الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
72. باب فِي فَضْلِ الْيَمَنِ
72. باب: یمن کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 3934
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْقَطَوَانِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظَرَ قِبَلَ الْيَمَنِ , فَقَالَ: " اللَّهُمَّ أَقْبِلْ بِقُلُوبِهِمْ، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ.
زید بن ثابت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف دیکھا اور فرمایا: اے اللہ! ان کے دلوں کو ہماری طرف پھیر دے اور ہمارے صاع اور مد میں ہمیں برکت دے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے یعنی زید بن ثابت کی اس حدیث کو صرف عمران قطان کی روایت سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3934]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3697) (حسن صحیح)»

وضاحت: ۱؎: مدینہ میں زیادہ تر علم یمن سے آیا کرتا تھا، اس لیے آپ نے اہل یمن کی دلوں کو مدینہ کی طرف پھیر دینے کی دعا فرمائی، اسی مناسبت سے آپ نے مدینہ کی صاع اور مد (یعنی صاع اور مد میں ناپے جانے غلے) میں برکت کی دعا فرمائی۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، المشكاة (6263 / التحقيق الثانى) ، الإرواء (4 / 176)

حدیث نمبر: 3935
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَاكُمْ أَهْلُ الْيَمَنِ هُمْ أَضْعَفُ قُلُوبًا , وَأَرَقُّ أَفْئِدَةً الْإِيمَانُ يَمَانٍ , وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ ". وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس اہل یمن آئے وہ نرم دل اور رقیق القلب ہیں، ایمان یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3935]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 74 (4388، 4390)، صحیح مسلم/الإیمان 21 (52/84) (تحفة الأشراف: 15047)، و مسند احمد (2/252، 258، 258، 480، 541) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: بقول بعض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان و حکمت کو جو یمنی فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان و حکمت دونوں مکہ سے نکلے ہیں اور مکہ تہامہ سے ہے اور تہامہ سر زمین یمن میں داخل ہے، اور بقول بعض یہاں ظاہری معنی ہی مراد لینے میں کوئی حرج نہیں، یعنی یہاں خاص یمن جو معروف ہے کہ وہ لوگ مراد ہیں جو اس وقت یمن سے آئے تھے، نہ کہ ہر زمانہ کے اہل یمن مراد ہیں، نیز یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ یمن والوں سے بہت آسانی سے ایمان قبول کر لیا، جبکہ دیگر علاقوں کے لوگوں پر بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی تھی، اس لیے اہل یمن (اس وقت کے اہل یمن) کی تعریف کی، «واللہ اعلم»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (1034)

حدیث نمبر: 3936
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مَرْيَمَ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُلْكُ فِي قُرَيْشٍ، وَالْقَضَاءُ فِي الْأَنْصَارِ، وَالْأَذَانُ فِي الْحَبَشَةِ، وَالْأَمَانَةُ فِي الْأَزْدِ يَعْنِي: الْيَمَنَ ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلطنت (حکومت) قریش میں رہے گی، اور قضاء انصار میں اور اذان حبشہ میں اور امانت قبیلہ ازد میں یعنی یمن میں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3936]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15461) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1083)

حدیث نمبر: 3936M
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي مَرْيَمَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، نَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا اور عبدالرحمٰن نے معاویہ بن صالح سے اور معاویہ نے ابومریم انصاری کے واسطہ سے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی، اور اسے مرفوع نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اور یہ زید بن حباب کی (اوپر والی) حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3936M]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1083)

حدیث نمبر: 3937
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنِي عَمِّي صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الْكَبِيرِ بْنِ شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ، حَدَّثَنِي عَمِّي عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْأَزْدُ أُسْدُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ، يُرِيدُ النَّاسُ أَنْ يَضَعُوهُمْ , وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يَرْفَعَهُمْ، وَلَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَقُولُ الرَّجُلُ: يَا لَيْتَ أَبِي كَانَ أَزْدِيًّا، يَا لَيْتَ أُمِّي كَانَتْ أَزْدِيَّةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ أَنَسٍ مَوْقُوفٌ وَهُوَ عِنْدَنَا أَصَحُّ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ازد» (اہل یمن) زمین میں اللہ کے شیر ہیں، لوگ انہیں گرانا چاہتے ہیں اور اللہ انہیں اٹھانا چاہتا ہے، اور لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ آدمی کہے گا، کاش! میرا باپ ازدی ہوتا، کاش میری ماں! ازدیہ ہوتی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- یہ حدیث اس سند سے انس سے موقوف طریقہ سے آئی ہے، اور یہ ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3937]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 919) (ضعیف) (سند میں صالح بن عبد الکریم مجہول ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (2467) // ضعيف الجامع الصغير (2275) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3937) سنده حسن ¤ صالح بن عبدالكبير حسن له ابن شاهين (تاريخ دمشق 248/42۔249) و روي له الضياء فى المختارة

حدیث نمبر: 3938
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنِي غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: " إِنْ لَمْ نَكُنْ مِنَ الْأَزْدِ، فَلَسْنَا مِنَ النَّاسِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اگر ہم ازدی (یعنی قبیلہ ازد کے) نہ ہوں تو ہم آدمی ہیں ہی نہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3938]
تخریج الحدیث: «(صحیح) تحفة الأحوذی (4196/10/304) کے نسخے میں یہ حدیث ہے، اور مکتبة المعارف کے نسخے اور تحفة الأشراف میں یہ حدیث نہیں ہے)»

وضاحت: ۱؎: یعنی ہم مکمل انسان نہ ہوتے، انس رضی الله عنہ قبیلہ انصار کے تھے، اور سارے انصار قبیلہ ازد کے ہیں، اور یہ قبیلہ یمن سے حجاز آیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوف

حدیث نمبر: 3939
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ زَنْجُوَيْهِ بَغْدَادِيٌّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ مِينَاءَ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ رَجُلٌ أَحْسِبُهُ مِنْ قَيْسٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْعَنْ حِمْيَرًا فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ جَاءَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ جَاءَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ جَاءَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَحِمَ اللَّهُ حِمْيَرًا أَفْوَاهُهُمْ سَلَامٌ , وَأَيْدِيهِمْ طَعَامٌ , وَهُمْ أَهْلُ أَمْنٍ وَإِيمَانٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، وَيُرْوَى عَنْ مِينَاءَ هَذَا أَحَادِيثُ مَنَاكِيرُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا (میرا خیال ہے کہ وہ قبیلہ قیس کا تھا) اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قبیلہ حمیر پر لعنت فرمائیے، تو آپ نے اس سے چہرہ پھیر لیا، پھر وہ دوسری طرف سے آپ کے پاس آیا، آپ نے پھر اس سے اپنا چہرہ پھیر لیا، پھر وہ دوسری طرف سے آیا تو آپ نے پھر اپنا چہرہ پھیر لیا، پھر وہ دوسری طرف سے آیا تو آپ نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور فرمایا: اللہ حمیر پر رحم کرے، ان کے منہ میں سلام ہے، ان کے ہاتھ میں کھانا ہے، اور وہ امن و ایمان والے لوگ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے عبدالرزاق کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- اور میناء سے بہت سی منکر حدیثیں روایت کی جاتی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3939]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14633)، و مسند احمد (2/278) (موضوع) (سند میں مینا بن ابی مینا متروک شیعی راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو: الضعیفة 349)»

قال الشيخ الألباني: موضوع، الضعيفة (349) // ضعيف الجامع الصغير (3109) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3939) إسناده ضعيف جدًا ¤ ميناء متروك ورمي بالرفض وكذبه أبو حاتم (تق:7059) وقال الهيثمي : وضعفه الجمهور (مجمع الزوائد 22/9)