الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سلسله احاديث صحيحه کل احادیث (4103)
حدیث نمبر سے تلاش:


سلسله احاديث صحيحه
المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات
ابتدائے (مخلوقات)، انبیا و رسل، عجائبات خلائق
2511. یوشع نبی کے لیے سورج کا رکنا اور اس کی وجہ، سابقہ امتوں کے مجاہدوں کا مال غنیمت آگ کھا جاتی تھی
حدیث نمبر: 3865
-" إن الشمس لم تحبس على بشر إلا ليوشع ليالي سار إلى بيت المقدس" وفي رواية" غزا نبي من الأنبياء، فقال لقومه: لا يتبعني رجل قد ملك بضع امرأة، وهو يريد أن يبني بها، ولما يبن" بها"، ولا آخر قد بنى بنيانا، ولما يرفع سقفها، ولا آخر قد اشترى غنما أو خلفات، وهو منتظر ولادها، قال: فغزا، فأدنى للقرية حين صلاة العصر، أو قريبا من ذلك،" وفي رواية: فلقي العدو عند غيبوبة الشمس"، فقال للشمس: أنت مأمورة، وأنا مأمور، اللهم احبسها علي شيئا، فحبست عليه، حتى فتح الله عليه،" فغنموا الغنائم"، قال: فجمعوا ما غنموا، فأقبلت النار لتأكله، فأبت أن تطعمه" وكانوا إذا غنموا الغنمية بعث الله تعالى عليها النار فأكلتها" فقال: فيكم غلول، فليبايعني من كل قبيلة رجل، فبايعوه، فلصقت يد رجل بيده، فقال: فيكم الغلول، فلتبايعني قبيلتك، فبايعته، قال: فلصقت بيد رجلين أو ثلاثة" يده"، فقال: فيكم الغلول، أنتم غللتم،" قال: أجل قد غللنا صورة وجه بقرة من ذهب"، قال: فأخرجوه له مثل رأس بقرة من ذهب، قال: فوضعوه في المال، وهو بالصعيد، فأقبلت النار فأكلته، فلم تحل الغنائم لأحد من قبلنا، ذلك بأن الله تبارك وتعالى رأى ضعفنا وعجزنا فطيبها لنا،" وفي رواية" فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك: إن الله أطعمنا الغنائم رحمة بنا وتخفيفا، لما علم من ضعفنا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک سورج کسی بشر کے لیے کبھی بھی نہیں روکا گیا، سوائے یوشع بن نون کے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ بیت المقدس کی طرف جا رہے تھے، ایک روایت میں ہے: انبیاء میں سے ایک نبی نے جہاد کیا، اس نے اپنی قوم سے کہا: وہ آدمی میرے ساتھ نہ آئے جو کسی عورت کی شرمگاہ کا مالک بن چکا ہے (‏‏‏‏یعنی اس نے نکاح کر لیا ہے) اور رخصتی کرنا چاہتا ہے، لیکن ابھی تک نہیں کی، وہ آدمی بھی (‏‏‏‏میرے لشکر میں شریک) نہ ہو، جس نے کوئی گھر بنانا شروع کیا ہے، لیکن ابھی تک چھت نہیں کیا اور جو آدمی بکریاں یا ایسے حاملہ جانور خرید چکا ہے، کہ جن کے بچوں کی ولادت کا اسے انتظار ہے، وہ بھی ہمارے ساتھ نہ آئے۔ (‏‏‏‏یہ اعلان کرنے کے بعد) وہ غزوہ کے لیے روانہ ہو گیا، جب وہ ایک گاؤں کے پاس پہنچے تو نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا، یا قریب تھا۔ (‏‏‏‏اور ایک روایت میں ہے کہ غروب آفتاب سے پہلے دشمنوں سے مقابلہ ہوا)۔ اس وقت اس نبی نے سورج سے کہا: تو بھی (‏‏‏‏اللہ تعالیٰ کا) مامور ہے اور میں بھی (‏‏‏‏اسی کا) مامور ہوں۔ اے اللہ! تو اس سورج کو میرے لیے کچھ دیر تک روک لے۔ پس اسے روک دیا گیا، (‏‏‏‏وہ جہاد میں مگن رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فتح عطا کی اور کافی غنیمتیں حاصل ہوئیں۔ اس لشکر والوں نے (‏‏‏‏اس وقت کے شرعی قانون کے مطابق) غنیمتوں کا مال جمع کیا، اسے کھانے کے لیے آگ آئی، لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا اصول یہ تھا کہ جب وہ غنیمت کا مال حاصل کرتے تو اللہ تعالیٰ آگ بھیجتا جو اسے کھا جاتی۔ اس نبی نے (‏‏‏‏آگ کے نہ کھانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے) کہا: تم میں سے کسی نے خیانت کی ہے، لہٰذا ہر قبلیے سے ایک ایک آدمی میری بیعت کرے۔ انہوں نے بیعت کی۔ بیعت کے دوران ایک آدمی کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے ساتھ چپک گیا۔ اس وقت انہوں نے کہا: تم میں خیانت ہے۔ اب تیرے قبیلے کا ہر آدمی میری بیعت کرے گا (‏‏‏‏تاکہ مجرم کا پتہ چل سکے)، انہوں نے بیعت شروع کی، بالآخر دو یا تین آدمیوں کے ہاتھ چپک گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: تم میں خیانت ہے، تم نے خیانت کی ہے۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، ہم نے گائے کے چہرے کی مانند بنی ہوئی سونے کی ایک مورتی کی خیانت کی ہے۔ پھر وہ گائے کے چہرے کی طرح کی بنی ہوئی چیز لے کر آئے اور اسے مٹی کے ساتھ مال غنیمت میں رکھ دیا، پھر آگ متوجہ ہوئی اور مال غنیمت کھا گئی۔ ہم (‏‏‏‏امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پہلے کسی کے لیے بھی مال غنیمت حلال نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ ہم ضعیف اور بے بس ہیں تو غنیمتوں کو ہمارے لیے حلال قرار دیا۔ ‏‏‏‏ اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ رحم کرتے ہوئے اور ہماری کمزوری کی بنا پر ہمارے ساتھ تخفیف کرتے ہوئے ہمیں غنیمت کا مال کھانے کی اجازت دے دی۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3865]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 202
حدیث نمبر: 3866
-" ما حبست الشمس على بشر قط إلا على يوشع بن نون ليالي سار إلى بيت المقدس".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏کسی بشر کے لئے کبھی بھی سورج کو نہیں روکا گیا، سوائے یوشع بن نون کے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ بیت المقدس کی طرف جا رہے تھے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3866]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 2226