ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ دور جاہلیت میں قریش عاشورہ کے دن روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف فرما ہوئے تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا۔ پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورے کا روزہ چھوڑ دیا جس کا جی چاہا اس نے عاشورے کا روزہ رکھا لیا اور جس نے چاہا اس نے نہ رکھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 970]
حدیث نمبر: 971
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشورے کے دن روزہ رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ: ”یہ کیا (وجہ ہے کہ تم عاشورے کا روزہ رکھتے ہو؟)۔“ انھوں نے کہا کہ یہ ایک عمدہ دن ہے، یہ وہ دن ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی لہٰذا موسیٰ علیہ السلام اس دن روزہ رکھتے تھے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کا حقدار ہوں۔“ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم دیا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 971]