الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح البخاري
كِتَاب الْوَصَايَا
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
33. بَابُ إِذَا وَقَفَ أَرْضًا أَوْ بِئْرًا وَاشْتَرَطَ لِنَفْسِهِ مِثْلَ دِلاَءِ الْمُسْلِمِينَ:
33. باب: کسی نے کنواں وقف کیا اور اپنے لیے بھی اس میں سے عام مسلمانوں کی طرح پانی لینے کی شرط لگائی یا زمین وقف کی اور دوسروں کی طرح خود بھی اس سے فائدہ لینے کی شرط کر لی تو یہ بھی درست ہے۔
حدیث نمبر: Q2778
وَأَوْقَفَ أَنَسٌ دَارًا، فَكَانَ إِذَا قَدِمَهَا نَزَلَهَا وَتَصَدَّقَ الزُّبَيْرُ بِدُورِهِ، وَقَالَ لِلْمَرْدُودَةِ مِنْ بَنَاتِهِ: أَنْ تَسْكُنَ غَيْرَ مُضِرَّةٍ، وَلَا مُضَرٍّ بِهَا، فَإِنِ اسْتَغْنَتْ بِزَوْجٍ فَلَيْسَ لَهَا حَقٌّ، وَجَعَلَ ابْنُ عُمَرَ نَصِيبَهُ مِنْ دَارِ عُمَرَ سُكْنَى لِذَوِي الْحَاجَةِ مِنْ آلِ عَبْدِ اللَّهِ.
‏‏‏‏ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ایک گھر وقف کیا تھا (مدینہ میں) جب کبھی مدینہ آتے ‘ اس گھر میں قیام کیا کرتے تھے اور زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھروں کو وقف کر دیا تھا اور اپنی ایک مطلقہ لڑکی سے فرمایا تھا کہ وہ اس میں قیام کریں لیکن اس گھر کو نقصان نہ پہنچائیں اور نہ اس میں کوئی دوسرا نقصان کرے اور جو خاوند والی بیٹی ہوتی اس کو وہاں رہنے کا حق نہیں اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عمر رضی اللہ عنہ کے (وقف کردہ) گھر میں رہنے کا حصہ اپنی محتاج اولاد کو دے دیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: Q2778]
حدیث نمبر: 2778
وَقَالَ عَبْدَانُ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ حُوصِرَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ، وَقَالَ: أَنْشُدُكُمُ اللَّهَ، وَلَا أَنْشُدُ إِلَّا أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ حَفَرَ رُومَةَ فَلَهُ الْجَنَّةُ فَحَفَرْتُهَا، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ، أَنَّهُ قَالَ: مَنْ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَلَهُ الْجَنَّةُ، فَجَهَّزْتُهُمْ، قَالَ: فَصَدَّقُوهُ بِمَا قَالَ. وَقَالَ عُمَرُ:" فِي وَقْفِهِ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهُ أَنْ يَأْكُلَ وَقَدْ يَلِيهِ الْوَاقِفُ وَغَيْرُهُ فَهُوَ وَاسِعٌ لِكُلٍّ".
عبدان نے بیان کیا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی ‘ انہیں شعبہ نے ‘ انہیں ابواسحاق نے ‘ انہیں ابوعبدالرحمٰن نے کہ جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ محاصرے میں لیے گئے تو (اپنے گھر کے) اوپر چڑھ کر آپ نے باغیوں سے فرمایا میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے قسمیہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بیئر رومہ کو کھودے گا اور اسے مسلمانوں کے لیے وقف کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اس کنویں کو کھودہ تھا۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا تھا کہ جیش عسرت (غزوہ تبوک پر جانے والے لشکر) کو جو شخص ساز و سامان سے لیس کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو میں نے ہی اسے مسلح کیا تھا۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ کی ان باتوں کی سب نے تصدیق کی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے وقف کے متعلق فرمایا تھا کہ اس کا منتظم اگر اس میں سے کھائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ منتظم خود واقف بھی ہو سکتا ہے اور کبھی دوسرے بھی ہو سکتے ہیں اور ہر ایک کے لیے یہ جائز ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوَصَايَا/حدیث: 2778]