الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث (657)
حدیث نمبر سے تلاش:


موطا امام مالك رواية ابن القاسم
روزوں کے مسائل
13. عاشوراء کے روزے کا بیان
حدیث نمبر: 265
27- قال مالك: حدثني ابن شهاب عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف أنه سمع معاوية بن أبى سفيان يوم عاشوراء عام حج وهو على المنبر يقول: يا أهل المدينة، أين علماؤكم؟! سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لهذا اليوم: ”هذا يوم عاشوراء ولم يكتب الله عليكم صيامه وأنا صائم، فمن شاء فليصم ومن شاء فليفطر.“
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے جس سال حج کیا تھا، عاشوراء (دس محرم) والے دن منبر پر فرمایا: اے مدینے والو! تمہارے علماءکہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ عاشوراء کا دن ہے، اس کا روزہ اللہ نے تم پر فرض نہیں کیا۔ میں روزے سے ہوں، جس کی مرضی ہے روزہ رکھے اور جس کی مرضی ہے (یہ) روزہ نہ رکھے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 265]
تخریج الحدیث: «27- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 299/1 ح 672، ك 18 ب 11 ح 34) التمهيد 203/7، الاستذكار: 622، و أخرجه البخاري (2003) ومسلم (1129) من حديث مالك به .»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 266
466- وبه: أنها قالت: كان يوم عاشوراء يوما تصومه قريش فى الجاهلية، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه فى الجاهلية، فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة صامه وأمر بصيامه، فلما فرض رمضان كان هو الفريضة وترك يوم عاشوراء، فمن شاء صامه ومن شاء تركه.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ جاہلیت میں قریش عاشوراءکے ایک دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعثت سے پہلے اسے رکھا کرتے تھے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہ روزہ خود بھی رکھا اور اسے رکھنے کا حکم بھی دیا۔ پھر جب رمضان فرض ہوا تو اسی کے روزے فرض قرار پائے اور عاشوراء کا روزہ ترک کر دیا گیا، پس جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے اسے ترک کر دے یعنی نہ رکھے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 266]
تخریج الحدیث: «466- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 299/1 ح 671، ك 18 ب 11 ح 33) التمهيد 148/22، الاستذكار: 621، و أخرجه البخاري (2002) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح