جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آ کر کسی مسئلہ میں آپ سے بات کی اور آپ نے اسے کسی بات کا حکم دیا تو وہ بولی: مجھے بتائیے اللہ کے رسول! اگر میں آپ کو نہ پاؤں؟ (تو کس کے پاس جاؤں) آپ نے فرمایا: ”اگر تم مجھے نہ پانا تو ابوبکر کے پاس جانا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3676]
وضاحت: ۱؎: اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے جانشین ابوبکر رضی الله عنہ کے ہونے کی پیشین گوئی، اور ان کو اپنا جانشین بنانے کا لوگوں کو اشارہ ہے۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس دوران کہ ایک شخص ایک گائے پر سوار تھا اچانک وہ گائے بول پڑی کہ میں اس کے لیے نہیں پیدا کی گئی ہوں، میں تو کھیت جوتنے کے لیے پیدا کی گئی ہوں (یہ کہہ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا اس پر ایمان ہے اور ابوبکر و عمر کا بھی، ابوسلمہ کہتے ہیں: حالانکہ وہ دونوں اس دن وہاں لوگوں میں موجود نہیں تھے“، واللہ اعلم ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3677]
وضاحت: ۱؎: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں کے سلسلہ میں اتنا مضبوط یقین تھا کہ جو میں کہوں گا وہ دونوں اس پر آمنا و صدقنا کہیں گے، اسی لیے ان کے غیر موجودگی میں بھی آپ نے ان کی طرف سے تصدیق کر دی، یہ ان کی فضیلت کی دلیل ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسجد کی طرف کھلنے والے) سارے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا سوائے ابوبکر رضی الله عنہ کے دروازہ کے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے ۲- اس باب میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3678]
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: ”تم جہنم سے اللہ کے آزاد کردہ ہو تو اسی دن سے ان کا نام عتیق رکھ دیا گیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- بعض راویوں نے یہ حدیث معن سے روایت کی ہے اور سند میں «عن موسى بن طلحة عن عائشة» کہا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3679]
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی نبی ایسا نہیں جس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے نہ ہوں اور دو وزیر زمین والوں میں سے نہ ہوں، رہے میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے تو وہ جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حدیث حسن غریب ہے، ۲- اور ابوالجحاف کا نام داود بن ابوعوف ہے، سفیان ثوری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سے ابوالجحاف نے بیان کیا (اور وہ ایک پسندیدہ شخص تھے) ۳- اور تلید بن سلیمان کی کنیت ابوادریس ہے اور یہ اہل تشیع میں سے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3680]