الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث (657)
حدیث نمبر سے تلاش:


موطا امام مالك رواية ابن القاسم
نوافل و سنن کا بیان
16. وتر کا بیان
حدیث نمبر: 167
35- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي بالليل إحدى عشرة ركعة يوتر منها بواحدة. فإذا فرغ منها اضطجع على شقه الأيمن.
اور اسی سند (کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعات نماز پڑھتے تھے۔ ان میں سے ایک وتر (آخر میں) پڑھتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فارغ ہوتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے تھے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 167]
تخریج الحدیث: «35- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 120/1 ح 261، ك 7 ب 2 ح 8) التمهيد 121/8، الاستذكار: 232، و أخرجه مسلم (736) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 168
202- مالك عن نافع وعبد الله بن دينار عن عبد الله بن عمر: أن رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الليل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة توتر له ما قد صلى.“
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آ دمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کی نماز دو دو رکعت ہے، پھر جب تم میں سے کسی کو صبح ہو جانے کا ڈر ہو تو وہ ایک رکعت پڑھ لے، اس نے جو نماز پڑھی ہے یہ اسے وتر بنا دے گی ۔ ​ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 168]
تخریج الحدیث: «202- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 123/1 ح 266، ك 7 ب 3 ح 13) التمهيد 240/13، الاستذكار:237، و أخرجه البخاري (990) ومسلم (749) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

حدیث نمبر: 169
503- وبه: عن محمد بن يحيى بن حبان عن ابن محيريز أن رجلا من بني كنانة يدعى المخدجي سمع رجلا فى الشام يدعى أبا محمد يقول: إن الوتر واجب قال المخدجي: فرحت إلى عبادة ابن الصامت فاعترضت له وهو رائح إلى المسجد فأخبرته بالذي قال أبو محمد فقال عبادة: كذب أبو محمد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: خمس صلوات كتبهن الله على العباد فمن جاء بهن لم يضيع منهن شيئيا استخفافا بحقهن كان له عهد عند الله أن يدخله الجنة ومن لم يأت بهن استخفافا بحقهن فليس له عند الله عهد إن شاء عذبه وإن شاء أدخله الجنة.
ابن محیریز رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ بنوکنانہ کے ایک آدمی مخدجی نے شام میں، ابومحمد کو کہتے ہوئے سنا کہ وتر واجب ہے۔ مخدجی نے کہا: کہ پھر میں سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ جب میں ان کے آمنے سامنے آیا تو وہ مسجد کو جا رہے تھے، پھر میں نے انہیں ابومحمد والی بات بتائی تو عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابومحمد نے غلط کہا ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، پس جو شخص (قیامت کے دن) انہیں لے کر آئے گا، اس نے ان کے حق کا استخفاف کرتے ہوئے ان میں سے کچھ بھی ضائع نہیں کیا ہو گا تو اللہ کا اس کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ اور جو شخص ان کے حق کا استخفاف کرتے ہوئے انہیں لے کر نہیں آئے گا تو اس کے ساتھ اللہ کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔ اگر چاہے تو عذاب دے اور اگر چاہے تو جنت میں داخل کر دے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 169]
تخریج الحدیث: «503- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 123/1 ح 267، ك 7 ب 3 ح 14) التمهيد 288/23، الاستذكار: 283، و أخرجه أبوداود (1420) و النسائي (230/1 ح 462) من حديث مالك به وصححه ابن حبان (موارد الظمآن: 252، 253) وله شاهد عند ابي داؤد (325) والحديث به صحيح.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده حسن

حدیث نمبر: 170
522- مالك عن أبى بكر بن عمر بن عبد الرحمن بن عبد الله بن عمر بن الخطاب رضى الله عنه عن سعيد بن يسار أنه قال: كنت أسير مع عبد الله بن عمر بطريق مكة، قال سعيد: فلما خشيت الصبح نزلت فأوترت ثم أدركته، فقال لي عبد الله بن عمر: أين كنت؟ فقلت: خشيت الفجر فنزلت فأوترت، فقال: أليس لك فى رسول الله صلى الله عليه وسلم أسوة حسنة؟ فقلت: بلى والله؛ قال: فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوتر على البعير.
سعید بن یسار رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکے کے راستے میں سفر کر رہا تھا، پھر جب مجھے صبح کا ڈر ہوا تو میں نے (سواری سے) اتر کر وتر پڑھا اور انہیں جا ملا، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے پوچھا: تم کہاں تھے؟ میں نے کہا: مجھے صبح کا ڈر ہوا تو میں نے اتر کر وتر پڑھ لیا۔ انہوں نے فرمایا: کیا تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی زندگی) میں بہترین نمونہ نہیں ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کی قسم! ضرور ہے۔ انہوں نے فرمایا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر وتر پڑھ لیتے تھے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 170]
تخریج الحدیث: «522- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 124/1 ح 268، ك 7 ب 3 ح 15) التمهيد 137/24، الاستذكار: 239، و أخرجه البخاري (999) و مسلم (700/36) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح