الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:


الادب المفرد
كِتَابُ السَّلامِ
كتاب السلام
470. بَابُ التَّسْلِيمِ عَلَى الأَمِيرِ
470. امیر کو سلام کہنا
حدیث نمبر: 1023
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ سَأَلَ أَبَا بَكْرِ بْنَ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ‏:‏ لِمَ كَانَ أَبُو بَكْرٍ يَكْتُبُ‏:‏ مِنْ أَبِي بَكْرٍ خَلِيفَةِ رَسُولِ اللهِ، ثُمَّ كَانَ عُمَرُ يَكْتُبُ بَعْدَهُ‏:‏ مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَلِيفَةِ أَبِي بَكْرٍ، مَنْ أَوَّلُ مَنْ كَتَبَ‏:‏ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ‏؟‏ فَقَالَ‏:‏ حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي الشِّفَاءُ - وَكَانَتْ مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ الأُوَلِ، وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا هُوَ دَخَلَ السُّوقَ دَخَلَ عَلَيْهَا - قَالَتْ‏:‏ كَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى عَامِلِ الْعِرَاقَيْنِ‏:‏ أَنِ ابْعَثْ إِلَيَّ بِرَجُلَيْنِ جَلْدَيْنِ نَبِيلَيْنِ، أَسْأَلُهُمَا عَنِ الْعِرَاقِ وَأَهْلِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ صَاحِبُ الْعِرَاقَيْنِ بِلَبِيدِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَعَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، فَقَدِمَا الْمَدِينَةَ فَأَنَاخَا رَاحِلَتَيْهِمَا بِفِنَاءِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ دَخَلاَ الْمَسْجِدَ فَوَجَدَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، فَقَالاَ لَهُ‏:‏ يَا عَمْرُو، اسْتَأْذِنْ لَنَا عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ، فَوَثَبَ عَمْرٌو فَدَخَلَ عَلَى عُمَرَ فَقَالَ‏:‏ السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ‏:‏ مَا بَدَا لَكَ فِي هَذَا الِاسْمِ يَا ابْنَ الْعَاصِ‏؟‏ لَتَخْرُجَنَّ مِمَّا قُلْتَ، قَالَ‏:‏ نَعَمْ، قَدِمَ لَبِيدُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَعَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ، فَقَالاَ لِي‏:‏ اسْتَأْذِنْ لَنَا عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، فَقُلْتُ‏:‏ أَنْتُمَا وَاللَّهِ أَصَبْتُمَا اسْمَهُ، وَإِنَّهُ الأَمِيرُ، وَنَحْنُ الْمُؤْمِنُونَ‏.‏ فَجَرَى الْكِتَابُ مِنْ ذَلِكَ الْيَوْمِ‏.
سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ رحمہ اللہ سے پوچھا: سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کیوں لکھتے تھے: من ابی بکر خليفۃ رسول اللہ، پھر ان کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لکھتے تھے: عمر بن خطاب خلیفۃ ابوبکر کی طرف سے، اور پھر سب سے پہلے امیر المومنین کس نے لکھنا شروع کیا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے میری دادی شفاء نے بتایا، اور وہ ابتدا میں ہجرت کرنے والیوں میں سے تھیں، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب بازار آتے تو ان کے ہاں ضرور حاضر ہوتے، وہ فرماتی ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کوفہ و بصرہ کے گورنروں کو لکھا کہ میرے پاس دو مضبوط اور سمجھ دار آدمی بھیجو تاکہ میں ان سے عراق اور وہاں کے باشندوں کے بارے میں دریافت کر سکوں۔ چنانچہ دونوں گورنروں نے سیدنا لبيد بن ربیعہ اور سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہما کو بھیجا۔ وہ مدینہ طیبہ آئے اور دونوں نے اپنی سواریاں مسجد کے سامنے بٹھائیں، اور مسجد میں داخل ہوئے تو انہیں سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ملے۔ دونوں نے ان سے کہا: اے عمرو! ہمارے لیے امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب کیجیے۔ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ جلدی سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: السلام عليك يا أمير المؤمنین۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: عاص کے بیٹے! یہ نام تجھے کہاں سے سوجھا؟ جو تم نے کہا اس کی وجہ بیان کرو۔ انہوں نے کہا: ضرور، لبيد بن ربیعہ اور عدی بن حاتم آئے ہیں، اور انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ امیر المومنین سے ہمارے لیے اجازت طلب کرو۔ تو میں نے کہا: اللہ کی قسم تم نے ان کا صحیح نام تجویز کیا ہے۔ وہ واقعی امیر ہیں اور ہم مومن ہیں۔ اسی دن سے یہ خطاب جاری ہو گیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1023]
تخریج الحدیث: «صحيح: التمهيد لابن عبدالبر: 76/10 و أسد الغابة»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1024
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ اللهِ قَالَ‏:‏ قَدِمَ مُعَاوِيَةُ حَاجًّا حَجَّتَهُ الأُولَى وَهُوَ خَلِيفَةٌ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ الأَنْصَارِيُّ فَقَالَ‏:‏ السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الأَمِيرُ وَرَحْمَةُ اللهِ، فَأَنْكَرَهَا أَهْلُ الشَّامِ وَقَالُوا‏:‏ مَنْ هَذَا الْمُنَافِقُ الَّذِي يُقَصِّرُ بِتَحِيَّةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ‏؟‏ فَبَرَكَ عُثْمَانُ عَلَى رُكْبَتِهِ ثُمَّ قَالَ‏:‏ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ هَؤُلاَءِ أَنْكَرُوا عَلَيَّ أَمْرًا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنْهُمْ، فَوَاللَّهِ لَقَدْ حَيَّيْتُ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ، فَمَا أَنْكَرَهُ مِنْهُمْ أَحَدٌ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِمَنْ تَكَلَّمَ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ‏:‏ عَلَى رِسْلِكُمْ، فَإِنَّهُ قَدْ كَانَ بَعْضُ مَا يَقُولُ، وَلَكِنَّ أَهْلَ الشَّامِ قَدْ حَدَثَتْ هَذِهِ الْفِتَنُ، قَالُوا‏:‏ لاَ تُقَصَّرُ عِنْدَنَا تَحِيَّةُ خَلِيفَتِنَا، فَإِنِّي إِخَالُكُمْ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ تَقُولُونَ لِعَامِلِ الصَّدَقَةِ‏:‏ أَيُّهَا الأمِيرُ‏.‏
حضرت عبیداللہ بن عبداللہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ بننے کے بعد پہلا حج کرنے کے لیے آئے تو سیدنا عثمان بن حنیف انصاری رضی اللہ عنہ ان سے ملنے آئے، تو انہوں نے کہا: السلام عليك أيها الأمير ورحمة الله. ابلِ شام کو یہ انداز برا لگا اور انہوں نے کہا: یہ منافق کون ہے جو امیر المومنین کے سلام میں نقص پیدا کرتا ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے، پھر فرمایا: امیر المومنین! یہ لوگ مجھ سے ایسی بات پر ناراض ہو رہے جسے آپ ان سے زیادہ جانتے ہیں۔ اللہ کی قسم میں نے سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم کو اسی طرح سلام کہا تو کسی نے ان میں سے اسے نا پسند نہیں کیا۔ اہلِ شام میں سے جس نے یہ بات کی تھی، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: ٹھہر جاؤ۔ انہوں نے وہی بات کی ہے جو وہ کہتے تھے۔ لیکن شام والوں کو جب یہ فتنہ پیش آیا تو کہنے لگے کہ ہمارے پاس ہمارے خلیفہ کے سلام میں کوتاہی نہ کی جائے۔ اے اہلِ مدینہ! میرا خیال ہے کہ تم صدقہ وصول کرنے والے عامل کو أیها الأمير کہتے ہو (اس لیے انہوں نے برا محسوس کیا ہے۔) [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1024]
تخریج الحدیث: «صحيح: المصنف لعبدالرزاق: 390/15، ح: 19454»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1025
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ‏:‏ دَخَلْتُ عَلَى الْحَجَّاجِ فَمَا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ‏.‏
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حجاج کے پاس آیا تو میں نے اسے سلام نہیں کہا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1025]
تخریج الحدیث: «صحيح: المستدرك للحاكم: 653/3»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1026
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ سَلَمَةَ الضَّبِّيِّ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ حَذْلَمٍ قَالَ‏:‏ إِنِّي لَأَذْكُرُ أَوَّلَ مَنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ بِالإِمْرَةِ بِالْكُوفَةِ، خَرَجَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ مِنْ بَابِ الرَّحَبَةِ، فَفَجَأَهُ رَجُلٌ مِنْ كِنْدَةَ، زَعَمُوا أَنَّهُ‏:‏ أَبُو قُرَّةَ الْكِنْدِيُّ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَقَالَ‏:‏ السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الأَمِيرُ وَرَحْمَةُ اللهِ، السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، فَكَرِهَهُ، فَقَالَ‏:‏ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَيُّهَا الأَمِيرُ وَرَحْمَةُ اللهِ، السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، هَلْ أَنَا إِلاَّ مِنْهُمْ، أَمْ لاَ‏؟‏ قَالَ سِمَاكٌ‏:‏ ثُمَّ أَقَرَّ بِهَا بَعْدُ‏.‏
تمیم بن حذلم رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے یاد ہے کہ کوفہ میں سب سے پہلے کس کو امیر کے لفظ سے سلام کہا گیا۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ رحبہ کے دروازے سے نکلے تو ایک شخص کندہ سے آیا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ابوقرہ کندی تھا۔ اس نے سلام کہا اور یہ الفاظ بولے: السلام عليك أيها الأمير و رحمة الله، السلام علیکم! سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے یہ انداز نا پسند کیا اور فرمایا: السلام عليكم أيها الأمير، السلام علیکم! (یہ کیا انداز ہوا) کیا میں ان لوگوں میں شامل ہوں کے نہیں (پھر مجھے الگ سلام کی کیا ضرورت؟) سماک رحمہ اللہ کہتے ہیں: بعد ازاں سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے اس کو مان لیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1026]
تخریج الحدیث: «صحيح: تفرد به المصنف»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1027
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي زِيَادُ بْنُ عُبَيْدٍ، بَطْنٌ مِنْ حِمْيَرٍ، قَالَ‏:‏ دَخَلْنَا عَلَى رُوَيْفِعٍ، وَكَانَ أَمِيرًا عَلَى أَنْطَابُلُسَ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، وَنَحْنُ عِنْدَهُ، فَقَالَ‏:‏ السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الأَمِيرُ، فَقَالَ لَهُ رُوَيْفِعٌ‏:‏ لَوْ سَلَّمْتَ عَلَيْنَا لَرَدَدْنَا عَلَيْكَ السَّلاَمَ، وَلَكِنْ إِنَّمَا سَلَّمْتَ عَلَى مَسْلَمَةَ بْنِ مَخْلَدٍ، وَكَانَ مَسْلَمَةُ عَلَى مِصْرَ، اذْهَبْ إِلَيْهِ فَلْيَرُدَّ عَلَيْكَ السَّلاَمَ‏.‏
زياد بن عبید حمیری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ہم سیدنا رويفع بن سکن انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جبکہ وہ انطابلس کے امیر تھے، ہم وہاں موجود تھے کہ ایک آدمی آیا اور سلام کہتے ہوئے یہ الفاظ بولے: السلام عليك أيها الأمير! تو سیدنا رويفع رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: اگر تم ہمیں سلام کہتے تو ہم تیرے سلام کا جواب دیتے، لیکن تم نے تو مسلمہ بن مخلد پر سلام کیا ہے (سیدنا مسلمہ رضی اللہ عنہ ان دنوں مصر کے گوز تھے)۔ ان کے پاس جاؤ وہی تیرے سلام کا جواب دیں گے۔ زیاد کہتے ہیں کہ جب وہ کسی مجلس میں ہوتے اور ہم آ کر سلام کرتے تو یوں کہتے: السلام علیکم۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1027]
تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد موقوفًا: تفرد به المصنف»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد موقوفًا