الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
1. باب فِي فَضْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
1. باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 3605
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِبْرَاهِيمَ إِسْمَاعِيل، وَاصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيل بَنِي كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ بَنِي كِنَانَةَ قُرَيْشًا، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
واثلہ بن اسقع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اسماعیل علیہ السلام کا انتخاب فرمایا ۱؎ اور اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے بنی کنانہ کا، اور بنی کنانہ میں سے قریش کا، اور قریش میں سے بنی ہاشم کا، اور بنی ہاشم میں سے میرا انتخاب فرمایا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3605]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الفضائل 1 (2276) (تحفة الأشراف: 11741)، مسند احمد (4/107) (صحیح) (پہلا فقرہ إن الله اصطفى من ولد إبراهيم إسماعيل کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے، اس سند میں محمد بن مصعب صدوق کثیر الغلط راوی ہیں، اور آگے آنے والی حدیث میں یہ پہلا فقرہ نہیں ہے، اس لیے یہ ضعیف ہے، الصحیحة 302)»

وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم میں اگلی حدیث کی طرح یہ ٹکڑا نہیں ہے، یہ محم بن مصعب کی روایت سے ہے جو کثیر الغلط ہیں، اس لیے یہ ضعیف ہے، معنی کے لحاظ سے بھی یہ ٹکڑا صحیح نہیں ہے، اس سے دوسرے ان انبیاء کی نسب کی تنقیص لازم آتی ہے، جو اسحاق علیہ السلام کی نسل سے ہیں، اس کے بعد والے اجزاء میں اس طرح کی کوئی بات نہیں اس حدیث سے نبی کریم محمد بن عبداللہ عبدالمطلب کے سلسلہ نسب کے شروع سے اخیر تک اشرف نسب ہونے پر روشنی پڑتی ہے، نبی قوم کے اشرف نسب ہی میں مبعوث ہوتا ہے، تاکہ کسی کے لیے کسی بھی مرحلے میں اس کی اعلیٰ نسبی اس نبی پر ایمان لانے میں رکاوٹ نہ بن سکے، یہ بھی اللہ کی اپنے بندوں پر ایک طرح کی مہربانی ہی ہے کہ اس کے اپنے وقت کے نبی پر ایمان لانے میں کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ سی بات رکاوٹ نہ بن سکے، «فالحمدللہ الرحمن الرحیم» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون الاصطفاء الأول، الصحيحة (302) ، ويأتى برقم (3869) ، (3687) // أي في صحيح سنن الترمذي - باختصار السند - برقم (2855 / 1 - 3869) ، ضعيف الجامع الصغير (1553) //

حدیث نمبر: 3606
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي شَدَّادٌ أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي وَاثِلَةُ بْنُ الْأَسْقَعِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى كِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيل، وَاصْطَفَى قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى هَاشِمًا مِنْ قُرَيْشٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
واثلہ بن اسقع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے کنانہ کا انتخاب فرمایا اور کنانہ سے قریش کا اور قریش میں سے ہاشم کا اور بنی ہاشم میں سے میرا انتخاب فرمایا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3606]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح) (الصحیحة 302)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (302)

حدیث نمبر: 3607
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: إِنَّ قُرَيْشًا جَلَسُوا فَتَذَاكَرُوا أَحْسَابَهُمْ بَيْنَهُمْ فَجَعَلُوا مَثَلَكَ مَثَلَ نَخْلَةٍ فِي كَبْوَةٍ مِنَ الْأَرْضِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ , فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِهِمْ مِنْ خَيْرِ فِرَقِهِمْ , وَخَيْرِ الْفَرِيقَيْنِ، ثُمَّ تَخَيَّرَ الْقَبَائِلَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ قَبِيلَةٍ، ثُمَّ تَخَيَّرَ الْبُيُوتَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ بُيُوتِهِمْ، فَأَنَا خَيْرُهُمْ نَفْسًا وَخَيْرُهُمْ بَيْتًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ هُوَ ابْنُ نَوْفَلٍ.
عباس بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قریش کے لوگ بیٹھے اور انہوں نے قریش میں اپنے حسب کا ذکر کیا تو آپ کی مثال کھجور کے ایک ایسے درخت سے دی جو کسی کوڑے خانہ پر (اگا) ہو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا، اس نے اس میں سے دو گروہوں کو پسند کیا، اور مجھے ان میں سب سے اچھے گروہ (یعنی اولاد اسماعیل) میں پیدا کیا، پھر اس نے قبیلوں کو چنا اور مجھے بہتر قبیلے میں سے کیا، پھر گھروں کو چنا اور مجھے ان گھروں میں سب سے بہتر گھر میں کیا، تو میں ذاتی طور پر بھی ان میں سب سے بہتر ہوں اور گھرانے کے اعتبار سے بھی بہتر ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3607]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر مایأتي (تحفة الأشراف: 5130) (ضعیف) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف نقد الكتاني (31 - 32) ، الضعيفة (3073) // ضعيف الجامع الصغير (1605) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3607) إسناده ضعيف ¤ يزيد: ضعيف (تقدم:114) و انظر الحديث الآتي :3608

حدیث نمبر: 3608
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ، قَالَ: جَاءَ الْعَبَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: مَنْ أَنَا؟ فَقَالُوا: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْكَ السَّلَامُ، قَالَ: " أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ، ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا، وَخَيْرِهِمْ نَفْسًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ، وَرُوِي عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ.
مطلب بن ابی وداعہ کہتے ہیں کہ عباس رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، گویا انہوں نے کوئی چیز سنی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: میں کون ہوں؟ لوگوں نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں سلامتی ہو آپ پر، آپ نے فرمایا: میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں، اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے ان کے سب سے بہتر مخلوق میں کیا، پھر ان کے دو گروہ کئے تو مجھے ان کے بہتر گروہ میں کیا، پھر انہیں قبیلوں میں بانٹا تو مجھے ان کے سب سے بہتر قبیلہ میں کیا، پھر ان کے کئی گھر کیے تو مجھے ان کے سب سے بہتر گھر میں کیا اور شخصی طور پر بھی مجھے ان میں سب سے بہتر بنایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- جس طرح اسماعیل بن ابی خالد نے یزید بن ابی زیاد سے اور یزید بن ابی زیاد نے عبداللہ بن حارث کے واسطہ سے عباس بن عبدالمطلب سے روایت کی ہے اسی طرح سفیان ثوری نے بھی یزید بن ابی زیاد سے روایت کی ہے (وہ یہی روایت ہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3608]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3532 (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (3073)

قال الشيخ زبير على زئي: (3608) إسناده ضعيف / تقدم:3532

حدیث نمبر: 3609
حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعِ بْنِ الْوَلِيدِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: " وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! نبوت آپ کے لیے کب واجب ہوئی؟ تو آپ نے فرمایا: جب آدم روح اور جسم کے درمیان تھے ۱؎۔ (یعنی ان کی پیدائش کی تیاری ہو رہی تھی)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- اس باب میں میسرہ فجر سے بھی روایت آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3609]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15397) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہی وہ مشہور حدیث ہے جس کی تشریح میں اہل بدعت حد سے زیادہ غلو کا شکار ہوئے ہیں حتیٰ کہ دیگر انبیاء علیہم السلام کی تنقیص تک بات جا پہنچی ہے، حالانکہ اس میں صرف اتنی بات بیان ہوئی ہے کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے میرے لیے نبوت کا فیصلہ (بطور تقدیر) کر دیا گیا تھا، ظاہر بات ہے کہ کسی کے لیے کسی بات کا فیصلہ روز ازل میں اللہ نے لکھ دیا تھا، اور روز ازل آدم علیہ السلام پیدائش سے پہلے، اس حدیث کے ثابت الفاظ یہی ہیں باقی دوسرے الفاظ ثابت نہیں ہیں جیسے «کنت نبیا وآدم بین الماء والطین» میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم ابھی اور مٹی کے درمیان تھے اسی طرح «کنت نبیا ولاماء ولا طین» میں اس وقت نبی تھا جب نہ پانی تھا نہ مٹی، یعنی تخلیق کائنات سے پہلے ہی میں نبی تھا ان الفاظ کے بارے میں علماء محدثین نے «لا اصل لہ» فرمایا ہے، یعنی ان الفاظ کے ساتھ اس حدیث کی کوئی صحیح کیا غلط سند تک نہیں اللہ غلو سے بچائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1856) ، المشكاة (5758)

حدیث نمبر: 3610
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ خُرُوجًا إِذَا بُعِثُوا، وَأَنَا خَطِيبُهُمْ إِذَا وَفَدُوا، وَأَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا أَيِسُوا، لِوَاءُ الْحَمْدِ يَوْمَئِذٍ بِيَدِي، وَأَنَا أَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَى رَبِّي وَلَا فَخْرَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب لوگ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے تو میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہو گی اور جب وہ دربار الٰہی میں آئیں گے تو میں ان کا خطیب ہوں گا، اور جب وہ مایوس اور ناامید ہو جائیں گے تو میں انہیں خوشخبری سنانے والا ہوں گا، حمد کا پرچم اس دن میرے ہاتھ میں ہو گا، اور میں اپنے رب کے نزدیک اولاد آدم میں سب سے بہتر ہوں اور یہ کوئی فخر کی بات نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3610]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 831) (ضعیف) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5765) // ضعيف الجامع الصغير (1309) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3610) إسناده ضعيف ¤ ليث ضعيف (تقدم: 218)

حدیث نمبر: 3611
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ , فَأُكْسَى الْحُلَّةً مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ أَقُومُ عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ لَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْخَلَائِقِ يَقُومُ ذَلِكَ الْمَقَامَ غَيْرِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہو گی پھر مجھے جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا، پھر میں عرش کے داہنی جانب کھڑا ہوں گا، میرے علاوہ وہاں مخلوق میں سے کوئی اور کھڑا نہیں ہو سکے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3611]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13556) (ضعیف) (سند میں حسین بن یزید کوفی، لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5766) // ضعيف الجامع الصغير (1311) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3611) إسناده ضعيف ¤ أبو خالد الدالاني يزيد مدلس وعنعن (د 202) و أحاديث مسلم (196 ، 2278) وغيره تغني عنه

حدیث نمبر: 3612
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الْثَّوْرِيُّ، عَنْ لَيْثٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، حَدَّثَنِي كَعْبٌ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَلُوا اللَّهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَسِيلَةُ؟ قَالَ: " أَعْلَى دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ لَا يَنَالُهَا إِلَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ ". قَالَ: هَذَا غَرِيبٌ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ، وَكَعْبٌ لَيْسَ هُوَ بِمَعْرُوفٍ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى عَنْهُ غَيْرَ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سے میرے لیے وسیلہ کا سوال کرو، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وسیلہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ جنت کا سب سے اونچا درجہ ہے جسے صرف ایک ہی شخص پا سکتا ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہوں گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے،
۲- کعب غیر معروف شخص ہیں، ہم لیث بن سلیم کے علاوہ کسی اور کو نہیں جانتے ہیں جس نے ان سے روایت کی ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3612]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14295) (صحیح) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف، اور کعب مدنی مجہول راوی ہیں، لیکن حدیث نمبر 3614 سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»

وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں مذکورہ وسیلہ سے وہی وسیلہ مراد ہے، جس کی دعا ایک امتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہر اذان کے بعد کرتا ہے، «اللہم آت محمد الوسیلۃ» اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ عطا فرما اس حدیث میں آپ نے جو امت کو اپنے لیے وسیلہ طلب کرنے کے لیے فرمایا خود ہی اس طلب کو اذان کی بعد والی دعا میں کر دیا، اذان سے باہر بھی آدمی نہ دعا کر سکتا ہے، یہ دعا کرنے سے خود آدمی کو دعا کا ثواب ملا کرے گا، آپ کو تو وسیلہ عطا کیا جانے والا ہی ہے، اسی لیے آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ اس سے سرفراز ہونے والا میں ہی ہوں گا تو یقیناً آپ ہی ہوں گے، اس حدیث سے آپ کی فضیلت واضح طور پر ظاہر ہو رہی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (5767) ، وهو الآتى (3876)

حدیث نمبر: 3613
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَثَلِي فِي النَّبِيِّينَ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا فَأَحْسَنَهَا وَأَكْمَلَهَا وَأَجْمَلَهَا وَتَرَكَ مِنْهَا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِالْبِنَاءِ وَيَعْجَبُونَ مِنْهُ , وَيَقُولُونَ: لَوْ تَمَّ مَوْضِعُ تِلْكَ اللَّبِنَةِ، وَأَنَا فِي النَّبِيِّينَ مَوْضِعُ تِلْكَ اللَّبِنَةِ ".
ابی بن کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء میں میری مثال ایک ایسے آدمی کی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور اسے بہت اچھا بنایا، مکمل اور نہایت خوبصورت بنایا، لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس میں پھرتے تھے اور اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے، کاش اس اینٹ کی جگہ بھی پوری ہو جاتی، تو میں نبیوں میں ایسے ہی ہوں جیسی خالی جگہ کی یہ اینٹ ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3613]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 32)، و مسند احمد (5/137) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج فقه السيرة (141)

حدیث نمبر: 3613M
وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ كُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّينَ وَخَطِيبَهُمْ وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرُ فَخْرٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
اور اسی سند سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے آپ نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا تو میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب ہوں گا اور ان کی شفاعت کرنے والا ہوں گا اور (اور اس پر مجھے) کوئی گھمنڈ نہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3613M]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ حدیث منجملہ ان احادیث کے ہے جن سے قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آپ ہی آخری نبی ہیں، آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہے، تو فرمایا کہ میں وہ آخری اینٹ ہوں اب اس اینٹ کے جگہ پر جانے کے بعد کسی اور اینٹ کی ضرورت ہی کیا رہ گئے شاعر نے اس حدیث کی کیا خوب ترجمانی کی ہے: قصر ہدیٰ کے آخری پتھر ہیں مصطفی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج فقه السيرة (141)

قال الشيخ زبير على زئي: (3613ب) إسناده ضعيف / جه 4314 ¤ عبدالله بن محمد بن عقيل ضعيف (تقدم: 997) و أحاديث البخاري (3340 ، 3361 ، 4712) و مسلم (194) وغيرهما تغني عنه . و انظر الحديث السابق (الأصل :2434) وسنده صحيح متفق عليه

حدیث نمبر: 3614
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُّ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، أَخْبَرَنَا كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ، سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا لِيَ الْوَسِيلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، وَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ هَذَا قُرَشِيٌّ مِصْرِيٌّ مَدَنِيٌّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ شَامِيٌّ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جب تم مؤذن کی آواز سنو تو وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے ۱؎ پھر میرے اوپر صلاۃ (درود) بھیجو کیونکہ جس نے میرے اوپر ایک بار درود بھیجا تو اللہ اس پر دس بار اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا، پھر میرے لیے وسیلہ مانگو کیونکہ وہ جنت میں ایک (ایسا بلند) درجہ ہے جس کے لائق اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں اور جس نے میرے لیے (اللہ سے) وسیلہ مانگا تو اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اس سند میں مذکور عبدالرحمٰن بن جبیر قرشی، مصری اور مدنی ہیں اور نفیر کے پوتے عبدالرحمٰن بن جبیر شامی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3614]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 7 (348)، سنن ابی داود/ الصلاة 36 (523)، سنن النسائی/الأذان 37 (679) (تحفة الأشراف: 8871)، و مسند احمد (2/168) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: سوائے «حي على الصلاة، حي على الفلاح» کے اس جواب میں کہا جائے گا، «لا حول ولا قوة إلا بالله» مطلب یہ ہے کہ مؤذن جو صلاۃ و فلاح کے لیے پکار رہا ہے، تو اس پکار کا جواب ہم بندے بغیر اللہ کے عطا کردہ طاقت و توفیق کے نہیں دے سکتے، یعنی صلاۃ میں نہیں حاضر ہو سکتے جب تک کہ اللہ کی مدد اور توفیق نہ ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (242) ، التعليق على بداية السول (20 / 52)

حدیث نمبر: 3615
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور میرے ہاتھ میں حمد کا پرچم ہو گا اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں، اور آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہوں گے سب میرے پرچم کے نیچے ہوں گے، اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس کے لیے زمین شق ہو گی، اور سب سے پہلے قبر سے میں اٹھوں گا اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے،
۲- اسے اسی سند سے ابونضرہ سے روایت ہے، وہ اسے ابن عباس رضی الله عنہما کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3615]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3148 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ تمام باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر انبیاء پر فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ گھمنڈ اس لیے نہیں کہ یہ سب کچھ اللہ عزوجل کے خاص فضل و انعام سے ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4308)

قال الشيخ زبير على زئي: (3615) إسناده ضعيف / تقدم:3148

حدیث نمبر: 3616
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْتَظِرُونَهُ، قَالَ: فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاكَرُونَ فَسَمِعَ حَدِيثَهُمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَجَبًا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيلًا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا، وَقَالَ آخَرُ: مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ كَلَامِ مُوسَى كَلَّمَهُ تَكْلِيمًا، وَقَالَ آخَرُ: فَعِيسَى كَلِمَةُ اللَّهِ وَرُوحُهُ، وَقَالَ آخَرُ: آدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ، فَسَلَّمَ، وَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ كَلَامَكُمْ وَعَجَبَكُمْ: " إِنَّ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلُ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ، وَمُوسَى نَجِيُّ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ، وَعِيسَى رُوحُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ وَهُوَ كَذَلِكَ، وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ وَهُوَ كَذَلِكَ، أَلَا وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّكُ حِلَقَ الْجَنَّةِ فَيَفْتَحُ اللَّهُ لِي فَيُدْخِلُنِيهَا وَمَعِي فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِينَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَكْرَمُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ وَلَا فَخْرَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کچھ لوگ بیٹھے آپ کے حجرے سے نکلنے کا انتظار کر رہے تھے، کہتے ہیں: پھر آپ نکلے یہاں تک کہ جب آپ ان کے قریب آئے تو انہیں آپس میں بحث کرتے سنا، آپ نے ان کی باتیں سنیں، کوئی کہہ رہا تھا، تعجب ہے اللہ نے اپنی مخلوق میں سے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا دوست بنایا، دوسرے نے کہا: موسیٰ سے اس کا کلام کرنا کتنا زیادہ تعجب خیز معاملہ ہے، اور ایک نے کہا: عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں، اور ایک دوسرے نے کہا: آدم کو اللہ نے تو چن لیا ہے، تو آپ نکل کر ان کے سامنے آئے اور انہیں سلام کیا اور فرمایا: میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں اور ابراہیم علیہ السلام کے خلیل اللہ ہونے پر تعجب میں پڑنے کو بھی، واقعی وہ ایسے ہی ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کے اللہ کے نجی اللہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کے کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں اور آدم کے اللہ کا برگزیدہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں، سن لو! میں اللہ کا حبیب ہوں اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں، قیامت کے دن حمد کا پرچم میرے ہاتھ میں ہو گا اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں اور قیامت کے دن میں پہلا وہ شخص ہوں گا جو شفاعت (سفارش) کرے گا اور جس کی شفاعت (سفارش) سب سے پہلے قبول کی جائے گی اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جو جنت کی کنڈی ہلائے گا تو اللہ میرے لیے جنت کو کھول دے گا، پھر وہ مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ فقراء مومنین ہوں گے اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں اور میں اگلوں اور پچھلوں میں سب سے زیادہ معزز ہوں اور اس پر مجھے گھمنڈ نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3616]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6095) (ضعیف) (سند میں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5762) // ضعيف الجامع الصغير (4077) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3616) إسناده ضعيف ¤ زمعة: ضعيف و حديثه عند مسلم مقرون (تق:2035) وقال الهيثمي: وقد ضعفه الجمهور . (مجمع الزوائد 98/5 وانظر 83/8) وقال العراقي: ضعفه الجمهور . (تخريج الأحياء 341/3) و قال البوصيري: وقد ضعفه الجمهور . (زوائد سنن ابن ماجه:501)

حدیث نمبر: 3617
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو مَوْدُودٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الضَّحَّاكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: " مَكْتُوبٌ فِي التَّوْرَاةِ صِفَةُ مُحَمَّدٍ , وَصِفَةُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ يُدْفَنُ مَعَهُ "، فَقَالَ أَبُو مَوْدُودٍ: وَقَدْ بَقِيَ فِي الْبَيْتِ مَوْضِعُ قَبْرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، هَكَذَا قَالَ عُثْمَانُ بْنُ الضَّحَّاكِ، وَالْمَعْرُوفُ الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ الْمَدَنِيُّ.
عبداللہ بن سلام رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ تورات میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال لکھے ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ عیسیٰ بن مریم انہیں کے ساتھ دفن کئے جائیں گے۔ ابوقتیبہ کہتے ہیں کہ ابومودود نے کہا: حجرہ مبارک میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، سند میں راوی نے عثمان بن ضحاک کہا اور مشہور ضحاک بن عثمان مدنی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3617]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5336) (ضعیف) (سند میں عثمان بن ضحاک ضعیف راوی ہیں)»

وضاحت: ۱؎: اس معنی کی کئی احادیث وارد ہیں، مگر سب پر کلام ہے، اور مطلب یہ ہے کہ قرب قیامت میں جب عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے، تو پینتالیس زندہ رہ کر جب وفات پائیں گے تو قبر نبوی کے پاس دفن ہوں گے، «واللہ اعلم» ۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5772)

حدیث نمبر: 3618
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْءٍ، وَلَمَّا نَفَضْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَيْدِي وَإِنَّا لَفِي دَفْنِهِ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبَنَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ دن ہوا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (پہلے پہل) مدینہ میں داخل ہوئے تو اس کی ہر چیز پرنور ہو گئی، پھر جب وہ دن آیا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو اس کی ہر چیز تاریک ہو گئی اور ابھی ہم نے آپ کے دفن سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے کہ ہمارے دل بدل گئے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3618]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 65 (1631) (تحفة الأشراف: 268) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی ان میں وہ نور ایمان باقی نہیں رہا جو آپ کی زندگی میں تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1631)