الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:


الادب المفرد
كِتَابُ الْمَعْرُوفِ
كتاب المعروف
118. بَابُ الْخُرُوجِ إِلَى الْمَبْقَلَةِ، وَحَمَلِ الشَّيْءِ عَلَى عَاتِقِهِ إِلَى أَهْلِهِ بِالزَّبِيلِ
118. سبزیوں کے کھیت کی طرف جانے اور وہاں سے کوئی چیز ٹوکرے میں اٹھا کر گھر والوں کے پاس لانے کا بیان
حدیث نمبر: 234
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أُسَامَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ الْكِنْدِيِّ قَالَ‏:‏ عَرَضَ أَبِي عَلَى سَلْمَانَ أُخْتَهُ، فَأَبَى وَتَزَوَّجَ مَوْلاَةً لَهُ، يُقَالُ لَهَا‏:‏ بُقَيْرَةُ، فَبَلَغَ أَبَا قُرَّةَ أَنَّهُ كَانَ بَيْنَ حُذَيْفَةَ وَسَلْمَانَ شَيْءٌ، فَأَتَاهُ يَطْلُبُهُ، فَأَخْبَرَ أَنَّهُ فِي مَبْقَلَةٍ لَهُ، فَتَوَجَّهَ إِلَيْهِ، فَلَقِيَهُ مَعَهُ زَبِيلٌ فِيهِ بَقْلٌ، قَدْ أَدْخَلَ عَصَاهُ فِي عُرْوَةِ الزَّبِيلِ، وَهُوَ عَلَى عَاتِقِهِ، فَقَالَ‏:‏ يَا أَبَا عَبْدِ اللهِ، مَا كَانَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ حُذَيْفَةَ‏؟‏ قَالَ‏:‏ يَقُولُ سَلْمَانُ‏: ﴿‏وَكَانَ الإِنْسَانُ عَجُولاً‏﴾ [الإسراء: 11]‏، فَانْطَلَقَا حَتَّى أَتَيَا دَارَ سَلْمَانَ، فَدَخَلَ سَلْمَانُ الدَّارَ فَقَالَ‏:‏ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، ثُمَّ أَذِنَ لأَبِي قُرَّةَ، فَدَخَلَ، فَإِذَا نَمَطٌ مَوْضُوعٌ عَلَى بَابٍ، وَعِنْدَ رَأْسِهِ لَبِنَاتٌ، وَإِذَا قُرْطَاطٌ، فَقَالَ‏:‏ اجْلِسْ عَلَى فِرَاشِ مَوْلاَتِكَ الَّتِي تُمَهِّدُ لِنَفْسِهَا، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُهُ فَقَالَ‏:‏ إِنَّ حُذَيْفَةَ كَانَ يُحَدِّثُ بِأَشْيَاءَ، كَانَ يَقُولُهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَضَبِهِ لأَقْوَامٍ، فَأُوتَى فَأُسْأَلُ عَنْهَا‏؟‏ فَأَقُولُ‏:‏ حُذَيْفَةُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ، وَأَكْرَهُ أَنْ تَكُونَ ضَغَائِنُ بَيْنَ أَقْوَامٍ، فَأُتِيَ حُذَيْفَةُ، فَقِيلَ لَهُ‏:‏ إِنَّ سَلْمَانَ لاَ يُصَدِّقُكَ وَلاَ يُكَذِّبُكَ بِمَا تَقُولُ، فَجَاءَنِي حُذَيْفَةُ فَقَالَ‏:‏ يَا سَلْمَانُ ابْنَ أُمِّ سَلْمَانَ، فَقُلْتُ يَا حُذَيْفَةُ ابْنَ أُمِّ حُذَيْفَةَ، لَتَنْتَهِيَنَّ، أَوْ لَأَكْتُبَنَّ فِيكَ إِلَى عُمَرَ، فَلَمَّا خَوَّفْتُهُ بِعُمَرَ تَرَكَنِي، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”مِنْ وَلَدِ آدَمَ أَنَا، فَأَيُّمَا عَبْدٌ مِنْ أُمَّتِي لَعَنْتُهُ لَعْنَةً، أَوْ سَبَبْتُهُ سَبَّةً، فِي غَيْرِ كُنْهِهِ، فَاجْعَلْهَا عَلَيْهِ صَلاةً‏۔“
حضرت عمرو بن ابوقرہ کندی سے روایت ہے کہ میرے والد نے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو اپنی بہن سے شادی کرنے کی پیش کش کی تو انہوں نے انکار کر دیا اور اپنی آزاد کردہ لونڈی بقرہ سے نکاح کر لیا، پھر ابوقرہ کو معلوم ہوا کہ سیدنا سلمان اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہما کے مابین کوئی ناراضی ہے۔ وہ ان کے پاس آئے تو معلوم ہوا کہ وہ سبزیوں کے کھیت میں گئے ہیں۔ وہ ادھر ہی روانہ ہو گئے۔ ان سے ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ ان کے پاس ایک ٹوکری ہے جس میں سبزیاں ہیں۔ انہوں نے لاٹھی کو زنبیل کے کڑے میں ڈال کر کندھے پر رکھا ہوا ہے۔ ابوقرہ نے کہا: اے ابوعبداللہ! تمہارے اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کیا رنجش ہے؟ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے اس پر یہ آیت پڑھی: «﴿‏وَکَانَ الإِنْسَانُ عَجُولاً‏﴾» انسان بڑا جلد باز ہے۔ پھر دونوں چلے اور سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے گھر آئے۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہوئے اور سلام کہا، پھر ابوقرہ کو اجازت دی تو وہ بھی داخل ہو گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ دروازے پر ایک چادر رکھی ہوئی ہے اور اس کے سر کے قریب چند کچی اینٹیں رکھی ہوئی ہیں اور پاس زین کی طرح ایک موٹا سا گدا رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے (مجھ سے) فرمایا: اپنی باندی کے بستر پر بیٹھ جاؤ جو وہ اپنے لیے بچھاتی ہے۔ پھر باتیں شروع کر دیں اور بتایا کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو وہ باتیں بیان کرتے تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے بارے میں غصے میں فرما دیتے تھے۔ میرے پاس لوگ آتے ہیں اور اس کے متعلق پوچھتے ہیں تو میں کہہ دیتا ہوں: سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان باتوں کا زیادہ علم ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ اور مجھے یہ پسند نہ تھا (کہ ان باتوں کی وجہ سے جو ان میں بیان کرنے کی نہیں ہیں) لوگوں کے درمیان کینہ پیدا ہو۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی گیا اور کہا کہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ تمہاری باتوں کی تصدیق کرتے ہیں نہ انہیں جھٹلاتے ہیں۔ چنانچہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا: اے سلمان بن ام سلمان! (تم نے ایسے کہا ہے)، تو میں نے کہا: اے حذیفہ بن ام حذیفہ! تم ایسی باتیں بیان کرنے سے رک جاؤ ورنہ میں تمہارے بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھوں گا۔ جب میں نے انہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نام لے کر ڈرایا تو وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: (اے اللہ) میں بھی اولاد آدم سے ہوں، چنانچہ میں نے اپنی امت کے جس فرد پر بھی کوئی لعنت کی یا اسے برا بھلا کہا جبکہ وہ اس کا مستحق نہ تھا تو اس کے لیے اسے رحمت بنا دے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْمَعْرُوفِ/حدیث: 234]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أبوداؤد، كتاب السنة، باب فى النهي عن سب أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: 4659 و أحمد: 437/5 - من حديث زائدة به الصحيحة: 1758»

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 235
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عِيسَى، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ‏:‏ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ‏:‏ اخْرُجُوا بِنَا إِلَى أَرْضِ قَوْمِنَا‏.‏ فَخَرَجْنَا، فَكُنْتُ أَنَا وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ فِي مُؤَخَّرِ النَّاسِ، فَهَاجَتْ سَحَابَةٌ، فَقَالَ أُبَيُّ‏:‏ اللَّهُمَّ اصْرِفْ عَنَّا أَذَاهَا‏.‏ فَلَحِقْنَاهُمْ، وَقَدِ ابْتَلَّتْ رِحَالُهُمْ، فَقَالُوا‏:‏ مَا أَصَابَكُمُ الَّذِي أَصَابَنَا‏؟‏ قُلْتُ‏:‏ إِنَّهُ دَعَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَصْرِفَ عَنَّا أَذَاهَا، فَقَالَ عُمَرُ‏:‏ أَلاَ دَعَوْتُمْ لَنَا مَعَكُمْ‏.‏
تخریج الحدیث: «ضعيف: رواه ابن أبى الدنيا فى مجابو الدعوة: 38 و الالكائي فى كرامات الأولياء: 98 و المحامل فى أماليه: 303 و رواه الطبراني فى الدعاء: 985»

قال الشيخ الألباني: ضعيف