الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث (657)
حدیث نمبر سے تلاش:


موطا امام مالك رواية ابن القاسم
حرام و ناجائز امور کا بیان
9. ضرورت کے بغیر مانگنا جائز نہیں ہے
حدیث نمبر: 597
174- وبه: عن عطاء بن يسار عن رجل من بني أسد أنه قال: نزلت أنا وأهلي ببقيع الغرقد، فقال لي أهلي: اذهب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسله لنا شيئا نأكله، وجعلوا يذكرون من حاجتهم فذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوجدت عنده رجلا يسأله ورسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”لا أجد ما أعطيك“، فتولى الرجل عنه وهو مغضب وهو يقول: لعمري إنك لتعطي من شئت. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إنه ليغضب على أن لا أجد ما أعطيه، من سأل منكم وله أوقية أو عدلها فقد سأل إلحافا.“ قال الأسدي: فقلت: للقحة لنا خير من أوقية. قال مالك: والأوقية أربعون درهما، قال الأسدي: فرجعت ولم أسأله، فقدم على رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك بشعير وزبيب، فقسم لنا منه حتى أغنانا الله.
بنو اسد کے ایک آدمی (صحابی رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں اور میرے گھر والے بقیع غرقد میں اترے، تو میرے گھر والوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ہمارے لئے کھانے کے لئے کچھ چیز مانگو۔ وہ اپنی محتاجیاں اور ضرورتیں بیان کرنے لگے۔ پس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی دیکھا جو سوال کر رہا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: میرے پاس تجھے دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر وہ آدمی یہ کہتے ہوئے غصے سے واپس لوٹا کہ میری زندگی کی قسم! آپ جسے چاہتے ہیں اسے نوازتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مجھ پر (اس وجہ سے) غصہ کر رہا ہے کہ میرے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ تم میں سے اگر کوئی شخص (اس حالت میں) سوال کرے کہ اس کے پاس ایک اوقیہ چاندی یا اس کے برابر ہو گا تو اس نے لپٹ لپٹ کر سوال کیا۔ اَسدی صحابی نے کہا: ہماری دودھ دینے والی اونٹنی تو ایک اوقیہ چاندی سے بہتر ہے۔ (امام) مالک نے فرمایا: اوقیہ چالیس درہم کو کہتے ہیں۔ اسدی (صحابی رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: پھر میں واپس چلا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی نہیں مانگا۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جَو اور خشک انگور لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے تقسیم کر کے ہمیں بھی دیا حتیٰ کہ اللہ نے ہمیں بے نیاز کر دیا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 597]
تخریج الحدیث: «174- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 999/2 ح 1949، ك 58 ب 2 ح 11) التمهيد 93/4 وقال ”وهو حديث صحيح“، الاستذكار:1886، و أخرجه ا النسائي (98/5، 99 ح 2597) من حديث ابن القاسم عن مالك، و أبوداود (1627) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

حدیث نمبر: 598
255- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وهو على المنبر وهو يذكر الصدقة والتعفف عن المسألة: ”اليد العليا خير من اليد السفلى، واليد العليا المنفقة، والسفلى السائلة.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر صدقے اور مانگنے سے اجتناب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا مانگنے والا ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 598]
تخریج الحدیث: «255- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 998/2 ح 1946، ك 58 ب 2 ح 8) التمهيد 247/15، الاستذكار:1883، أخرجه البخاري (1429) و مسلم (1033/94) من حديث مالك به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

حدیث نمبر: 599
371- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”والذي نفسي بيده، ليأخذ أحدكم حبله فيحتطب على ظهره خير له من أن يأتي رجلا أعطاه الله من فضله فيسأله، أعطاه أو منعه.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی آدمی اپنی رسی لے، پھر لکڑیاں اکھٹی کر کے اپنی پیٹھ پر (رکھ کر) لے آئے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کے پاس جا کر مانگے جسے اللہ نے اپنے فضل (مال) سے نواز رکھا ہو۔ وہ اسے دے یا دھتکار دے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 599]
تخریج الحدیث: «371- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 998/2، 999 ح 1948، نحو المعنيٰ، ك 58 ب 2 ح 10) التمهيد 320/18، الاستذكار: 1885، و أخرجه البخاري (1470) من حديث مالك به، وفي رواية يحيي بن يحيي: ”لان ياخذ“.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح