الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:


الادب المفرد
كِتَابُ الْعُطَاسَ والتثاؤب
كتاب العطاس والتثاؤب
425. بَابُ تَشْمِيتِ الرَّجُلِ الْمَرْأَةَ
425. مرد کا عورت کو چھینک کا جواب دینا
حدیث نمبر: 941
حَدَّثَنَا فَرْوَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ إِشْكَابَ، قَالاَ‏:‏ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ‏:‏ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى، وَهُوَ فِي بَيْتِ ابْنَتِهِ أُمِّ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ، فَعَطَسْتُ فَلَمْ يُشَمِّتْنِي، وَعَطَسَتْ فَشَمَّتَهَا، فَأَخْبَرْتُ أُمِّي، فَلَمَّا أَتَاهَا وَقَعَتْ بِهِ وَقَالَتْ‏:‏ عَطَسَ ابْنِي فَلَمْ تُشَمِّتْهُ، وَعَطَسَتْ فَشَمَّتَّهَا، فَقَالَ لَهَا‏:‏ إِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏:‏ ”إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَحَمِدَ اللَّهَ فَشَمِّتُوهُ، وَإِنْ لَمْ يَحْمَدِ اللَّهَ فَلاَ تُشَمِّتُوهُ“، وَإِنَّ ابْنَكِ عَطَسَ فَلَمْ يَحْمَدِ اللَّهَ، فَلَمْ أُشَمِّتْهُ، وَعَطَسَتْ فَحَمِدَتِ اللَّهَ فَشَمَّتُّهَا، فَقَالَتْ‏:‏ أَحْسَنْتَ‏.‏
حضرت ابوبردہ بن ابوموسیٰ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں اپنے والد سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس گیا جبکہ وہ (اپنی بیوی) فضل بن عباس کی بیٹی (ام کلثوم) کے ہاں تھے۔ مجھے چھینک آئی تو انہوں نے مجھے جواب نہ دیا اور اسے (ام کلثوم کو) چھینک آئی تو اسے انہوں نے جواب دیا۔ میں نے اپنی والدہ (ام عبداللہ) کو بتایا۔ جب والد محترم ان کے پاس آئے تو وہ خوب بولیں، اور کہا: میرے بیٹے کو چھینک آئی تو اس کو آپ نے جواب نہیں دیا، اور اسے (اپنی بیوی ام کلثوم کو) جواب دیا۔ انہوں نے میری والدہ سے کہا: بلاشبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو اسے جواب دو، اور اگر وہ الحمد للہ نہ کہے تو اسے جواب مت دو۔ اور میرے بیٹے کو چھینک آئی اور اس نے الحمد للہ نہیں کہا تو میں نے جواب نہیں دیا، اور اسے (ام كلثوم) کو چھینک آئی اور اس نے الحمد للہ کہا تو میں نے اسے جواب دیا۔ اس نے کہا: آپ نے بہت اچھا کیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الْعُطَاسَ والتثاؤب/حدیث: 941]
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح مسلم، الزهد و الرقائق، ح: 2992 و الحاكم فى المستدرك: 265/4»

قال الشيخ الألباني: صحيح