الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
75. باب فِي فَضْلِ الشَّأْمِ وَالْيَمَنِ
75. باب: شام اور یمن کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 3953
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنُ ابْنَةِ أَزْهَرَ السَّمَّانِ، حَدَّثَنِي جَدِّي أَزْهَرُ السَّمَّانُ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَأمِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا "، قَالُوا: وَفِي نَجْدِنَا، قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا "، قَالُوا: وَفِي نَجْدِنَا، قَالَ: " هُنَاكَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِهَا، أَوْ قَالَ: مِنْهَا، يَخْرُجُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَوْنٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، لوگوں نے عرض کیا: اور ہمارے نجد میں، آپ نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، لوگوں نے عرض کیا: اور ہمارے نجد میں، آپ نے فرمایا: یہاں زلزلے اور فتنے ہیں، اور اسی سے شیطان کی سینگ نکلے گی، (یعنی شیطان کا لشکر اور اس کے مددگار نکلیں گے) ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے یعنی ابن عون کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- یہ حدیث بطریق: «سالم بن عبد الله بن عمر عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» بھی آئی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3953]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستسقاء 27 (1037)، والفتن 16 (7094) (تحفة الأشراف: 7745) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: محقق شارحین حدیث نے قطعی دلائل اور تاریخی حقائق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس حدیث میں مذکور نجد سے مراد عراق ہے، تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ دینی فتنے زیادہ تر عراق سے اٹھے، لغت میں نجد اونچی زمین (سطح مرتفع) کو کہا جاتا ہے، سعودیہ میں واقع نجد کو بھی اسی وجہ سے نجد کہا جاتا ہے، اس اعتبار سے عراق پر بھی نجد کا لفظ صادق آتا ہے، اور حسی و معنوی دینی فتنوں کے عراق سے ظہور نے یہ ثابت کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہی عراق اور مضافات کا علاقہ تھا، بدعتی فرقوں نے اس حدیث کا مصداق شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تحریک کو قرار دیا ہے، «شتان مابین الیزیدین» سلف صالحین کے عقیدہ اور فہم شریعت کے مطابق چلائی گئی تحریک چاہے مذمومہ نجد ہی سے کیوں نہ ہو اس حدیث کا مصداق کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر نجدی تحریک مراد ہو گی تو اصل اسلام ہی مراد ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج فضائل الشام (8) ، الصحيحة (2246)

حدیث نمبر: 3954
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَال: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُؤَلِّفُ الْقُرْآنَ مِنَ الرِّقَاعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " طُوبَى لِلشَّأْمِ "، فَقُلْنَا: لِأَيٍّ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " لِأَنَّ مَلَائِكَةَ الرَّحْمَنِ بَاسِطَةٌ أَجْنِحَتَهَا عَلَيْهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ.
زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کاغذ کے پرزوں سے قرآن کو مرتب کر رہے تھے، تو آپ نے فرمایا: مبارکبادی ہو شام کے لیے، ہم نے عرض کیا: کس چیز کی اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اس بات کی کہ رحمن کے فرشتے ان کے لیے اپنے بازو بچھاتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف یحییٰ بن ایوب کی روایت سے جانتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3954]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3728)، وانظر: مسند احمد (5/184) (صحیح) (ملاحظہ ہو: الصحیحة رقم 503)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الفضائل أيضا رقم (1) ، المشكاة (6624) ، الصحيحة (502)

حدیث نمبر: 3955
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ يَفْتَخِرُونَ بِآبَائِهِمُ الَّذِينَ مَاتُوا، إِنَّمَا هُمْ فَحْمُ جَهَنَّمَ، أَوْ لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللَّهِ مِنَ الْجُعَلِ الَّذِي يُدَهْدِهُ الْخِرَاءَ بِأَنْفِهِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالْآبَاءِ، إِنَّمَا هُوَ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ، وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ، النَّاسُ كُلُّهُمْ بَنُو آدَمَ , وَآدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باز آ جائیں وہ قومیں جو اپنے ان آباء و اجداد پر فخر کر رہی ہیں جو مر گئے ہیں، وہ جہنم کا کوئلہ ہیں ورنہ وہ اللہ کے نزدیک اس گبریلے سے بھی زیادہ ذلیل ہو جائیں گے، جو اپنے آگے اپنی ناک سے نجاست دھکیلتا رہتا ہے، اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت کو ختم کر دیا ہے، اب تو لوگ مومن و متقی ہیں یا فاجر و بدبخت، لوگ سب کے سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3955]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13074) (حسن)»

وضاحت: ۱؎: اس سے مراد وہ آباء و اجداد ہیں جن کی وفات کفر کی حالت میں ہو چکی تھی، وہ کیسے بھی عال نسب ہوں، ان پر مسلمانوں کو فخر کرنا درست نہیں کیونکہ ان کی وفات کفر پر ہوئی ہے۔
۲؎: قبائل کے فضائل کے اخیر میں شاید اس حدیث کے لانے سے مولف کا مقصد یہ ہو کہ مذکورہ قبائل کے جو بھی فضائل ہوں اصل کامیابی اور فضیلت کی بات اپنا ایمان وعمل ہے، قبیلہ خاندان کی برتری اور ان پر فخر کچھ کام نہیں آئے گا، یہ فخر بالآخر ذلت کا سبب بن جائے گا۔

قال الشيخ الألباني: حسن، التعليق الرغيب (4 / 21 و 33 - 34) ، غاية المرام (312)

حدیث نمبر: 3956
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُوسَى بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ الْفَرْوِيُّ الْمَدَنِيُّ , حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " قَدْ أَذْهَبَ اللَّهُ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالْآبَاءِ، مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ، وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ، وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ , وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهَذَا أَصَحُّ عِنْدَنَا مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ، وَسَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ قَدْ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَيَرْوِي عَنْ أَبِيهِ أَشْيَاءَ كَثِيرَةً، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَدْ رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي عَامِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور اپنے باپ دادا پر فخر کو ختم کر دیا ہے، اب لوگ مومن و متقی ہیں یا فاجر و بدبخت اور سارے لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن اور یہ ہمارے نزدیک پہلی روایت سے زیادہ صحیح ہے،
۲- سعید مقبری نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے سنا ہے اور وہ اپنے باپ کے واسطے سے بہت سی چیزیں ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں،
۳- سفیان ثوری اور کئی دوسرے راویوں نے یہ حدیث ہشام بن سعد سے، ہشام نے سعید مقبری سے اور سعید مقبری نے ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوعامر کی حدیث کے مانند روایت کی ہے جسے وہ ہشام بن سعد سے روایت کرتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3956]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 120 (5116) (تحفة الأشراف: 14333) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن انظر ما قبله (3955)