الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
164. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالاِخْتِلاَفِ فِي الْحَرْبِ وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَى إِمَامَهُ:
164. باب: جنگ میں جھگڑا اور اختلاف کرنا مکروہ ہے اور جو سردار لشکر کی نافرمانی کرے، اس کی سزا کا بیان۔
حدیث نمبر: Q3038
وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَلاَ تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ}. قَالَ قَتَادَةُ الرِّيحُ الْحَرْبُ.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الانفال میں) فرمایا «ولا تنازعوا فتفشلوا وتذهب ريحكم‏» آپس میں پھوٹ نہ پیدا کرو کہ اس سے تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ قتادہ نے کہا کہ (آیت میں) «ريح» سے مراد لڑائی سے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: Q3038]
حدیث نمبر: 3038
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا وأَبَا مُوسَى إِلَى الْيَمَنِ، قَالَ:" يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا، وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا".
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے ‘ ان سے سعید بن ابی بردہ نے ‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ان کے دادا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ اور ابوموسیٰ کو یمن بھیجا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ ہدایت فرمائی تھی کہ (لوگوں کے لیے) آسانی پیدا کرنا ‘ انہیں سختیوں میں مبتلا نہ کرنا ‘ ان کو خوش رکھنا ‘ نفرت نہ دلانا ‘ اور تم دونوں آپس میں اتفاق رکھنا ‘ اختلاف نہ پیدا کرنا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 3038]
حدیث نمبر: 3039
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ، قَالَ: جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّجَّالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ وَكَانُوا خَمْسِينَ رَجُلًا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ، فَقَالَ:" إِنْ رَأَيْتُمُونَا تَخْطَفُنَا الطَّيْرُ فَلَا تَبْرَحُوا مَكَانَكُمْ هَذَا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ، وَإِنْ رَأَيْتُمُونَا هَزَمْنَا الْقَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ فَلَا تَبْرَحُوا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ فَهَزَمُوهُمْ، قَالَ: فَأَنَا وَاللَّهِ رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ قَدْ بَدَتْ خَلَاخِلُهُنَّ وَأَسْوُقُهُنَّ رَافِعَاتٍ ثِيَابَهُنَّ، فَقَالَ: أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُبَيْرٍ الْغَنِيمَةَ أَيْ قَوْمِ الْغَنِيمَةَ ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ فَمَا تَنْتَظِرُونَ، فَقَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُبَيْرٍ أَنَسِيتُمْ مَا، قَالَ: لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّ النَّاسَ فَلَنُصِيبَنَّ مِنَ الْغَنِيمَةِ فَلَمَّا أَتَوْهُمْ صُرِفَتْ وُجُوهُهُمْ، فَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ فَذَاكَ إِذْ يَدْعُوهُمُ الرَّسُولُ فِي أُخْرَاهُمْ، فَلَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا فَأَصَابُوا مِنَّا سَبْعِينَ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ أَصَابَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِينَ وَمِائَةً سَبْعِينَ أَسِيرًا وَسَبْعِينَ قَتِيلًا، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: أَفِي الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجِيبُوهُ، ثُمَّ قَالَ: أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَمَّا هَؤُلَاءِ فَقَدْ قُتِلُوا فَمَا مَلَكَ عُمَرُ نَفْسَهُ، فَقَالَ: كَذَبْتَ وَاللَّهِ يَا عَدُوَّ اللَّهِ إِنَّ الَّذِينَ عَدَدْتَ لَأَحْيَاءٌ كُلُّهُمْ وَقَدْ بَقِيَ لَكَ مَا يَسُوءُكَ، قَالَ: يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ وَالْحَرْبُ سِجَالٌ إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ فِي الْقَوْمِ مُثْلَةً لَمْ آمُرْ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِي، ثُمَّ أَخَذَ يَرْتَجِزُ أُعْلُ هُبَلْ أُعْلُ هُبَلْ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تُجِيبُوا لَهُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَقُولُ، قَالَ: قُولُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ، قَالَ: إِنَّ لَنَا الْعُزَّى وَلَا عُزَّى لَكُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تُجِيبُوا لَهُ، قَالَ: قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَقُولُ، قَالَ: قُولُوا اللَّهُ مَوْلَانَا، وَلَا مَوْلَى لَكُمْ".
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کے موقع پر (تیر اندازوں کے) پچاس آدمیوں کا افسر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تاکید کر دی تھی کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ پرندے ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ پھر بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا ‘ جب تک میں تم لوگوں کو کہلا نہ بھیجوں۔ اسی طرح اگر تم یہ دیکھو کہ کفار کو ہم نے شکست دے دی ہے اور انہیں پامال کر دیا ہے پھر بھی یہاں سے نہ ٹلنا ‘ جب میں تمہیں خود بلا نہ بھیجوں۔ پھر اسلامی لشکر نے کفار کو شکست دے دی۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ اللہ کی قسم! میں نے مشرک عورتوں کو دیکھا کہ تیزی کے ساتھ بھاگ رہی تھیں۔ ان کے پازیب اور پنڈلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ اور وہ اپنے کپڑوں کو اٹھائے ہوئے تھیں۔ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے کہا ‘ کہ غنیمت لوٹو ‘ اے قوم! غنیمت تمہارے سامنے ہے۔ تمہارے ساتھی غالب آ گئے ہیں۔ اب ڈر کس بات کا ہے۔ اس پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ کیا جو ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی ‘ تم اسے بھول گئے؟ لیکن وہ لوگ اسی پر اڑے رہے کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ غنیمت جمع کرنے میں شریک رہیں گے۔ جب یہ لوگ (اکثریت) اپنی جگہ چھوڑ کر چلے آئے تو ان کے منہ کافروں نے پھیر دیئے ‘ اور (مسلمانوں کو) شکست زدہ پا کر بھاگتے ہوئے آئے ‘ یہی وہ گھڑی تھی (جس کا ذکر سورۃ آل عمران میں ہے کہ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو پیچھے کھڑے ہوئے بلا رہے تھے۔ اس سے یہی مراد ہے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ صحابہ کے سوا اور کوئی بھی باقی نہ رہ گیا تھا۔ آخر ہمارے ستر آدمی شہید ہو گئے۔ بدر کی لڑائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ مشرکین کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا ‘ ستر ان میں سے قیدی تھے اور ستر مقتول ‘ (جب جنگ ختم ہو گئی تو ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر) ابوسفیان نے کہا کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے ساتھ موجود ہیں؟ تین مرتبہ انہوں نے یہی پوچھا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دینے سے منع فرما دیا تھا۔ پھر انہوں نے پوچھا ‘ کیا ابن ابی قحافہ (ابوبکر رضی اللہ عنہ) اپنی قوم میں موجود ہیں؟ یہ سوال بھی تین مرتبہ کیا ‘ پھر پوچھا ابن خطاب (عمر رضی اللہ عنہ) اپنی قوم میں موجود ہیں؟ یہ بھی تین مرتبہ پوچھا ‘ پھر اپنے ساتھیوں کی طرف مڑ کر کہنے لگے کہ یہ تینوں قتل ہو چکے ہیں اس پر عمر رضی اللہ عنہ سے نہ رہا گیا اور آپ بول پڑے کہ اے اللہ کے دشمن! اللہ گواہ ہے کہ تو جھوٹ بول رہا ہے جن کے تو نے ابھی نام لیے تھے وہ سب زندہ ہیں اور ابھی تیرا برا دن آنے والا ہے۔ ابوسفیان نے کہا اچھا! آج کا دن بدر کا بدلہ ہے۔ اور لڑائی بھی ایک ڈول کی طرح ہے (کبھی ادھر کبھی ادھر) تم لوگوں کو اپنی قوم کے بعض لوگ مثلہ کئے ہوئے ملیں گے۔ میں نے اس طرح کا کوئی حکم (اپنے آدمیوں کو) نہیں دیا تھا ‘ لیکن مجھے ان کا یہ عمل برا بھی نہیں معلوم ہوا۔ اس کے بعد وہ فخر یہ رجز پڑھنے لگا ‘ ہبل (بت کا نام) بلند رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ہم اس کے جواب میں کیا کہیں یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو کہ اللہ سب سے بلند اور سب سے بڑا بزرگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا ہمارا مددگار عزیٰ (بت) ہے اور تمہارا کوئی بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جواب کیوں نہیں دیتے، صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اس کا جواب کیا دیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہو کہ اللہ ہمارا حامی ہے اور تمہارا حامی کوئی نہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 3039]