الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


بلوغ المرام کل احادیث (1359)
حدیث نمبر سے تلاش:


بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
7. باب صفة الصلاة
7. نماز کی صفت کا بیان
حدیث نمبر: 210
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏إذا قمت إلى الصلاة فأسبغ الوضوء ثم استقبل القبلة فكبر ثم اقرأ ما تيسر معك من القرآن ثم اركع حتى تطمئن راكعا ثم ارفع حتى تعتدل قائما ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا ثم ارفع حتى تطمئن جالسا ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا ثم افعل ذلك في صلاتك كلها» .‏‏‏‏ أخرجه السبعة واللفظ للبخاري ولابن ماجه بإسناد مسلم: «‏‏‏‏حتى تطمئن قائما» .ومثله في حديث رفاعة بن رافع عند أحمد وابن حبان: «‏‏‏‏حتى تطمئن قائما» .‏‏‏‏ولأحمد: «‏‏‏‏فأقم صلبك حتى ترجع العظام» .‏‏‏‏ وللنسائي وأبي داود من حديث رفاعة بن رافع: «‏‏‏‏إنها لا تتم صلاة أحدكم حتى يسبغع الوضوء كما أمره الله تعالى ثم يكبر الله تعالى ويحمده ويثني عليه» .‏‏‏‏ وفيها: «فإن كان معك قرآن فاقرأ وإلا فاحمد الله وكبره وهلله» .‏‏‏‏ ولأبي داود: «‏‏‏‏ثم اقرأ بأم الكتاب وبما شاء الله» .‏‏‏‏ولابن حبان: «‏‏‏‏ثم بما شئت» .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم نماز ادا کرنے کیلئے کھڑا ہونے کا ارادہ کرو تو پہلے وضو اچھی طرح کر لو پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر «الله اكبر» کہو۔ پھر قرآن کا جتنا حصہ تمہیں یاد ہو اس میں سے جتنا آسانی سے پڑھ سکتے ہو، پڑھو۔ پھر رکوع کرو اور پوری طرح اطمینان سے رکوع کرو۔ پھر سیدھا کھڑے (ہو جاؤ) اور پورے اطمینان سے کھڑے رہو، پھر سجدہ کرو اور پورے اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو پھر سجدہ سے اٹھ کر پورے اطمینان سے بیٹھ جاؤ پھر دوسرا سجدہ کرو اور پورے اطمینان سے کرو۔ پس پھر باقی ساری نماز میں اسی طرح (اطمینان سے ارکان نماز ادا کرو)۔ اسے بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور امام احمد نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ امام بخاری کے ہیں۔ ابن ماجہ نے مسلم کی سند سے رکوع سے کھڑے ہونے کے وقت یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ پورے اطمینان سے کھڑے ہو جاؤ۔ احمد اور ابن حبان میں رفاعہ بن رافع بن مالک کی روایت میں بھی اسی طرح ہے اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ اپنی کمر (پشت) کو سیدھا کرو کہ ہڈیاں اپنے مقام میں واپس آ جائیں۔ نسائی اور ابوداؤد میں رفاعہ بن رافع سے ہے کہ جب تک وضو کامل نہ ہو جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے اس وقت تک نماز مکمل نہیں ہو سکتی۔ پھر تکبیر کہے اور اللہ کی حمد و ثناء کرے اور اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے اگر تجھے قرآن کا کچھ حصہ یاد ہو تو اسے پڑھ بصورت دیگر اللہ کی حمد و توصیف کر «الله اكبر» اور «لا إله إلا الله» ۔ ابوداؤد میں ہے کہ پھر سورۃ «فاتحه» پڑھ اور مزید جو اللہ نے چاہا۔ ابن حبان میں ہے پھر جو تم چاہو پڑھو۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 210]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب أمر النبي صلي الله عليه وسلم الذي لا يتم ركوعه بالإعادة، حديث:793، ومسلم، الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة، حديث:397، وأبوداود، الصلاة، حديث:856، والترمذي، الصلاة، حديث:303، والنسائي، الافتتاح، حديث:885، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1060، وأخرجه أحمد:2 /437، وحديث رفاعة أخرجه أحمد: 4 /340، وابن حبان (الإحسان):1784، والنسائي، التطبيق، حديث:1137، وأبوداود، الصلاة، حديث:858.»

حدیث نمبر: 211
وَعَنْ أَبِي حُمَيْدٍ اَلسَّاعِدِيِّ ‏رَضِيَ اللَّهُ عَنْه قَالَ: {رَأَيْتُ اَلنَّبِيَّ ‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ , وَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ , ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرِهِ , فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ اِسْتَوَى حَتَّى يَعُودَ كُلُّ فَقَارٍ مَكَانَهُ , فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا , وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ اَلْقِبْلَةَ , وَإِذَا جَلَسَ فِي اَلرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ عَلَى رِجْلِهِ اَلْيُسْرَى وَنَصَبَ اَلْيُمْنَى , وَإِذَا جَلَسَ فِي اَلرَّكْعَةِ اَلْأَخِيرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ اَلْيُسْرَى وَنَصَبَ اَلْأُخْرَى , وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ} أَخْرَجَهُ اَلْبُخَارِيُّ
سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکبیر (اولیٰ) کے وقت اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر تک اٹھاتے دیکھا ہے اور جب رکوع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑ لیتے تھے اور اپنی پشت مبارک جھکا لیتے پھر جب اپنا سر رکوع سے اوپر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہوتے کہ ہر جوڑ اپنی اپنی جگہ پر پہنچ جاتا (اس کے بعد) پھر جب سجدہ فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ (زمین) پر اس طرح رکھتے کہ نہ زیادہ سمٹے ہوتے اور نہ زمین پر بچھے ہوئے ہوتے۔ حالت سجدہ میں دونوں پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ ہوتیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھ کر قعدہ کرتے تو بایاں پاؤں زمین پر بچھا لیتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آخری قعدہ کرتے تو بایاں پاؤں (دائیں ران کے نیچے سے) آگے بڑھا دیتے اور دایاں کھڑا رکھتے اور سرین پر بیٹھ جاتے۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 211]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب سنة الجلوس في التشهد، حديث:828.»

حدیث نمبر: 212
وَعَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ‏رَضِيَ اللَّهُ عَنْه عَنْ رَسُولِ اَللَّهِ ‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى اَلصَّلَاةِ قَالَ:"وَجَّهْتُ وَجْهِي لِلَّذِي فَطَّرَ اَلسَّمَوَاتِ".‏.‏.‏ إِلَى قَوْلِهِ:"مِنْ اَلْمُسْلِمِينَ , اَللَّهُمَّ أَنْتَ اَلْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ , أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ.‏.‏.‏} إِلَى آخِرِهِ.‏ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ: أَنَّ ذَلِكَ فِي صَلَاةِ اَللَّيْلِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو پہلے یہ دعا پڑھتے کہ «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض ...... من المسلمين، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم أنت الملك لا إله إلا أنت أنت ربي وأنا عبدك .... إلى آخره» میں نے اپنے چہرے کو آسمانوں اور زمینوں کے خالق کی طرف متوجہ کیا اور میں مشرکوں سے نہیں۔ میری نماز و قربانی، میرا جینا و مرنا اللہ رب العزت ہی کے لئے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ اے اللہ! تو ہی مالک، تو ہی معبود ہے، تو میرا رب اور میں تیرا بندہ ہوں۔ (آخر تک) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ رات کہ نماز (تہجد) میں پڑھا کرتے تھے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 212]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، باب الدعاء في صلاة الليل وقيامه، حديث:771.»

حدیث نمبر: 213
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ‏رَضِيَ اللَّهُ عَنْه قَالَ: {كَانَ رَسُولُ اَللَّهِ ‏‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَبَّرَ لِلصَّلَاةِ سَكَتَ هُنَيَّةً , قَبْلِ أَنْ يَقْرَأَ , فَسَأَلْتُهُ , فَقَالَ:"أَقُولُ: اَللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ اَلْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ , اَللَّهُمَّ نقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى اَلثَّوْبُ اَلْأَبْيَضُ مِنْ اَلدَّنَسِ , اَللَّهُمَّ اِغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ} مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ تکبیر تحریمہ کے بعد تھوڑا سا وقفہ فرماتے پھر قرآت شروع کرتے (ایک روز) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وقفہ کے دوران آپ کیا پڑھتے ہیں؟ فرمایا! «اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم نقني من خطاياي كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثلج والبرد» اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے مابین اتنا فاصلہ اور دوری فرما دے کہ جتنا مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں اور خطاؤں سے اس طرح صاف فرما دے کہ جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولوں سے دھو ڈال۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 213]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب ما يقول بعد التكبير، حديث:744، ومسلم، المساجد، باب ما يقال بين تكبيرة الإحرام والقراءة، حديث:598.»

حدیث نمبر: 214
وعن عمر رضي الله عنه أنه كان يقول: سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك رواه مسلم بسند منقطع. ورواه الدارقطني موصولا وموقوفا. ونحوه عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه مرفوعا،‏‏‏‏ عند الخمسة. وفيه: وكان يقول بعد التكبير: «أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه» .‏‏‏‏
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ (وقفہ کے دوران میں) «سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك» پڑھتے تھے اے اللہ تو پاک ہے (ہر عیب اور ہر نقص سے) سب تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں۔ بابرکت ہے تیرا نام اور بلند ہے، تیری شان اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں
اسے مسلم نے منقطع اور دارقطنی نے موصول روایت کیا ہے اور یہ موقوف ہے۔ احمد، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ پانچوں نے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے اسی طرح روایت کیا ہے اور اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ تکبیر تحریمہ کر بعد تعوذ یعنی «أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه» پڑھتے تھے۔ میں اللہ سمیع و علیم کی شیطان مردود سے پناہ لیتا ہوں اس کے وسوسوں سے، اس کے پھونکنے سے یعنی (کبر و نخوت) سے اور اس کے اشعار اور جادو سے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 214]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب حجة من قال لا يجهر بالبسملة، حديث: 399، والدارقطني:1 /299، وحديث أبي سعيد أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث: 775، والترمذي، الصلاة، حديث:242، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:807، والنسائي، الافتتاح، حديث:900، 901، وأحمد:1 /403، 404 و3 /50 و4 /80 و6 /156.»

حدیث نمبر: 215
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يستفتح الصلاة بالتكبير والقراءة بالحمد لله رب العالمين،‏‏‏‏ وكان إذا ركع لم يشخص رأسه ولم يصوبه ولكن بين ذلك،‏‏‏‏ وكان إذا رفع من الركوع لم يسجد حتى يستوي قائما،‏‏‏‏ وكان إذا رفع رأسه من السجود لم يسجد حتى يستوي جالسا،‏‏‏‏ وكان يقول في كل ركعتين التحية،‏‏‏‏ وكان يفرش رجله اليسرى وينصب اليمنى،‏‏‏‏ وكان ينهى عن عقبة الشيطان وينهى أن يفترش الرجل ذراعيه افتراش السبع،‏‏‏‏ وكان يختم الصلاة بالتسليم.أخرجه مسلم وله علة.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا آغاز «الله اكبر» سے کیا کرتے تھے اور قرآت «الحمد لله رب العالمين» (سورۃ «فاتحه») سے شروع کرتے اور جب رکوع کرتے تو اپنا سر مبارک نہ اونچا کرتے اور نہ نیچا کرتے بلکہ اس کے درمیان کی حالت میں رکھتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس وقت تک سجدہ میں نہ جاتے جب تک کہ بالکل سیدھے کھڑے نہ ہو جاتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو دوسرا سجدہ اس وقت تک نہ کرتے جب تک کہ ٹھیک آرام سے بیٹھ نہ جاتے اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد پڑھتے اور اپنے بائیں پاؤں کو زمین پر بچھا لیتے اور دائیں کو قائم رکھتے (کھڑا رکھتے) شیطان کی چوکڑی سے منع فرماتے تھے اور درندوں کی طرح بازو آگے نکال کر بیٹھنے سے بھی منع فرماتے تھے اور نماز کو سلام کے ساتھ ختم کرتے تھے۔ (مسلم) اس کی سند معلول ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 215]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب ما يجمع صفة الصلاة وما يفتح به، حديث:498، والعلة مردودة هاهنا.»

حدیث نمبر: 216
وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان يرفع يديه حذو منكبيه إذا افتتح الصلاة وإذ كبر للركوع وإذا رفع رأسه من الركوع. متفق عليه.وفي حديث أبي حميد عند أبي داود: يرفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه،‏‏‏‏ ثم يكبر.ولمسلم: عن مالك بن الحويرث نحو حديث ابن عمر لكن قال: حتى يحاذي بهما فروع أذنيه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کا آغاز فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے مقابل تک اٹھاتے اور جب رکوع کے لئے «الله اكبر» کہتے تو بھی اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے مقابل تک اٹھاتے۔ (رفع یدین کرتے) (بخاری ومسلم)۔ اور ابوداؤد میں ابوحمید سے مروی حدیث میں ہے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے پھر «الله اكبر» (تکبیر) کہتے۔ اور مسلم میں مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بھی اسی طرح منقول ہے، جس طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے لیکن اس میں کندھوں کے مقابل کی جگہ اپنے کانوں کے مقابل تک اٹھاتے مذکور ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 216]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب رفع اليدين في التكبيرة الأولي مع الافتتاح سواء، حديث:735، ومسلم، الصلاة، باب استحباب رفع اليدين حذو المنكبين مع تكبيرة الإحرام والركوع، حديث:390، وحديث أبي حميد أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:730.»

حدیث نمبر: 217
وعن وائل بن حجر قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وآله وسلم فوضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره. أخرجه ابن خزيمة.
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھ لئے۔ (ابن خزیمہ) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 217]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن خزيمة:1 /243، حديث:479، وسنده ضعيف من أجل عنعنة الثوري، وللحديث شواهد كثيرة عند أحمد:5 /226 وغيره.»

حدیث نمبر: 218
وعن عبادة بن الصامت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «لا صلاة لمن لم يقرأ بأم القرآن» .‏‏‏‏ متفق عليه. وفي رواية لابن حبان والدارقطني: «‏‏‏‏لا تجزىء صلاة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب» .‏‏‏‏ وفي أخرى لأحمد وأبي داود والترمذي وابن حبان:«‏‏‏‏لعلكم تقرءون خلف إمامكم؟» قلنا: نعم. قال: «‏‏‏‏لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها» .
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے (نماز میں) «أم القرآن» ( «فاتحه») نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں۔ (بخاری و مسلم) ابن حبان اور دارقطنی میں روایت ہے کہ جس نماز میں سورۃ «فاتحه» نہ پڑھی گئی ہو وہ نماز کافی نہیں ہوتی۔ احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن حبان کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ شاید تم لوگ امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو ہم نے عرض کیا جی ہاں (پڑھتے ہیں) فرمایا ایسا نہ کیا کرو بجز سورۃ «فاتحه» کے۔ اس لئے کہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی (تو) نماز ہی نہیں ۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 218]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب وجوب القراءة للإمام والمأموم، حديث:756، ومسلم، الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة، حديث:394، وابن حبان (الإحسان): 3 /139، حديث:1786، والدارقطني: 1 /322، وهو حديث صحيح، وحديث "لعلكم تقرؤون خلف إمامكم" أخرجه أحمد:5 /60، وأبوداود، الصلاة، حديث:823، والترمذي، الصلاة، حديث:247، وهوحديث صحيح.»

حدیث نمبر: 219
وعن أنس رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم وأبا بكر وعمر كانوا يفتتحون الصلاة بالحمد لله رب العالمين متفق عليه.زاد مسلم: لا يذكرون بسم الله الرحمن الرحيم في أول قراءة ولا في آخرها.وفي رواية لأحمد والنسائي وابن خزيمة: لا يجهرون ببسم الله الرحمن الرحيم. وفي أخرى لابن خزيمة: كانوا يسرون. وعلى هذا يحمل النفي في رواية مسلم خلافا لمن أعلها.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سب نماز کا آغاز «الحمد لله رب العالمين» سے کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) مسلم نے اتنا اضافہ بھی نقل کیا ہے۔ قرآت کے شروع اور آخر دونوں موقعوں پر «بسم الله الرحمن الرحيم» نہیں پڑھتے تھے۔ مسند احمد، نسائی اور ابن خزیمہ کی ایک روایت میں ہے کہ «بسم الله الرحمن الرحيم» کو جہری طور پر (اونچی آواز) پر نہیں پڑھتے تھے۔ نیز ابن خزیمہ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ «بسم الله»، آہستہ پڑھتے تھے اور اسی پر مسلم کی نفی کو محمول کیا جائے گا بخلاف ان لوگوں کے جنہوں نے اسے معلول کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 219]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب ما يقول بعد الكتبير، حديث:743، ومسلم، الصلاة، باب حجة من قال: لايجهر بالبسملة، حديث:399، والنسائي، الافتتاح، حديث:908، وابن خزيمة:1 /250، حديث:497، 498، وهو حديث صحيح.»

حدیث نمبر: 220
وعن نعيم المجمر قال: صليت وراء أبي هريرة رضي الله تعالى عنه. فقرأ بسم الله الرحمن الرحيم،‏‏‏‏ ثم قرأ بأم القران حتى إذا بلغ" ولا الضالين" قال:"آمين" ويقول كلما سجد وإذا قام من الجلوس: الله أكبر ثم يقول إذا سلم: والذي نفسي بيده إني لأشبهكم صلاة برسول الله صلى الله عليه وآله وسلم. رواه النسائي وابن خزيمة.
سیدنا نعیم المجمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز پڑھی تو انہوں نے پہلے «بسم الله» تلاوت فرمائی پھر بعدازاں «‏‏‏‏ام القران» ‏‏‏‏ (سورۃ «فاتحه») پڑھی تاآنکہ آپ «ولا الضالين» پر پہنچ گئے اور «‏‏‏‏آمين» ‏‏‏‏ کہی۔ راوی کا بیان ہے کہ جب سجدہ کیا اور جب بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوئے تو «الله اكبر» کہتے۔ پھر سلام پھیر کر فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! یقیناً میں تم سے نماز کی ادائیگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت مشابہ ہوں۔ (میری نماز رسول اللہ کی نماز کے بہت مشابہ ہے) (نسائی، ابن خزیمہ) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 220]
تخریج الحدیث: «أخرجه النسائي، الافتتاح، باب قراءة بسم الله الرحمن الرحيم، حديث:906، وابن خزيمة:1 /251، حديث:499.»

حدیث نمبر: 221
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إذا قرأتم الفاتحة فاقرءوا: بسم الله الرحمن الرحيم فإنها إحدى آياتها» .‏‏‏‏ رواه الدارقطني وصوب وقفه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم سورۃ «فاتحه» پڑھو تو «بسم الله الرحمن الرحيم» بھی ساتھ ہی پڑھا کرو، اس لئے کہ وہ بھی سورۃ «فاتحه» کی ایک آیت ہی ہے۔ دارقطنی نے اس کا موقوف ہونا درست قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 221]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني:1 /312، وللحديث شواهد معنوية.»

حدیث نمبر: 222
وعنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا فرغ من قراءة أم القران رفع صوته وقال: «‏‏‏‏آمين» .‏‏‏‏ رواه الدارقطني وحسنه. والحاكم وصححه. ولأبي داود والترمذي من حديث وائل بن حجر نحوه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «‏‏‏‏ام القران» ‏‏‏‏ (سورۃ «‏‏‏‏فاتحه» ‏‏‏‏) کی قرآت سے فارغ ہوتے تو آمین بلند آواز سے کہتے۔
اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے اور اسے حسن کہا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے نیز ابوداؤد اور ترمذی میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اسی طرح ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 222]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني:1 /335، وصححه الحاكم علي شرط الشيخين:1 /223، ووافقه الذهبي، وسنده حسن، وللحديث شواهد، وحديث وائل أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:932، والترمذي، الصلاة، حديث:248 وسنده صحيح.»

حدیث نمبر: 223
وعن عبد الله بن أبي أوفى رضي الله عنه قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال: إني لا أستطيع أن آخذ من القرآن شيئا فعلمني ما يجزئني عنه. فقال: «‏‏‏‏قل: سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم» ‏‏‏‏ الحديث.رواه أحمد وأبو داود والنسائي،‏‏‏‏ وصححه ابن حبان والدارقطني والحاكم.
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں قرآن میں سے کچھ بھی یاد نہیں رکھ سکتا۔ لہذا مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیں جو (میری نماز کے لئے) اس کی جگہ کافی ہو جائے۔ فرمایا «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم» پڑھ لیا کرو۔
الحدیث اس روایت کو احمد، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ ابن حبان اور دارقطنی اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 223]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب ما يجزيء الأمي والأعجمي من القراءة، حديث:832، والنسائي، الافتتاح، حديث:925، وأحمد:4 /353، 356، 382، وابن حبان(الإحسان):3 /148، حديث:1807، والحاكم:1 /241، صححه علي شرط البخاري، ووافقه الذهبي.»

حدیث نمبر: 224
وعن أبي قتادة رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يصلي بنا فيقرأ في الظهر والعصر في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورتين ويسمعنا الآية أحيانا ويطول الركعة الأولى ويقرأ في الأخريين بفاتحة الكتاب. متفق عليه.
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تھے تو ظہر اور عصر کی پہلی رکعتوں میں سورۃ «فاتحه» اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور کبھی ہمیں کوئی آیت سنا بھی دیتے تھے۔ پہلی رکعت بھی لمبی کرتے تھے اور آخری دونوں رکعتوں میں صرف «‏‏‏‏فاتحة الكتاب» ‏‏‏‏ پڑھتے تھے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 224]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب: يقرأ في الأخريين بفاتحة الكتاب، حديث: 776، ومسلم، الصلاة، باب القرءاة في الظهر والعصر، حديث:451.»

حدیث نمبر: 225
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: كنا نحزر قيام رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في الظهر والعصر فحزرنا قيامه في الركعتين الأوليين من الظهر قدر: (الم تنزيل) السجدة. وفي الأخريين قدر النصف من ذلك. وفي الأوليين من العصر على قدر الأخريين من الظهر والأخريين على النصف من ذلك. رواه مسلم.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم ظہر اور عصر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت کا اندازہ لگایا کرتے تھے (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں رکعتوں میں کتنا قیام فرماتے تھے) ہم نے اندازہ لگایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دونوں رکعتوں میں اتنا قیام فرماتے جتنی دیر میں سورۃ «الم السجدة» کی تلاوت کی جا سکے اور آخری دونوں رکعتوں میں پہلی دونوں سے نصف کے برابر اور عصر کی پہلی دونوں رکعتوں میں ظہر کی آخری دونوں رکعتوں کے برابر اور عصر کی آخری دونوں میں عصر کی پہلی دو رکعتوں سے نصف۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 225]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب القراءة في الظهر والعصر، حديث:452.»

حدیث نمبر: 226
وعن سليمان بن يسار قال: كان فلان يطيل الأوليين من الظهر ويخفف العصر ويقرأ في المغرب بقصار المفصل وفي العشاء بوسطه وفي الصبح بطواله. فقال أبو هريرة: ما صليت وراء أحد أشبه صلاة برسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من هذا. أخرجه النسائي بإسناد صحيح.
سیدنا سلیمان بن یسار رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ فلاں صاحب ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی کرتے ہیں (ان میں قرآت لمبی کرتے ہیں) اور نماز عصر میں تخفیف کرتے ہیں اور نماز مغرب میں قصار مفصل (چھوٹی سورتیں) اور عشاء میں اوساط مفصل اور صبح کی نماز میں طوال مفصل پڑھتے ہیں۔ تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے کسی کی امامت میں اس سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مشابہ نماز نہیں پڑھی۔ نسائی نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 226]
تخریج الحدیث: «أخرجه النسائي، الافتتاح، باب القراءة في المغرب بقصار المفصل، حديث:984.»

حدیث نمبر: 227
وعن جبير بن مطعم رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقرأ في المغرب بالطور. متفق عليه.
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں سورۃ «الطور» پڑھتے سنا ہے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 227]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب الجهر في المغرب، حديث:765، ومسلم، الصلاة، باب القراءة في الصبح، حديث:463.»

حدیث نمبر: 228
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقرأ في صلاة الفجر يوم الجمعة (الم تنزيل) السجدة , و (هل أتى على الإنسان). متفق عليه وللطبراني من حديث ابن مسعود: يديم ذلك.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز نماز فجر کی پہلی رکعت میں «الم تنزيل السجدة» اور دوسری میں «هل أتى على الإنسان» (سورۃ «دهر») پڑھا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) اور طبرانی میں ابن مسعود سے مروی روایت میں ہے کہ ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کرتے تھے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 228]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجمعة، باب ما يقرأ في صلاة الفجر يوم الجمعة، حديث:891، ومسلم، الجمعة، باب ما يقرأ في يوم الجمعة، حديث:880، وحديث ابن مسعود أخرجه الطبراني في الصغير: 2 /44 وسنده ضعيف، وفيه من لم أعرفه، وقال الهيثمي: رجاله موثقون.»

حدیث نمبر: 229
وعن حذيفة رضي الله عنه قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وآله وسلم فما مرت به آية رحمة إلا وقف عندها يسأل،‏‏‏‏ ولا آية عذاب إلا تعوذ منها. أخرجه الخمسة،‏‏‏‏ وحسنه الترمذي.
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب ایسی آیت گذرتی جس میں رحمت الٰہی کا ذکر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں وقفہ فرما کر رحمت طلب فرماتے اور جب آیت عذاب گزرتی تو وہاں ذرا وقفہ فرما کر اس سے پناہ مانگتے۔
اسے احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے حسن قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 229]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب وضع اليدين علي ركبتين، حديث:871، والترمذي، الصلاة، حديث:262، والنسائي، قيام اليل، حديث:1665، وابن ماجه، إقامة الصلاة، حديث:888، وأحمد:6 /24، وأخرجه مسلم، صلاة المسافرين، حديث:772 مطولاً.»

حدیث نمبر: 230
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏ألا وإني نهيت أن أقرأ القرآن راكعا أو ساجدا،‏‏‏‏ فأما الركوع فعظموا فيه الرب،‏‏‏‏ وأما السجود فاجتهدوا في الدعاء،‏‏‏‏ فقمن أن يستجاب لكم» . رواه مسلم.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو سن لو کہ مجھے رکوع اور سجدہ میں قرآن پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ لہذا رکوع میں اپنے مالک و پروردگار کی عظمت بیان کرو اور سجدہ میں دعا مانگنے کی کوشش کرو۔ یہ اس لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول کر لی جائے۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 230]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب النهي عن قراة القرآن في الركوع والسجود، حديث:479.»

حدیث نمبر: 231
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول في ركوعه وسجوده: «‏‏‏‏سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفر لي» .‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود میں «سبحانك اللهم ربنا وبحمدك اللهم اغفرلي» تو پاک ہے اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! اپنی حمد و ثنا کے ساتھ۔ اے اللہ! مجھے بخش دے۔ پڑھا کرتے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 231]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب التسبيح والدعاء في السجود، حديث:817، ومسلم، الصلاة، باب ما يقال في الركوع والسجود، حديث:484.»

حدیث نمبر: 232
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا قام إلى الصلاة يكبر حين يقوم ثم يكبر حين يركع ثم يقول: «‏‏‏‏سمع الله لمن حمده» ‏‏‏‏ حين يرفع صلبه من الركوع ثم يقول وهو قائم: «‏‏‏‏ربنا ولك الحمد» ‏‏‏‏ ثم يكبر حين يهوى ساجدا ثم يكبر حين يرفع رأسه ثم يكبر حين يسجد ثم يكبر حين يرفع ثم يفعل ذلك في الصلاة كلها ويكبر حين يقوم من الثنتين بعد الجلوس.متفق عليه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو «الله اكبر» کہتے۔ پھر جب رکوع کیلئے جاتے تو اس وقت «الله اكبر» کہتے۔ پھر رکوع سے اٹھتے وقت «سمع الله لمن حمده» کہتے ہوئے کھڑے ہو جاتے اور پھر جب رکوع سے سیدھے کھڑے ہو جاتے تو «ربنا ولك الحمد» کہتے۔ پھر سجدے میں جاتے وقت تکبیر «الله اكبر» کہہ کر سجدے کیلئے جھکتے پھر سجدے سے اٹھتے ہوئے «الله اكبر» کہتے پھر سجدے میں جاتے تو «الله اكبر» کہتے پھر سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے «الله اكبر» کہتے پھر ساری نماز اسی طرح کرتے جاتے تھے۔ پھر جب دوسری رکعت کی (تکمیل) کے بعد تشہد پڑھ کر اٹھتے تو بھی «الله اكبر» کہتے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 232]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب يهوي بالتكبير حين يسجد، حديث:803، ومسلم، الصلاة، باب إثبات التكبير في كل خفض ورفع في الصلاة، حديث:392.»

حدیث نمبر: 233
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا رفع رأسه من الركوع قال:«‏‏‏‏اللهم ربنا لك الحمد ملء السموات والأرض وملء ما شئت من شيء بعد أهل الثناء والمجد أحق ما قال العبد وكلنا لك عبد اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد» .‏‏‏‏ رواه مسلم.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے اپنا سر اوپر اٹھاتے تو «اللهم ربنا لك الحمد ملء السموات والأرض وملء ما شئت من شيء بعد أهل الثناء والمجد أحق ما قال العبد وكلنا لك عبد اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد» کہتے تھے۔ (یعنی) اے اللہ! ہمارے آقا و پروردگار تعریف صرف تیرے ہی لئے ہے اتنی تعریف جس سے آسمان و زمین بھر جائے اور اس کے بعد ہر وہ چیز بھر جائے جسے تو چاہے۔ اے بزرگی اور تعریف کے مالک! تو اس کا زیادہ مستحق ہے جو کچھ بندہ کہے اور سبھی تیرے بندے ہیں۔ اے اللہ! جو کچھ تو عطا فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو ہی نہ دے اسے کوئی عطا کرنے والا نہیں اور کسی کو اس کی بزرگی اور بخت آپ (عذاب) کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 233]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب ما يقول إذا رفع رأسه من الركوع، حديث:477.»

حدیث نمبر: 234
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏أمرت أن أسجد على سبعة أعظم: على الجبهة - وأشار بيده إلى أنفه - واليدين والركبتين وأطراف القدمين» .‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے سات ہڈیوں (اعضاء) پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اپنے دست مبارک سے اشارہ کر کے فرمایا پیشانی و ناک پر اور دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں اور دونوں قدموں پر۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 234]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب السجود علي الأنف، حديث:812، ومسلم، الصلاة، باب أعضاء السجود....، حديث:490.»

حدیث نمبر: 235
وعن ابن بحينة أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: كان إذا صلى وسجد فرج بين يديه حتى يبدو بياض إبطيه. متفق عليه.
سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز ادا فرماتے اور سجدہ کرتے تو اس حالت میں اپنے دونوں بازو اپنے پہلووں سے الگ رکھتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی تھی۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 235]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب يبدي ضبعيه ويجافي في السجود، حديث:390، ومسلم، الصلاة، باب الاعتدال في السجود ووضع الكفين علي الأرض....، حديث:495.»

حدیث نمبر: 236
وعن البراء بن عازب رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إذا سجدت فضع كفيك وارفع مرفقيك» .‏‏‏‏ رواه مسلم.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو سجدہ کرے تو (اس وقت) اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر ٹکا دے اور اپنی دونوں کہنیوں کو اوپر اٹھا لے۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 236]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب الاعتدال في السجود....، حديث:494.»

حدیث نمبر: 237
وعن وائل بن حجر رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم: كان إذا ركع فرج بين أصابعه وإذا سجد ضم أصابعه. رواه الحاكم.
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع میں ہوتے تو اپنی (ہاتھوں کی) انگلیاں کھلی رکھتے اور جب سجدے میں ہوتے تو اپنی (ہاتھوں کی) انگلیاں باہم ملا لیا کرتے تھے۔ (مستدرک حاکم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 237]
تخریج الحدیث: «أخرجه الحاكم في المستدرك: 1 /224_227 وصححه علي شرط مسلم* هشيم مدلس وعنعن.»

حدیث نمبر: 238
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يصلي متربعا.رواه النسائي وصححه ابن خزيمة.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چار زانووں پر بیٹھ کر نماز ادا فرماتے دیکھا ہے۔ نسائی نے اسے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 238]
تخریج الحدیث: «أخرجه النسائي، قيام اليل، باب كيف صلاة القاعد، حديث:1662، وابن خزيمة: 2 /89* حفص ابن غياث عنعن، وحديث البخاري، الأذان، حديث: 827 يخالفه ولو صح لكان محمولاً علي العذر.»

حدیث نمبر: 239
وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان يقول بين السجدتين: «‏‏‏‏اللهم اغفر لي وارحمني واهدني وعافني وارزقني» .‏‏‏‏ رواه الأربعة إلا النسائي واللفظ لأبي داود وصححه الحاكم.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان یہ دعا پڑھتے تھے «اللهم اغفرلي وارحمني واهدني وعافني وارزقني» یا اللہ! میری پردہ پوشی فرما دے (مجھے بخش دے) مجھ پر رحم فرما۔ مجھے راہ ہدایت پر چلا (اور گامزن رکھ) مجھ سے درگزر فرما (معاف کر دے) مجھے رزق (حلال) عطا فرما۔
اسے نسائی کے علاوہ چاروں نے روایت کیا ہے۔ یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 239]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الدعاء بين السجدتين، حديث: 850، والترمذي، الصلاة، حديث:284، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:898، والحاكم: 1 /262_271* حبيب مدلس وعنعن وصح بنحوه عن مكحول رحمه الله من قوله، رواه ابن المقريء في معجمه (1357) وسنده صحيح.»

حدیث نمبر: 240
وعن مالك بن الحويرث رضي الله عنه: أنه رأى النبي صلى الله عليه وآله وسلم يصلي فإذا كان في وتر من صلاته لم ينهض حتى يستوي قاعدا. رواه البخاري.
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز ادا فرماتے دیکھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کی وتر (رکعت) پڑھتے تو (پہلے تھوڑا) بیٹھتے پھر سیدھا کھڑے ہو جاتے۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 240]
تخریج الحدیث: «أجرجه البخاري، الأذان، باب من استوي قاعدًا في وترمن صلاته ثم نهض، حديث:823.»

حدیث نمبر: 241
وعن أنس رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قنت شهرا بعد الركوع يدعو على أحياء من العرب ثم تركه. متفق عليه. ولأحمد والدارقطني نحوه من وجه آخر وزاد:"وأما في الصبح فلم يزل يقنت حتى فارق الدنيا".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا مہینہ رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی، پھر اسے چھوڑ دیا۔ (بخاری و مسلم) احمد اور دارقطنی وغیرہ نے ایک اور طریق سے اسے روایت کیا ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ صبح کی نماز میں دعائے قنوت تا دم زیست ہمیشہ پڑھتے رہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 241]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الوتر، باب القنوت قبل الركوع وبعده، حديث: 1003، ومسلم، المساجد، باب استحباب القنوت في جميع الصلوات، حديث:677، وحديث "حتي فارق الدنيا" أخرجه أحمد:3 /162، والدار قطني:2 /39، حديث:1677، وسنده ضعيف* أبوجعفر الرازي ضعيف فيما يرويه عن الربيع بن أنس، وهذا منه.»

حدیث نمبر: 242
وعنه رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم: كان لا يقنت إلا إذا دعا لقوم أو دعا على قوم.صححه ابن خزيمة.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے یہ روایت بھی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم کے حق میں یا کسی کے لیے بد دعا فرماتے تو اس صورت میں قنوت پڑھتے ورنہ نہیں پڑھتے تھے۔ اس کو ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 242]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن خزيمة: 1 /314، حديث:620* سعيد بن أبي عروبة وقتادة عنعنا.»

حدیث نمبر: 243
وعن سعد بن طارق الأشجعي رضي الله عنه قال: قلت لأبي: يا أبت إنك قد صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان وعلي أفكانوا يقنتون في الفجر؟ قال: أي بني محدث. رواه الخمسة إلا أبا داود.
سیدنا سعد بن طارق اشجعی رحمہ اللہ سے مروی ہے (کہتے ہیں کہ) میں نے اپنے والد سے استفسار کیا کہ ابا جان! آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ کیا یہ سب نماز فجر میں قنوت پڑھا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ بیٹا! یہ نئی بات ہے۔ اس کو ابوداؤد کے سوا پانچوں نے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 243]
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، الصلاة، باب ما جاء في ترك القنوت، حديث:402، وقال:"هذا حديث حسن صحيح"، والنسائي، التطبيق، حديث:1080، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1241، وأحمد:3 /472 و6 /394.»

حدیث نمبر: 244
وعن الحسن بن علي رضي الله عنهما أنه قال: علمني رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كلمات أقولهن في قنوت الوتر: «‏‏‏‏اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وبارك لي فيما أعطيت وقني شر ما قضيت فإنك تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت تباركت ربنا وتعاليت» .‏‏‏‏ رواه الخمسة. وزاد الطبراني والبيهقي: «‏‏‏‏ولا يعز من عاديت» .‏‏‏‏ زاد النسائي من وجه آخر في آخره: «‏‏‏‏وصلى الله تعالى على النبي» .‏‏‏‏ وللبيهقي عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يعلمنا دعاء ندعو به في القنوت من صلاة الصبح. وفي سنده ضعف.
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چند کلمات ایسے سکھائے ہیں جنہیں میں وتروں میں (دعائے قنوت کے طور پر) پڑھتا ہوں «اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وبارك لي فيما أعطيت وقني شر ما قضيت فإنك تقضي ولا يقضى عليك وإنه لا يذل من واليت تباركت ربنا وتعاليت» اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرے میں شامل فرما جنھیں تو نے رشد و ہدایت سے نوازا ہے اور مجھے عافیت دے کر ان میں شامل فرما دے جنھیں تو نے عافیت بخشی ہے اور جن کو تو نے اپنا دوست قرار دیا ہے ان میں مجھے بھی شامل کر کے اپنا دوست بنا لے۔ جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں میرے لیے برکت نازل فرما اور جس برائی کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ۔ یقیناً فیصلہ تو ہی صادر فرماتا ہے، تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا اور جس کا تو والی بنا وہ کبھی ذلیل و خوار نہیں ہو سکتا۔ آقا۔ ہمارے پروردگار! تو ہی برکت والا اور بلند و بالا ہے۔
اسے پانچوں یعنی احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ طبرانی اور بیہقی نے، «ولا يعز من عاديت» کا اضافہ بھی نقل کیا ہے۔ نیز نسائی نے ایک دوسرے طریق سے اس دعا کے آخر میں «وصلى الله تعالى على النبي» کا بھی اضافہ روایت کیا ہے۔ اور بیہقی میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دعا سکھاتے تھے جسے ہم صبح کی نماز میں دعائے قنوت کی صورت میں مانگتے تھے۔ اس کی سند میں ضعف ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 244]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب القنوت في الوتر، حديث:1425، والترمذي، الوتر، حديث:464، والنسائي، قيام الليل، حديث:1746، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1178، وأحمد:1 /199، قوله: "ولا يعز من عاديت" أخرجه البيهقي:2 /209، والطبراني في الكبير:3 /73، حديث:2701، وأبوداود: الوتر، حديث: 1425، وقوله:"صلي الله علي النبي" أخرجه النسائي، قيام اللّيل، حديث:1747 وزاد" محمد" وسنده ضعيف، وثبت، موقوفًا عن أبي بن كعب عند ابن خزيمة:2 /155، حديث:1100، وحديث ابن عباس أخرجه البيهقي:2 /210 وسنده ضعيف، ابن جريج عنعن.»

حدیث نمبر: 245
وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير وليضع يديه قبل ركبتيه» . أخرجه الثلاثة،‏‏‏‏ وهو أقوى من حديث وائل بن حجر: رأيت النبي صلى الله عليه وآله وسلم: إذا سجد وضع ركبتيه قبل يديه. أخرجه الأربعة. فإن للأول شاهدا من حديث ابن عمر رضي الله تعالى عنه صححه ابن خزيمة وذكره البخاري معلقا موقوفا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جب کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے اور گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھ زمین پر رکھے۔ (نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ) اور یہ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے مروی اس حدیث سے قوی تر ہے جس میں ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ میں جاتے دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے زمین پر رکھتے تھے۔
اس کو چاروں یعنی ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ پہلی حدیث کا شاہد ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے۔ ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور بخاری نے اسے تعلیقا موقوف بیان کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 245]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب كيف يضع ركبتيه قبل يديه، حديث:840، والترمذي، الصلاة، حديث:269، والنسائي، التطبيق، حديث:1092، وحديث وائل: "وضع ركبتيه قبل يديه" أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث: 838، والترمذي، الصلاة، حديث:268، والنسائي، التطبيق، حديث:1090، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:882، وسنده ضعيف، شريك القاضي عنعن، وحديث ابن عمر ذكره البخاري معلقًا موقوفًا، الأذان، قبل حديث:803، وابن خزيمة:1 /318، 319، حديث:627.»

حدیث نمبر: 246
وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: كان إذا قعد للتشهد وضع يده اليسرى على ركبتيه اليسرى واليمنى على اليمنى وعقد ثلاثا وخمسين وأشار بإصبعه السبابة.رواه مسلم. وفي رواية له: وقبض أصابعه كلها وأشار بالتي تلي الإبهام.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد کیلئے بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر دایاں ہاتھ اپنے دائیں گھٹنے پر رکھتے اور ترپن کی گرہ دیتے (یعنی تریپن کا عدد بناتے) اور اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کرتے۔ (مسلم) اور ایک روایت میں ہے جسے مسلم، ہی نے روایت کیا ہے کہ اپنی تمام انگلیاں بند کر لیتے اور انگوٹھے کے ساتھ ملی ہوئی انگلی سے اشارہ کرتے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 246]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، المساجد، باب صفة الجلوس في الصلاة، حديث:580.»

حدیث نمبر: 247
وعن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: التفت إلينا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فقال: «‏‏‏‏إذا صلى أحدكم فليقل: التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله ثم ليتخير من الدعاء أعجبه إليه فيدعو» .‏‏‏‏ متفق عليه واللفظ للبخاري. وللنسائي: كنا نقول قبل أن يفرض علينا التشهد. ولأحمد: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم علمه التشهد وأمره أن يعلمه الناس. ولمسلم عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يعلمنا التشهد: «‏‏‏‏التحيات المباركات الصلوات الطيبات لله» إلى آخره.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف توجہ فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو تشہد میں یوں کہے۔ «التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» تمام سلامیاں اللہ ہی کیلئے ہیں اور نمازیں پاکیزیاں بھی (زبانی، بدنی اور مالی عبادتیں صرف اللہ کے لئے ہیں) اے نبی! سلام ہو آپ پر اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ سلام ہو ہم پر اور اللہ کے صالح بندوں پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت (معبود) نہیں اور اس کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر اسے دعا کا انتخاب کرنا چاہیئے کہ جو اسے سب سے اچھی لگے وہ مانگے۔ (بخاری و مسلم) متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں اور نسائی میں ہے کے ہم تشہد فرض ہونے سے پہلے کہا کرتے تھے اور احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تشہد سکھایا اور حکم دیا کہ لوگوں کو اسے سکھاؤ اور مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تشہد سکھاتے تھے (وہ اس طرح تھا) «التحيات المباركات الصلوات الطيبات لله» إلى آخره۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 247]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب التشهد فلي الآخرة، حديث:831، ومسلم، الصلاة، باب التشهد في الصلاة، حديث:402، والترمذي، الصلاة، حديث:289، والنسائي، السهو، حديث:1278، وأحمد:1 /376، وحديث ابن عباس أخرجه مسلم، الصلاة، حديث:403.»

حدیث نمبر: 248
وعن فضالة بن عبيد رضي الله عنه قال: سمع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم رجلا يدعو في صلاته ولم يحمد الله ولم يصل على النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال:«‏‏‏‏عجل هذا» ‏‏‏‏ ثم دعاه فقال: «‏‏‏‏إذا صلى أحدكم فليبدأ بتحميد ربه والثناء عليه ثم يصلي على النبي صلى الله عليه وآله وسلم ثم يدعو بما شاء» ‏‏‏‏ رواه أحمد والثلاثة وصححه الترمذي وابن حبان والحاكم.
سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اپنی نماز میں دعا کرتے سنا۔ نہ تو اس نے اللہ کی حمد کی اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے جلدی کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلایا اور سمجھایا کہ تم میں سے کوئی جب دعا مانگنے لگے تو پہلے اسے اپنے رب کی حمد و ثنا کرنی چاہیئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا چاہیئے پھر اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے۔
اسے احمد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ ترمذی، ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 248]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الدعاء، حديث:1481، والترمذي، الدعوات، حديث:3476-3477، والنسائي، السهو حديث:1285، وأحمد:6 /18، وابن حبان (الإحسان):3 /208، حديث:1957، والحاكم:1 /230.»

حدیث نمبر: 249
وعن أبي مسعود الأنصاري رضي الله عنه قال: قال بشير بن سعد: يا رسول الله! أمرنا الله أن نصلي عليك،‏‏‏‏ فكيف نصلي عليك؟ فسكت ثم قال:«‏‏‏‏قولوا: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وبارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم في العالمين إنك حميد مجيد،‏‏‏‏ والسلام كما علمتم» . رواه مسلم. وزاد ابن خزيمة: فكيف نصلي عليك إذا نحن صلينا عليك في صلاتنا؟.
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے لہذا ہم کس طرح آپ پر درود بھیجیں؟ تھوڑے سے توقف کے بعد فرمایا اس طرح کہا کرو «اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وبارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم في العالمين إنك حميد مجيد» اے اللہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے رحمت نازل فرمائی ابراھیم علیہ السلام پر اور برکت نازل فرما محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر جس طرح تو نے برکت نازل فرمائی ابراھیم علیہ السلام پر دونوں جہانوں میں۔ یقیناً تو ستودہ صفات ہے اور بزرگ ہے اور رہا سلام تو اس کا علم تمہیں سکھلا دیا گیا ہے۔ (مسلم) اور ابن خزیمہ نے اس میں اتنا اضافہ نقل کیا ہے کہ ہم جب نماز پڑھ رہے ہوں تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کس طرح پڑھیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 249]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وسلم بعد التشهد، حديث:405، وابن خزيمة:1 /351، حديث:711.»

حدیث نمبر: 250
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إذا تشهد أحدكم فليستعذ بالله من أربع يقول: اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن فتنة المسيح الدجال» .‏‏‏‏ متفق عليه. وفي رواية لمسلم:«‏‏‏‏إذا فرغ أحدكم من التشهد الأخير» .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی تشہد پڑھ چکے تو چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔ «اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن فتنة المسيح الدجال» اے اللہ! میں تجھ سے عذاب جہنم سے پناہ مانگتا ہوں اور عذاب قبر سے پناہ طلب کرتا ہوں اور موت و حیات کے فتنہ سے تیری پناہ کا طلبگار ہوں اور مسیح دجال کے فتنہ کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم میں ایک روایت کے یہ الفاظ بھی ہیں۔ جب تم سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو۔ تو اس وقت ان چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 250]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، حديث:1377، ومسلم، المساجد، باب ما يستعاذ منه في الصلاة، حديث:588.»

حدیث نمبر: 251
وعن أبي بكر الصديق رضي الله عنه أنه قال لرسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: علمني دعاء أدعو به في صلاتي قال: «‏‏‏‏قل: اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» .‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے ایسی دعا سکھائیں جسے میں اپنی نماز میں پڑھا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دعا پڑھا کرو «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم» اے پروردگار! میں نے اپنی جان پر بہت ہی ظلم کیا ہے۔ تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں۔ لہذا تو مجھے اپنی جناب سے معاف فرما دے اور مجھ پر رحم فرما۔ بیشک تو ہی بخشنے والا اور ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 251]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب الدعاء قبل السلام، حديث:834، ومسلم، الذكر والدعاء، باب استحباب خفض الصوت بالذكر، حديث:2705.»

حدیث نمبر: 252
وعن وائل بن حجر رضي الله عنه قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وآله وسلم فكان يسلم عن يمينه: «‏‏‏‏السلام عليكم ورحمة الله وبركاته» وعن شماله: «‏‏‏‏السلام عليكم ورحمة الله وبركاته» .‏‏‏‏ رواه أبو داود بإسناد صحيح.
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں جانب سلام پھیرتے ہوئے کہا «السلام عليكم ورحمة الله وبركاته» اور اسی طرح بائیں طرف سلام پھیرتے ہوئے کہا «السلام عليكم ورحمة الله وبركاته» ۔ ابوداؤد نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 252]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، با ب في السلام، حديث:997.»

حدیث نمبر: 253
وعن المغيرة بن شعبة رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان يقول في دبر كل صلاة مكتوبة: «‏‏‏‏لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد» .‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض کے اختتام پر یہ دعا پڑھا کرتے تھے «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد» اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں۔ فرمانروائی اسی کی ہے اور حمد و ثنا اسی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اے اللہ! جو کچھ تو عطا فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو کچھ تو روک لے اسے عطا کرنے والا کوئی نہیں اور کسی صاحب نصیبہ کو تیرے بغیر بغیر کوئی نصیبہ نہیں دیتا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 253]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب الذكر بعد الصلاة، حديث:844، ومسلم، المساجد، باب استحباب الذكر بعد الصلاة، حديث:593.»

حدیث نمبر: 254
وعن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كان يتعوذ بهن دبر كل صلاة: «‏‏‏‏اللهم إني أعوذ بك من البخل وأعوذ بك من الجبن وأعوذ بك من أن أرد إلى أرذل العمر وأعوذ بك من فتنة الدنيا وأعوذ بك من عذاب القبر» .‏‏‏‏ رواه البخاري.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے آخر میں یہ تعوذ پڑھا کرتے تھے «اللهم إني أعوذ بك من البخل وأعوذ بك من الجبن وأعوذ بك من أن أرد إلى أرذل العمر وأعوذ بك من فتنة الدنيا وأعوذ بك من عذاب القبر» اے اللہ! میں تیری پناہ لیتا ہوں بخل سے اور بزدلی سے اور تیری پناہ لیتا ہوں اس سے کہ میں رذیل ترین عمر کی طرف لوٹایا جاؤں اور میں دنیا کے فتنہ اور عذاب قبر سے تیری پناہ لیتا ہوں۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 254]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، حديث:1377.»

حدیث نمبر: 255
وعن ثوبان رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا انصرف من صلاته استغفر الله ثلاثا وقال:«‏‏‏‏اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام» .‏‏‏‏رواه مسلم.
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو تین مرتبہ «‏‏‏‏استغفر الله» ‏‏‏‏ کہتے اور پھر «اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام» پڑھتے۔ اے اللہ! میں تجھ سے مغفرت کا طالب ہوں اور اے اللہ! تو سلام ہے (یعنی تو ہی سلامتی والا ہے) اور سلامتی تجھ ہی سے ہے اے بزرگی و برتری کے مالک! تو بڑی برکت والا ہے۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 255]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، المساجد، باب استحباب الذكر بعد الصلاة....، حديث:591.»

حدیث نمبر: 256
وعن أبي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏من سبح الله دبر كل صلاة ثلاثا وثلاثين وحمد الله ثلاثا وثلاثين وكبر الله ثلاثا وثلاثين فتلك تسع وتسعون وقال تمام المائة: لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير غفرت خطاياه ولو كانت مثل زبد البحر» .‏‏‏‏ رواه مسلم. وفي رواية أخرى: أن التكبير أربع وثلاثون.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے نماز کے سلام پھیرنے کے بعد 33 مرتبہ «سبحان الله» پڑھا اور 33 مرتبہ «الحمد الله» اور «الله اكبر» بھی 33 مرتبہ دہ مجموعی طور پر یہ 99 یعنی ایک کم سو ہوئے اور سو مکمل کرنے کے لیے «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير» کہا تو اس کے تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں خواہ ان کی تعداد سمندر کی جھاگ کے مساوی ہو۔ (مسلم) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ «الله اكبر» 34 مرتبہ کہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 256]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، المساجد، باب استحباب الذكر بعد الصلاة....، حديث:597.»

حدیث نمبر: 257
وعن معاذ بن جبل أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال له: «‏‏‏‏أوصيك يا معاذ: لا تدعن دبر كل صلاة أن تقول: اللهم أعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك» .‏‏‏‏رواه أحمد وأبو داود والنسائي بسند قوي.
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا اے معاذ! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں ہر نماز کے اختتام کے بعد ان کلمات کو کبھی فراموش نہ کرنا «اللهم أعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك» اے اللہ! مجھے اپنے ذکر، شکر اور حسن عبادت کی توفیق سے نواز۔ اے اللہ! میری مدد فرما کہ میں تیرا ذکر کروں، تیرا شکر ادا کر سکوں اور عمدہ و بہتر طریقے سے تیری عبادت کر سکوں۔ اسے احمد، ابوداؤد اور نسائی نے قوی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 257]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، اصلاة، باب في الاستغفار، حديث:1522، والنسائي، السهو، حديث:1303، وأحمد:5 /245.»

حدیث نمبر: 258
وعن أبي أمامة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏من قرأ اية الكرسي دبر كل صلاة مكتوبة لم يمنعه من دخول الجنة إلا الموت» .رواه النسائي وصححه ابن حبان. وزاد فيه الطبراني: «‏‏‏‏وقل هو الله أحد» .‏‏‏‏
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ رویت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے ہر فرض نماز ادا کرنے کے بعد آیت الکرسی پڑھی، اس کو جنت میں داخل ہونے سے موت کے سوا اور کوئی چیز روکنے والی نہیں۔ (مرتے ہی جنت میں داخل ہو جائے گا بشرطیکہ عقیدہ توحید صحیح ہو۔)
اسے نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے نیز طبرانی نے اس میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ «قل هو الله أحد» بھی پڑھے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 258]
تخریج الحدیث: «أخرجه النسائي في الكبرٰي، حديث:9928 [وعمل اليوم والليلة، حديث: 100 وهذا جزء من الكبرٰي] ، وابن حبان في كتاب الصلاة، كما في الترغيب والترهيب للمنذري، حديث:2373 وسنده حسن.»

حدیث نمبر: 259
وعن مالك بن الحويرث رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏صلوا كما رأيتموني أصلي» .‏‏‏‏ رواه البخاري.
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز اسی طرح پڑھو جس طرح مجھے تم نے پڑھتے دیکھا ہے۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 259]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب الأذان للمسافرين إذا كانوا جماعة، حديث:631.»

حدیث نمبر: 260
وعن عمران بن حصين رضي لله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏صل قائما فإن لم تستطع فقاعدا فإن لم تستطع فعلى جنب وإلا فأوم» .‏‏‏‏ رواه البخاري.
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کھڑے ہو کر پڑھو، اگر کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر پڑھو اور اگر بیٹھ کر بھی پڑھنے کی استطاعت نہیں تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھو (ان میں سے کسی پر بھی عمل نہ ہو سکے) تو اشارے سے ہی پڑھ لو۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 260]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب إذا لم يطق قاعدًا صلي علي جنب، حديث:1117.»

حدیث نمبر: 261
وعن جابر رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال لمريض صلى على وسادة فرمى بها وقال:«‏‏‏‏صل على الأرض إن استطعت وإلا فأوم إيماء واجعل سجودك أخفض من ركوعك» .‏‏‏‏ رواه البيهقي بسند قوي ولكن صحح أبو حاتم وقفه.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مریض سے جس نے تکیہ پر نماز پڑھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تکیہ پھینک دیا اور فرمایا اگر پڑھ سکتے ہو تو زمین پر نماز پڑھو ورنہ اشارے سے پڑھو، البتہ اپنے سجدہ کو رکوع سے ذرا نیچے کرو۔
اسے بیہقی نے قوی سند کے ساتھ روایت کیا ہے، لیکن ابوحاتم نے اس کا موقوف ہونا صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 261]
تخریج الحدیث: «أخرجه البيهقي:2 /306، وسيأتي، حديث:352* سفيان الثوري وأبوالزبيرعنعنا.»