الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح البخاري
كِتَاب الشَّهَادَاتِ
کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان
30. بَابُ الْقُرْعَةِ فِي الْمُشْكِلاَتِ:
30. باب: مشکلات کے وقت قرعہ اندازی کرنا۔
حدیث نمبر: Q2686
وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ سورة آل عمران آية 44، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ اقْتَرَعُوا فَجَرَتِ الْأَقْلَامُ مَعَ الْجِرْيَةِ، وَعَالَ قَلَمُ زَكَرِيَّاءَ الْجِرْيَةَ، فَكَفَلَهَا زكَرِيَّاءُ، وَقَوْلِهِ فَسَاهَمَ أَقْرَعَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ سورة الصافات آية 141 مِنَ الْمَسْهُومِينَ، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَرَضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَوْمٍ الْيَمِينَ، فَأَسْرَعُوا، فَأَمَرَ أَنْ يُسْهِمَ بَيْنَهُمْ أَيُّهُمْ يَحْلِفُ.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد «إذ يلقون أقلامهم أيهم يكفل مريم» جب وہ اپنی قلمیں ڈالنے لگے (قرعہ اندازی کے لیے تاکہ) فیصلہ کر سکیں کہ مریم کی کفالت کون کرے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا) کہ جب سب لوگوں نے (نہر اردن میں) اپنے اپنے قلم ڈالے، تو تمام قلم پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہہ گئے، لیکن زکریا علیہ السلام کا قلم اس بہاؤ میں اوپر آ گیا۔ اس لیے انہوں نے ہی مریم علیہا السلام کی تربیت اپنے ذمہ لی اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد «فساهم» کے معنی ہیں پس انہوں نے قرعہ ڈالا۔ «فكان من المدحضين» (میں «مدحضين» کے معنی ہیں) «من المسهومين» یعنی قرعہ انہیں کے نام پر نکلا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسی مقدمہ میں مدعیٰ علیہ ہونے کی بنا پر) کچھ لوگوں سے قسم کھانے کے لیے فرمایا، تو وہ سب (ایک ساتھ) آگے بڑھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں قرعہ ڈالنے کے لیے حکم فرمایا تاکہ فیصلہ ہو کہ سب سے پہلے قسم کون آدمی کھائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: Q2686]
حدیث نمبر: 2686
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي الشَّعْبِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُودِ اللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا، مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا سَفِينَةً، فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَا وَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلَاهَا، فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَا يَمُرُّونَ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَ فِي أَعْلَاهَا فَتَأَذَّوْا بِهِ، فَأَخَذَ فَأْسًا، فَجَعَلَ يَنْقُرُ أَسْفَلَ السَّفِينَةِ، فَأَتَوْهُ، فَقَالُوا: مَا لَكَ؟ قَالَ: تَأَذَّيْتُمْ بِي، وَلَا بُدَّ لِي مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَنْجَوْهُ وَنَجَّوْا أَنْفُسَهُمْ، وَإِنْ تَرَكُوهُ أَهْلَكُوهُ وَأَهْلَكُوا أَنْفُسَهُمْ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے، کہا کہ ہم سے شعبی نے بیان کیا، انہوں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی حدود میں سستی برتنے والے اور اس میں مبتلا ہو جانے والے کی مثال ایک ایسی قوم کی سی ہے جس نے ایک کشتی (پر سفر کرنے کے لیے جگہ کے بارے میں) قرعہ اندازی کی۔ پھر نتیجے میں کچھ لوگ نیچے سوار ہوئے اور کچھ اوپر۔ نیچے کے لوگ پانی لے کر اوپر کی منزل سے گزرتے تھے اور اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی۔ اس خیال سے نیچے والا ایک آدمی کلہاڑی سے کشتی کا نیچے کا حصہ کاٹنے لگا (تاکہ نیچے ہی سمندر سے پانی لے لیا کرے) اب اوپر والے آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کو (میرے اوپر آنے جانے سے) تکلیف ہوتی تھی اور میرے لیے بھی پانی ضروری تھا۔ اب اگر انہوں نے نیچے والے کا ہاتھ پکڑ لیا تو انہیں بھی نجات دی اور خود بھی نجات پائی۔ لیکن اگر اسے یوں ہی چھوڑ دیا تو انہیں بھی ہلاک کیا اور خود بھی ہلاک ہو گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2686]
حدیث نمبر: 2687
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيُّ،" أَنَّ أُمَّ الْعَلَاءِ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِمْ قَدْ بَايَعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْهُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ طَارَ لَهُ سَهْمُهُ فِي السُّكْنَى حِينَ أَقْرَعَتِ الْأَنْصَارُ سُكْنَى الْمُهَاجِرِينَ، قَالَتْ أُمُّ الْعَلَاءِ: فَسَكَنَ عِنْدَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، فَاشْتَكَى، فَمَرَّضْنَاهُ حَتَّى إِذَا تُوُفِّيَ وَجَعَلْنَاهُ فِي ثِيَابِهِ، دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ أَبَا السَّائِبِ، فَشَهَادَتِي عَلَيْكَ لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللَّهُ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَمَا يُدْرِيكِ أَنَّ اللَّهَ أَكْرَمَهُ؟ فَقُلْتُ: لَا أَدْرِي، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا عُثْمَانُ فَقَدْ جَاءَهُ وَاللَّهِ الْيَقِينُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو لَهُ الْخَيْرَ، وَاللَّهِ مَا أَدْرِي، وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِهِ، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ لَا أُزَكِّي أَحَدًا بَعْدَهُ أَبَدًا، وَأَحْزَنَنِي ذَلِكَ، قَالَتْ: فَنِمْتُ فَأُرِيتُ لِعُثْمَانَ عَيْنًا تَجْرِي، فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: ذَاكِ عَمَلُهُ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے، ان سے خارجہ بن زید انصاری نے بیان کیا کہ ان کی رشتہ دار ایک عورت ام علاء نامی نے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت بھی کی تھی، انہیں خبر دی کہ انصار نے مہاجرین کو اپنے یہاں ٹھہرانے کے لیے قرعے ڈالے تو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا قیام ہمارے حصے میں آیا۔ ام علاء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہمارے گھر ٹھہرے اور کچھ مدت بعد وہ بیمار پڑ گئے۔ ہم نے ان کی تیمارداری کی مگر کچھ دن بعد ان کی وفات ہو گئی۔ جب ہم انہیں کفن دے چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں نے کہا، ابوالسائب! (عثمان رضی اللہ عنہ کی کنیت) تم پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، میری گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے یہاں تمہاری ضرور عزت اور بڑائی کی ہو گی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بات تمہیں کیسے معلوم ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت اور بڑائی کی ہو گی۔ میں نے عرض کیا، میرے ماں اور باپ آپ پر فدا ہوں، مجھے یہ بات کسی ذریعہ سے معلوم نہیں ہوئی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عثمان کا جہاں تک معاملہ ہے، تو اللہ گواہ ہے کہ ان کی وفات ہو چکی اور میں ان کے بارے میں اللہ سے خیر ہی کی امید رکھتا ہوں، لیکن اللہ کی قسم! اللہ کے رسول ہونے کے باوجود مجھے بھی یہ علم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا۔ ام علاء رضی اللہ عنہا کہنے لگیں، اللہ کی قسم! اب اس کے بعد میں کسی شخص کی پاکی کبھی بیان نہیں کروں گی۔ اس سے مجھے رنج بھی ہوا (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میں نے ایک ایسی بات کہی جس کا مجھے حقیقی علم نہیں تھا) انہوں نے کہا (ایک دن) میں سو رہی تھی، میں نے خواب میں عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے ایک بہتا ہوا چشمہ دیکھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواب بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ان کا عمل (نیک) تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2687]
حدیث نمبر: 2688
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ، فَأَيَّتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا مَعَهُ، وَكَانَ يَقْسِمُ لِكُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا، غَيْرَ أَنَّ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ وَهَبَتْ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَبْتَغِي بِذَلِكَ رِضَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی زہری سے، انہیں عروہ نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں میں قرعہ اندازی فرماتے اور جس کا نام نکل آتا، انہیں اپنے ساتھ لے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی معمول تھا کہ اپنی ہر بیوی کے لیے ایک دن اور ایک رات مقرر کر دی تھی۔ البتہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے (اپنی عمر کے آخری دور میں) اپنی باری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دی تھی تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کو رضا حاصل ہو (اس سے بھی قرعہ اندازی ثابت ہوئی)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2688]
حدیث نمبر: 2689
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الْأَوَّلِ، ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا عَلَيْهِ لَاسْتَهَمُوا، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي التَّهْجِيرِ لَاسْتَبَقُوا إِلَيْهِ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي الْعَتَمَةِ وَالصُّبْحِ لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوبکر کے غلام سمی نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان اور صف اول میں کتنا ثواب ہے اور پھر (انہیں اس کے حاصل کرنے کے لیے) قرعہ اندازی کرنی پڑتی، تو وہ قرعہ اندازی بھی کرتے اور اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ نماز سویرے پڑھنے میں کتنا ثواب ہے تو لوگ ایک دوسرے سے سبقت کرنے لگیں اور اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ عشاء اور صبح کی کتنی فضیلتیں ہیں تو اگر گھٹنوں کے بل آنا پڑتا تو پھر بھی آتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ/حدیث: 2689]