حضرت بلال بن یساف رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ہم سیدنا سوید بن مقرن رضی اللہ عنہ کے گھر میں کپڑا بیچ رہے تھے کہ ایک لونڈی نکلی اور اس نے ایک آدمی سے کچھ کہا تو اس آدمی نے اسے تھپڑ مار دیا۔ اس پر سیدنا سوید بن مقرن رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: کیا تو نے اس کے چہرے پر طمانچہ مارا ہے؟ یقیناً میں سات (بھائیوں) میں سے ساتواں تھا اور ہماری صرف ایک ہی خادمہ تھی، تو ہم میں سے کسی نے اسے تھپڑ مار دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ اسے آزاد کر دے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 176]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الإيمان: 1658 و أبوداؤد: 5166 و الترمذي: 1542»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے اپنے غلام کو طمانچہ مارا، یا بغیر قصور کے مارا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 177]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الإيمان: 1657 و أبوداؤد: 5168 - الإرواء: 2173»
معاویہ بن سوید بن مقرن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے ایک غلام کو طمانچہ مارا تو وہ بھاگ گیا۔ میرے والد نے مجھے بلایا اور کہا کہ تجھ سے قصاص لیا جائے گا۔ ہم مقرن کے سات بیٹے تھے اور ہماری صرف ایک خادمہ تھی۔ ہم میں سے ایک بھائی نے اسے طمانچہ مار دیا تو اس کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں حکم دو کہ اسے آزاد کر دو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ ان کا اس کے علاوہ کوئی خدمت کرنے والا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اس سے خدمت لیں اور جب اس کی ضرورت نہ رہے تو اسے آزاد کر دیں۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 178]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الإيمان: 1658 و أبوداؤد: 5167»
سیدنا سوید بن مقرن المزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اپنے غلام کو تھپڑ مارا ہے، تو فرمایا: تمہیں معلوم نہیں کہ چہرے پر مارنا حرام ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دیکھا کہ ہم سات بھائی تھے، اور ہماری صرف ایک خادمہ تھی۔ ہم میں سے کسی نے اسے طمانچہ مارا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اسے آزاد کر دیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 179]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الإيمان: 1658 و أبوداؤد: 5166»
زاذان ابوعمر سے روایت ہے کہ ہم سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس تھے تو انہوں نے اپنے ایک غلام کو بلایا جسے انہوں نے مارا تھا۔ اس کی کمر سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا: کیا تجھے درد ہوتی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، تو آپ نے اسے آزاد کر دیا۔ پھر ایک لکڑی زمین سے پکڑی اور فرمایا: اس میں میرے لیے اس لکڑی کے وزن کے برابر بھی ثواب نہیں۔ میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! تم ایسا کیوں کہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے اپنے غلام کو بغیر قصور کے مارا یا اسے طمانچہ رسید کیا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کرے۔“[الادب المفرد/كِتَابُ/حدیث: 180]