الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


شمائل ترمذي کل احادیث (417)
حدیث نمبر سے تلاش:


شمائل ترمذي
بَابُ مَا جَاءَ فِي لِبَاسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کا بیان
9. نیا کپڑا پہننے کی دعا
حدیث نمبر: 61
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَجَدَّ ثَوْبًا سَمَّاهُ بِاسْمِهِ عِمَامَةً أَوْ قَمِيصًا أَوْ رِدَاءً، ثُمَّ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كَمَا كَسَوْتَنِيهِ، أَسْأَلُكَ خَيْرَهُ وَخَيْرَ مَا صُنِعَ لَهُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَهُ» .
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نیا کپڑا زیب تن فرماتے تو اس کو اس نام سے موسوم فرماتے، جیسے عمامہ، قمیص یا چادر، پھر (یہ دعا) پڑھتے: «اللهم لك الحمد كما كسوتنيه، اسالك خيره و خير ما صنع له، و اعوذبك من شره و شرما صنع له» اے اللہ! ہر قسم کی تعریف تیرے لیے ہے جس طرح تو نے مجھے یہ پہنایا ہے میں تجھ سے اس کی خیر اور اس چیز کی خیر جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے مانگتا ہوں، اور میں تجھ سے اس کے شر اور جس چیز کے لئے بنایا گیا اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي لِبَاسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 61]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» :
«‏‏‏‏(سنن ترمذي:1767، وقال: حسن غريب صحيح)، (سنن ابي داود: 4020)»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

حدیث نمبر: 62
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُونُسَ الْكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ
اسی طرح دوسری سند بھی آتی ہے یعنی ہشام بن یونس، قاسم بن مالک مزنی سے، وہ جریری سے، وہ ابونضرۃ سے، وہ سیدنا ابوسعید خدری سے یہی روایت بیان کرتے ہیں۔ [شمائل ترمذي/بَابُ مَا جَاءَ فِي لِبَاسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ/حدیث: 62]
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» :
«‏‏‏‏(سنن ترمذي:1767، وقال: حسن غريب صحيح)، (سنن ابي داود: 4020)»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح