الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:


الادب المفرد
كِتَابُ
كتاب
85. بَابُ الْعَفْوِ عَنِ الْخَادِمِ
85. خادم سے درگزر کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 163
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، هُوَ ابْنُ سَلَمَةَ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا أَبُو غَالِبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ‏:‏ أَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ غُلامَانِ، فَوَهَبَ أَحَدُهُمَا لِعَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِ، وَقَالَ‏:‏ ”لَا تَضْرِبْهُ، فَإِنِّي نُهِيتُ عَنْ ضَرْبِ أَهْلِ الصَّلاَةِ، وَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي مُنْذُ أَقْبَلْنَا“، وَأَعْطَى أَبَا ذَرٍّ غُلاَمًا، وَقَالَ‏:‏ ”اسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا“، فَأَعْتَقَهُ، فَقَالَ‏:‏ ”مَا فَعَلَ‏؟“‏ قَالَ‏:‏ أَمَرْتَنِي أَنْ أَسْتَوْصِي بِهِ خَيْرًا فَأَعْتَقْتُهُ‏.‏
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے جبکہ آپ کے ساتھ دو غلام تھے۔ ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا اور نصیحت کی: اسے مارنا نہیں ہے کیونکہ مجھے نمازی (مسلمان) غلاموں کو مارنے سے منع کیا گیا ہے، اور یہ جب سے ہمارے پاس آیا ہے میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ اور ایک غلام سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو دیا اور یوں نصیحت فرمائی: اس کے بارے میں اچھائی کی وصیت قبول کرو۔ تو انہوں نے اسے آزاد کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: تو نے اس غلام کا کیا کیا؟ انہوں نے عرض کیا: آپ نے مجھے اس کے بارے میں حسن سلوک کی وصیت قبول کرنے کا حکم دیا تو میں نے اسے آزاد کر دیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 163]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أحمد: 22154 و الطبراني فى الكبير: 275/8 و محمد بن نصر فى تعظيم قدر الصلاة مختصرًا: 977 و البيهقي فى شعب الإيمان نحوه: 292/4 - الصحيحة: 1428»

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 164
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ‏:‏ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَلَيْسَ لَهُ خَادِمٌ، فَأَخَذَ أَبُو طَلْحَةَ بِيَدِي، فَانْطَلَقَ بِي حَتَّى أَدْخَلَنِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ‏:‏ يَا نَبِيَّ اللهِ، إِنَّ أَنَسًا غُلاَمٌ كَيِّسٌ لَبِيبٌ، فَلْيَخْدُمْكَ‏.‏ قَالَ‏:‏ فَخَدَمْتُهُ فِي السَّفَرِ وَالْحَضَرِ، مَقْدَمَهُ الْمَدِينَةَ حَتَّى تُوُفِّيَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ صَنَعْتُ‏:‏ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا هَكَذَا‏؟‏ وَلاَ قَالَ لِي لِشَيْءٍ لَمْ أَصْنَعْهُ‏:‏ أَلاَ صَنَعْتَ هَذَا هَكَذَا‏؟‏‏.‏
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی خادم نہیں تھا، چنانچہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: الله کے نبی! انس بڑا ذہین و فطین اور ہوشیار بچہ ہے، لہٰذا یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے وفات تک حضر و سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میرے کسی (نامناسب) کام پر یہ نہیں کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اور نہ میرے کسی کام کے سر انجام نہ دینے پر یہ کہا کہ تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 164]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الوصايا، باب استخدام اليتيم فى السفر و الحضر: 2768، 6038 و مسلم: 2309»

قال الشيخ الألباني: صحيح