الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
47. باب مَنَاقِبِ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه
47. باب: ابوہریرہ رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
حدیث نمبر: 3834
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَسَطْتُ ثَوْبِي عِنْدَهُ، ثُمَّ أَخَذَهُ فَجَمَعَهُ عَلَى قَلْبِي , فَمَا نَسِيتُ بَعْدَهُ حَدِيثًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کے پاس اپنی چادر پھیلا دی، آپ نے اسے اٹھایا اور سمیٹ کر اسے میرے دل پر رکھ دیا، اس کے بعد سے میں کوئی چیز نہیں بھولا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3834]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر مابعدہ (تحفة الأشراف: 14885) (حسن الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد صحيحه

حدیث نمبر: 3835
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَسْمَعُ مِنْكَ أَشْيَاءَ فَلَا أَحْفَظُهَا، قَالَ: " ابْسُطْ رِدَاءَكَ "، فَبَسَطْتُهُ فَحَدَّثَ حَدِيثًا كَثِيرًا فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا حَدَّثَنِي بِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بہت سی چیزیں آپ سے سنتا ہوں لیکن انہیں یاد نہیں رکھ پاتا، آپ نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ، تو میں نے اسے پھیلا دیا، پھر آپ نے بہت سے حدیثیں بیان فرمائیں، تو آپ نے جتنی بھی حدیثیں مجھ سے بیان فرمائیں میں ان میں سے کوئی بھی نہیں بھولا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور ابوہریرہ رضی الله عنہ سے کئی سندوں سے آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3835]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 42 (119)، والمناقب 28 (3648) (تحفة الأشراف: 13015) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3836
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: " يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْتَ كُنْتَ أَلْزَمَنَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَحْفَظَنَا لِحَدِيثِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے کہا: ابوہریرہ! آپ ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنے والے اور ہم سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں یاد رکھنے والے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3836]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8557) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

حدیث نمبر: 3837
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ , فَقَالَ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَرَأَيْتَ هَذَا الْيَمَانِيَّ يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ، أَهُوَ أَعْلَمُ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكُمْ؟ نَسْمَعُ مِنْهُ مَا لَا نَسْمَعُ مِنْكُمْ، أَوْ يَقُولُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ يَقُلْ؟ قَالَ: " أَمَّا أَنْ يَكُونَ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ نَسْمَعْ فَلَا أَشُكُّ , إِلَّا أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ نَسْمَعْ , وَذَاكَ أَنَّهُ كَانَ مِسْكِينًا لَا شَيْءَ لَهُ، ضَيْفًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَدُهُ مَعَ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُنَّا نَحْنُ أَهْلَ بُيُوتَاتٍ وَغِنًى وَكُنَّا نَأْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَيِ النَّهَارِ، فَلَا أَشُكُّ إِلَّا أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ نَسْمَعْ , وَلَا نَجِدُ أَحَدًا فِيهِ خَيْرٌ يَقُولُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ يَقُلْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، وَقَدْ رَوَاهُ يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، وَغَيْرُهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق.
مالک بن ابوعامر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے طلحہ بن عبیداللہ کے پاس آ کر کہا: اے ابو محمد! کیا یہ یمنی شخص یعنی ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کا آپ لوگوں سے زیادہ جانکار ہے، ہم اس سے ایسی حدیثیں سنتے ہیں جو آپ سے نہیں سنتے یا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسی بات گھڑ کر کہتا ہے جو آپ نے نہیں فرمائی، تو انہوں نے کہا: نہیں ایسی بات نہیں، واقعی ابوہریرہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی چیزیں سنی ہیں جو ہم نے آپ سے نہیں سنیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مسکین تھے، ان کے پاس کوئی چیز نہیں تھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان رہتے تھے، ان کا ہاتھ (کھانے پینے میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کے ساتھ پڑتا تھا، اور ہم گھربار والے تھے اور مالدار لوگ تھے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صبح میں اور شام ہی میں آ پاتے تھے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی چیزیں سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں، اور تم کوئی ایسا آدمی نہیں پاؤ گے جس میں کوئی خیر ہو اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اسے یونس بن بکیر نے اور ان کے علاوہ دوسرے راویوں نے بھی محمد بن اسحاق سے روایت کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3837]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5010) (ضعیف الإسناد) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: (3837) إسناده ضعيف ¤ ابن إسحاق عنعن (تقدم:58)

حدیث نمبر: 3838
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنِ بِنْتِ أَزْهَرَ السَّمَّانِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَبُو خَلْدَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِمَّنْ أَنْتَ؟ " , قَالَ: قُلْتُ: مِنْ دَوْسٍ، قَالَ: " مَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ فِي دَوْسٍ أَحَدًا فِيهِ خَيْرٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو خَلْدَةَ اسْمُهُ: خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ , وَأَبُو الْعَالِيَةِ اسْمُهُ: رُفَيْعٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کس قبیلہ سے ہو؟ میں نے عرض کیا: میں قبیلہ دوس کا ہوں، آپ نے فرمایا: میں نہیں جانتا تھا کہ دوس میں کوئی ایسا آدمی بھی ہو گا جس میں خیر ہو گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- ابوخلدہ کا نام خالد بن دینار ہے اور ابوالعالیہ کا نام رفیع ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3838]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12894) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

حدیث نمبر: 3839
حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْمُهَاجِرُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الرِّيَاحِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمَرَاتٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ فِيهِنَّ بِالْبَرَكَةِ، فَضَمَّهُنَّ ثُمَّ دَعَا لِي فِيهِنَّ بِالْبَرَكَةِ، فَقَالَ لِي: " خُذْهُنَّ وَاجْعَلْهُنَّ فِي مِزْوَدِكَ هَذَا، أَوْ فِي هَذَا الْمِزْوَدِ، كُلَّمَا أَرَدْتَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا فَأَدْخِلْ فِيهِ يَدَكَ فَخُذْهُ وَلَا تَنْثُرْهُ نَثْرًا، فَقَدْ حَمَلْتُ مِنْ ذَلِكَ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا مِنْ وَسْقٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ "، فَكُنَّا نَأْكُلُ مِنْهُ وَنُطْعِمُ وَكَانَ لَا يُفَارِقُ حِقْوِي، حَتَّى كَانَ يَوْمُ قَتْلِ عُثْمَانَ فَإِنَّهُ انْقَطَعَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان میں برکت کی دعا فرما دیجئیے، تو آپ نے انہیں اکٹھا کیا پھر ان میں برکت کی دعا کی اور فرمایا: انہیں لے جاؤ اور اپنے توشہ دان میں رکھ لو اور جب تم اس میں سے کچھ لینے کا ارادہ کرو تو اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر لے لو، اسے بکھیرو نہیں چنانچہ ہم نے اس میں سے اتنے اتنے وسق اللہ کی راہ میں دیئے اور ہم اس میں سے کھاتے تھے اور کھلاتے بھی تھے ۱؎ اور وہ (تھیلی) کبھی میری کمر سے جدا نہیں ہوتی تھی، یہاں تک کہ جس دن عثمان رضی الله عنہ قتل کئے گئے تو وہ ٹوٹ کر (کہیں) گر گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ سے دوسری سندوں سے آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3839]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12893) (صحیح) (شواہد کی بنا پر صحیح ہے، الصحیحة: 3963، تراجع الالبانی 227)»

وضاحت: ۱؎: خیر و برکت کی دعا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی مقبول بارگاہ الٰہی آدمی کے لیے کر سکتے ہیں؟ ثابت ہوا کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ مقبول بارگاہ الٰہی تھے۔

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد

حدیث نمبر: 3840
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْمُرَابِطِيُّ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: لِمَ كُنِّيتَ أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قَالَ: أَمَا تَفْرَقُ مِنِّي؟ قُلْتُ: بَلَى وَاللَّهِ إِنِّي لَأَهَابُكَ، قَالَ: " كُنْتُ أَرْعَى غَنَمَ أَهْلِي وَكَانَتْ لِي هُرَيْرَةٌ صَغِيرَةٌ , فَكُنْتُ أَضَعُهَا بِاللَّيْلِ فِي شَجَرَةٍ، فَإِذَا كَانَ النَّهَارُ ذَهَبْتُ بِهَا مَعِي , فَلَعِبْتُ بِهَا , فَكَنَّوْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے پوچھا: آپ کی کنیت ابوہریرہ کیوں پڑی؟ تو انہوں نے کہا: کیا تم مجھ سے ڈرتے نہیں ہو؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ قسم اللہ کی! میں آپ سے ڈرتا ہوں، پھر انہوں نے کہا: میں اپنے گھر والوں کی بکریاں چراتا تھا، میری ایک چھوٹی سی بلی تھی میں اس کو رات میں ایک درخت پر بٹھا دیتا اور دن میں اسے اپنے ساتھ لے جاتا، اور اس سے کھیلتا، تو لوگوں نے میری کنیت ابوہریرہ رکھ دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3840]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13560) (حسن الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد

حدیث نمبر: 3841
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَخِيهِ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: " لَيْسَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي إِلَّا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو , فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَكُنْتُ لَا أَكْتُبُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں مجھ سے زیادہ کسی کو یاد نہیں، سوائے عبداللہ بن عمرو کے کیونکہ وہ لکھ لیتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3841]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2668) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: لکھ لینے کے باوجود عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی روایات ابوہریرہ رضی الله عنہ سے زیادہ نہیں ہیں، یہ صرف ان کا گمان تھا کہ لکھ دینے کی وجہ سے زیادہ ہوں گی، نیز اس روایت میں یہ بات بھی ہے کہ عہد نبوی میں بھی لوگ احادیث رسول لکھا کرتے تھے، خود ابوہریرہ رضی الله عنہ کے پاس بعد میں تحریری شکل میں احادیث کا مجموعہ ہو گیا تھا۔ یہ بھی واضح رہے کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ نے علم حدیث کے سیکھنے سکھانے کو اپنی زندگی کا مشغلہ بنا لیا تھا، جب سے مدینہ آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دن رات رہ کر احادیث کا علم حاصل کیا، بعد میں ۵۷ھ سے ۵۸ھ تک اسی کے نشر و اشاعت میں مدینۃ الرسول اور مسجد رسول میں بیٹھ کر مشغول رہے، جب کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما نے مدینہ چھوڑ کر طائف کی سکونت اختیار کر لی، اور شاید اسی وجہ سے آپ کی احادیث ہم تک نہیں پہنچ سکیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح