اور منقول ہے کہ قاضی شریح، عمر بن عبدالعزیز، طاؤس، عطاء اور عبدالرحمٰن بن اذینہ ان لوگوں نے بیماری میں قرض کا اقرار درست رکھا ہے اور امام حسن بصری نے کہا سب سے زیادہ آدمی کو اس وقت سچا سمجھنا چاہئے جب دنیا میں اس کا آخری دن اور آخرت میں پہلا دن ہو اور ابراہیم نخعی اور حکم بن عتبہ نے کہا اگر بیمار وارث سے یوں کہے کہ میرا اس پر کچھ قرضہ نہیں تو یہ ابراء صحیح ہو گا اور رافع بن خدیج (صحابی) نے یہ وصیت کی کہ ان کی بیوی فزاریہ کے دروازے میں جو مال بند ہے وہ نہ کھولا جائے اور امام حسن بصری نے کہا اگر کوئی مرتے وقت اپنے غلام سے کہے میں تجھ کو آزاد کر چکا تو جائز ہے۔ اور شعبی نے کہا کہ اگر عورت مرتے وقت یوں کہے میرا خاوند مجھ کو مہر دے چکا ہے اور میں لے چکی ہوں تو جائز ہو گا اور بعض لوگ (حنفیہ) کہتے ہیں بیمار کا اقرار کسی وارث کے لیے دوسرے وارثوں کی بدگمانی کی وجہ سے صحیح نہ ہو گا۔ پھر یہی لوگ کہتے ہیں کہ امانت اور بضاعت اور مضاربت کا اگر بیمار اقرار کرے تو صحیح ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بدگمانی سے بچے رہو بدگمانی بڑا جھوٹ ہے اور مسلمانو! (دوسرے وارثوں کا حق) مار لینا درست نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے منافق کی نشانی یہ ہے کہ امانت میں خیانت کرے اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء میں فرمایا اللہ تعالیٰ تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ جس کی امانت ہے اس کو پہنچا دو۔ اس میں وارث یا غیر وارث کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ اسی مضمون میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوع حدیث مروی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: Q2749]
ہم سے سلیمان بن داؤد ابوالربیع نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے اسمٰعیل بن جعفر نے ‘ انہوں نے کہا ہم سے نافع بن مالک بن ابی عامر ابوسہیل نے ‘ انہوں نے اپنے باپ سے ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کہے تو جھوٹ کہے اور جب اس کے پاس امانت رکھیں تو خیانت کرے اور جب وعدہ کرے تو خلاف کرے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2749]