الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:


الادب المفرد
كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ
كتاب الوالدين
2. بَابُ بِرِّ الأُمِّ
2. والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا بیان
حدیث نمبر: 3
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قُلْتُ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ أَبَرُّ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”أُمَّكَ“، قُلْتُ‏:‏ مَنْ أَبَرُّ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”أُمَّكَ“، قُلْتُ‏:‏ مَنْ أَبَرُّ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”أُمَّكَ“، قُلْتُ‏:‏ مَنْ أَبَرُّ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”أَبَاكَ، ثُمَّ الأَقْرَبَ فَالأَقْرَبَ‏.“‏
حضرت بہز بن حکیم اپنے باپ کے واسطے سے اپنے دادا (سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ) سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی ماں سے۔ میں نے کہا: (پھر) کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی ماں سے۔ میں نے کہا: پھر کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی ماں سے۔ میں نے کہا: پھر کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے باپ سے، پھر اس کے بعد جو تیرا زیادہ قریبی رشتہ دار ہو، پھر جو اس کے بعد زیادہ قریبی ہو۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 3]
تخریج الحدیث: «حسن: الارواء: 2232، 829، الترمذي، كتاب البر والصلة، باب ماجاء فى بر الوالدين، رقم: 1897»

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 4
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ‏:‏ إِنِّي خَطَبْتُ امْرَأَةً، فَأَبَتْ أَنْ تَنْكِحَنِي، وَخَطَبَهَا غَيْرِي، فَأَحَبَّتْ أَنْ تَنْكِحَهُ، فَغِرْتُ عَلَيْهَا فَقَتَلْتُهَا، فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ‏؟‏ قَالَ‏:‏ أُمُّكَ حَيَّةٌ‏؟‏ قَالَ‏:‏ لاَ، قَالَ‏:‏ تُبْ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَتَقَرَّبْ إِلَيْهِ مَا اسْتَطَعْتَ‏.‏ فَذَهَبْتُ فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ‏:‏ لِمَ سَأَلْتَهُ عَنْ حَيَاةِ أُمِّهِ‏؟‏ فَقَالَ‏:‏ إِنِّي لاَ أَعْلَمُ عَمَلاً أَقْرَبَ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ بِرِّ الْوَالِدَةِ‏.‏
حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میں نے ایک عورت کو پیغام نکاح بھیجا تو اس نے مجھ سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر میرے علاوہ کسی اور نے نکاح کا پیغام بھیجا تو اس نے رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ مجھے اس پر غیرت آ گئی اور میں نے اسے قتل کر دیا۔ کیا میرے لیے توبہ کی کوئی صورت ہے؟ (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے) فرمایا: کیا تمہاری والدہ زندہ ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اللہ سے توبہ کر اور جتنا ہو سکتا ہے (اعمال صالحہ وغیرہ سے) اللہ کا قرب حاصل کر، (راوی حدیث حضرت عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں) میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور ان سے عرض کی: آپ نے اس سے اس کی ماں کے زندہ ہونے کا سوال کیوں کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: میرے علم میں والدہ کے ساتھ حسن سلوک سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْوَالِدَيْنِ/حدیث: 4]
تخریج الحدیث: «صحيح: الصحيحة: 2799»

قال الشيخ الألباني: صحیح