سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سفر میں ایک اعرابی (دیہاتی) سامنے آیا اور عرض کی: آپ مجھے ایسا عمل بتایئے جو جنت کے قریب کر دے اور جہنم سے دور کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو، اور (رشتہ داروں کے ساتھ) صلہ رحمی کرو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ/حدیث: 49]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الزكاة، باب وجوب الزكاة: 1396 و مسلم: 13 و النسائي: 468، صحيح الترغيب والترهيب: 747، 2523»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا، جب ان کی تخلیق ہو چکی تو رحم کھڑا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: یہ قطع رحمی سے تیری پناہ مانگنے کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ جو تجھے ملائے گا میں اسے ملاؤں اور جو تجھے کاٹے میں اسے کاٹ دوں؟ رحم نے کہا: اے رب تعالیٰ! ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ بات تیرے لیے طے کر دی گئی۔“ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم چاہو تو (بطور تصدیق) یہ آیت پڑھ لو: «فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ»[محمد: 22]”پھر (اے منافقو!) تم سے یہی امید ہے کہ اگر تم حکمران بن جاؤ تو تم زمین میں فساد کرو اور اپنے رشتے ناطے توڑ ڈالو۔“[الادب المفرد/كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ/حدیث: 50]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، التفسير، باب سورة محمد: 4830 و مسلم: 2554، الصحيحة: 2741»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: «وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ . . . . . .» کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے پہلے جو سب سے زیادہ واجب حقوق ہیں ان کا حکم فرمایا (یعنی اللہ کی توحید اور والدین سے حسن سلوک) اور مال ہونے کی صورت میں اعمال میں سے افضل عمل کی راہنمائی فرمائی کہ ”قریبی رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو بھی“، اور مال نہ ہونے کی صورت میں یہ تعلیم دی کہ ”اگر تو اپنے رب کی رحمت (روزی) تلاش کرنے کی وجہ سے ان عزیز و اقارب سے اعراض کرے تو ان سے نرم بات کہہ“، یعنی ان سے کہیے کہ ان شاء اللہ کوئی صورت نکل آئے گی تو پھر آپ سے تعاون کریں گے (کیونکہ) ارشاد باری تعالیٰ: «وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ»”اور اپنے ہاتھ کو گردن سے باندھ کر نہ رکھ۔“ کا مطلب ہے کہ ایسا نہ ہو کہ آپ اسے بالکل کچھ نہ دیں اور جان چھڑا لیں۔ اور «وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ»”اور اپنے ہاتھ کو بالکل ہی مت پھیلائیں“، کا مطلب ہے: ایسا نہ کرو کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ سارا ہی دے دو کہ «فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا»”پھر ملامت زدہ اور تھکا ہارا ہو کر بیٹھ رہے۔“ یعنی بعد میں آنے والا آپ کے پاس کچھ نہ پا کر آپ کو ملامت کرے اور آپ اپنے دیے پر حسرت و افسوس کرتے رہیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ صِلَةِ الرَّحِمِ/حدیث: 51]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه البخاري، فى التاريخ الكبير: 236/1»