سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: آپ نے صبح کس حال میں کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیر کے ساتھ صبح ہوئی، میں ایسے لوگوں میں سے ہوں جو نہ کسی جنازے میں حاضر ہوئے نہ کسی مریض کی عیادت کی۔“[الادب المفرد/كِتَابُ الرَّسَائِلِ/حدیث: 1133]
تخریج الحدیث: «حسن لغيره: أخرجه ابن ماجه، كتاب الأدب: 3710»
مہاجر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک بھاری جسامت والے حضرمی صحابی کے پاس بیٹھا کرتا تھا۔ جب انہیں کہا جاتا کہ کس حال میں صبح ہوئی؟ تو وہ جواب دیتے: ہم اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الرَّسَائِلِ/حدیث: 1134]
سيف بن وہب سے روایت ہے کہ ابوطفیل نے مجھ سے پوچھا: تمہاری عمر کتنی ہے؟ میں نے کہا: میں تینتیس سال کا ہوں۔ انہوں نے کہا: کیا تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں جو میں نے سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سنی ہے؟ قصہ یوں ہے کہ بنومحارب بن خصفہ کے ایک آدمی جنہیں عمرو بن صلیع کہا جاتا تھا، اور انہیں شرفِ صحابیت بھی حاصل تھا۔ ان کی عمر اتنی تھی جتنی آج میری ہے، اور میں آج تمہاری عمر کا ہوں۔ ہم سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس مسجد میں آئے اور میں لوگوں کے آخر میں بیٹھ گیا، اور عمرو آگے بڑھ کر ان کے سامنے جا کر کھڑے ہوئے اور کہا: اے عبداللہ! آپ نے صبح کس حال میں کی؟ یا کہا: آپ نے شام کس حال میں کی؟ انہوں نے فرمایا: میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ عمرو نے کہا: آپ کے حوالے سے ہمیں کیا باتیں پہنچ رہی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اے عمرو! تمہیں میرے حوالے سے کیا پہنچا ہے؟ انہوں نے کہا: ایسی احادیث جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنیں۔ انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! اگر میں وہ (سب کچھ) تمہیں بیان کروں جو میں نے سنا ہے تو تم رات ہونے تک بھی میرا انتظار نہ کرو۔ لیکن اے عمرو بن صليع! جب تم دیکھو کہ قیس شام میں برسرِ اقتدار آگئے ہیں تو بچ کر رہنا۔ اللہ کی قسم! بنوقیس کسی مومن بندے کو نہیں چھوڑیں گے مگر یا تو اسے ڈرائیں گے یا قتل کر دیں گے۔ اللہ کی قسم! ان پر ایک زمانہ آئے گا کہ ہر طرف ان کا قبضہ ہوگا۔ انہوں نے کہا: اللہ آپ پر رحم کرے، آپ اپنی قوم کی کیا مدد کریں گے؟ انہوں نے فرمایا: یہ مجھ پر رہا (کہ میں نے کیا کرنا ہے؟) پھر وہ بیٹھ گئے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ الرَّسَائِلِ/حدیث: 1135]
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه معمر فى جامعه: 19889 و الحاكم: 516/4 مطولًا و الطيالسي فى مسنده: 421 و ابن أبى شيبة: 37400 و أحمد: 23316 و الطبراني فى مسند الشاميين: 1952 مختصرًا فالأثر صحيح»