحیح) ”الحمد للہ۔۔۔الخ) کا لفظ صحیح نہیں ہے، سند میں محمد بن ثابت مجہول راوی ہے، مگر پہلا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی 462)»

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله: " والحمد لله ... "، ابن ماجة (251 و 3833)

قال الشيخ زبير على زئي: (3599) إسناده ضعيف / جه 251 ، 3833 ¤ موسي بن عبيدة: ضعيف (تقدم:1122) وحديث البخاري (5848) ومسلم (2337) يغني عنه