الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:


الادب المفرد
كِتَابٌ
كتاب
552. بَابُ الْجُلُوسِ عَلَى السَّرِيرِ
552. تخت پر بیٹھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1160
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُضَارِبٍ، عَنِ الْعُرْيَانِ بْنِ الْهَيْثَمِ قَالَ‏:‏ وَفَدَ أَبِي إِلَى مُعَاوِيَةَ، وَأَنَا غُلاَمٌ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ قَالَ‏:‏ مَرْحَبًا مَرْحَبًا، وَرَجُلٌ قَاعِدٌ مَعَهُ عَلَى السَّرِيرِ، قَالَ‏:‏ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَنْ هَذَا الَّذِي تُرَحِّبُ بِهِ‏؟‏ قَالَ‏:‏ هَذَا سَيِّدُ أَهْلِ الْمَشْرِقِ، وَهَذَا الْهَيْثَمُ بْنُ الأَسْوَدِ، قُلْتُ‏:‏ مَنْ هَذَا‏؟‏ قَالُوا‏:‏ هَذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قُلْتُ لَهُ‏:‏ يَا أَبَا فُلاَنٍ، مِنْ أَيْنَ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ‏؟‏ قَالَ‏:‏ مَا رَأَيْتُ أَهْلَ بَلَدٍ أَسْأَلَ عَنْ بَعِيدٍ، وَلاَ أَتْرَكَ لِلْقَرِيبِ مِنْ أَهْلِ بَلَدٍ أَنْتَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ‏:‏ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضِ الْعِرَاقِ، ذَاتِ شَجَرٍ وَنَخْلٍ‏.‏
عریان بن ہیثم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میرے والد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جبکہ میں ابھی لڑکا تھا۔ جب وہ داخل ہوئے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خوش آمدید، خوش آمدید، ان کے ساتھ تخت پر بیٹھے ایک شخص نے کہا: امیر المومنین! یہ کون ہے جس کو آپ خوش آمدید کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: یہ اہلِ مشرق (عراق) کے سردار ہیثم بن اسود ہیں۔ میں نے کہا: یہ پوچھنے والے کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ عبداللہ بن عمرو بن عاص ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا: اے ابو فلان! دجال کہاں سے نکلے گا؟ انہوں نے فرمایا: اس شہر والوں سے بڑھ کر میں نے کسی شہر والوں کو نہیں دیکھا کہ وہ قریب والوں کو چھوڑ کر دور والوں سے سوال کرتے ہوں۔ تم بھی ان میں سے ہو جہاں سے دجال نکلے گا۔ پھر فرمایا: وہ درختوں اور کھجوروں والی زمین عراق سے نکلے گا۔ [الادب المفرد/كِتَابٌ/حدیث: 1160]
تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد موقوفًا: أخرجه ابن أبى شيبة: 7511 بنحوه، و كذا فى جامعه: 20829 بنحوه أيضًا»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد موقوفًا

حدیث نمبر: 1161
حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ قَالَ‏:‏ جَلَسْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى سَرِيرٍ‏.‏
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ قَالَ‏:‏ كُنْتُ أَقْعُدُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَكَانَ يُقْعِدُنِي عَلَى سَرِيرِهِ، فَقَالَ لِي‏:‏ أَقِمْ عِنْدِي حَتَّى أَجْعَلَ لَكَ سَهْمًا مِنْ مَالِي، فَأَقَمْتُ عِنْدَهُ شَهْرَيْنِ.
ابو العالیہ رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ تخت پر بیٹھا۔
ابو جمرہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا کرتا تو وہ مجھے اپنے تخت پر بٹھاتے۔ ایک دفعہ انہوں نے فرمایا: میرے پاس رک جاؤ یہاں تک کہ میں اپنے مال میں سے تمہارے لیے ایک حصہ مقرر کردوں۔ چنانچہ میں ان کے ہاں دو ماہ تک ٹھہرا رہا۔ [الادب المفرد/كِتَابٌ/حدیث: 1161]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البيهقي فى المدخل: 398 و البخاري: 53 - أنظر المشكاة: 16»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1162
حَدَّثَنَا عُبَيْدٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ أَبُو خَلْدَةَ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، وَهُوَ مَعَ الْحَكَمِ أَمِيرٌ بِالْبَصْرَةِ عَلَى السَّرِيرِ، يَقُولُ‏:‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلاَةِ، وَإِذَا كَانَ الْبَرْدُ بَكَّرَ بِالصَّلاةِ‏.‏
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے امیر بصره حکم بن ابوعقیل ثقفی کے ساتھ اس کے تخت پر بیٹھ کر فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم گرمی میں (ظہر کی) نماز ٹھنڈی کر کے (قدرے تاخیر سے) پڑھتے، اور جب سردی ہوتی تو جلد نماز پڑھتے۔ [الادب المفرد/كِتَابٌ/حدیث: 1162]
تخریج الحدیث: «حسن الإسناد و المرفوع منه صحيح: أخرجه البيهقي فى الكبرىٰ: 191/3 - المشكاة: 620»

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد و المرفوع منه صحيح

حدیث نمبر: 1163
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مُبَارَكٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ‏:‏ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى سَرِيرٍ مَرْمُولٍ بِشَرِيطٍ، تَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، مَا بَيْنَ جِلْدِهِ وَبَيْنَ السَّرِيرِ ثَوْبٌ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُمَرُ فَبَكَى، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏:‏ ”مَا يُبْكِيكَ يَا عُمَرُ‏؟“‏ قَالَ‏:‏ أَمَا وَاللَّهِ مَا أَبْكِي يَا رَسُولَ اللهِ، أَلاَّ أَكُونَ أَعْلَمُ أَنَّكَ أَكْرَمُ عَلَى اللهِ مِنْ كِسْرَى وَقَيْصَرَ، فَهُمَا يَعِيثَانِ فِيمَا يَعِيثَانِ فِيهِ مِنَ الدُّنْيَا، وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللهِ بِالْمَكَانِ الَّذِي أَرَى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏:‏ ”أَمَا تَرْضَى يَا عُمَرُ أَنْ تَكُونَ لَهُمُ الدُّنْيَا وَلَنَا الْآخِرَةُ‏؟“‏ قُلْتُ‏:‏ بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ‏:‏ ”فَإِنَّهُ كَذَلِكَ‏.‏“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی رسی سے بنی ہوئی ایک چار پائی یا تخت پر تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے نیچے کھجور کی چھال سے بھرا ہوا ایک چمڑے کا تکیہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک اور تخت کے درمیان کوئی کپڑا نہ تھا۔ اس دوران سیدنا عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو رو پڑے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: عمر! تم کیوں روتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر یہ بات جانتا نہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کی حیثیت قیصر و کسریٰ سے کہیں بڑھ کر ہے تو میں نہ روتا۔ وہ کس قدر دنیاوی ناز و نعمت میں رہ رہے ہیں، اور آپ اللہ کے رسول اس حال میں ہیں جس کو میں دیکھ رہا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! کیا تم اس بات سے راضی نہیں کہ ان کے لیے دنیا ہو اور ہمارے لیے آخرت؟ میں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر یہ اسی طرح ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابٌ/حدیث: 1163]
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه ابن ماجه، كتاب الزهد: 4153 و مسلم، الطلاق، باب فى الايلاء و اعتزال النساء و تخبيرهن ......: 1479، 30 من حديث عمر بن يونس به مطولًا»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

حدیث نمبر: 1164
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلاَلٍ، عَنْ أَبِي رِفَاعَةَ الْعَدَوِيِّ قَالَ‏:‏ انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ، فَقُلْتُ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، رَجُلٌ غَرِيبٌ جَاءَ يَسْأَلُ عَنْ دِينِهِ، لاَ يَدْرِي مَا دِينُهُ، فَأَقْبَلَ إِلَيَّ وَتَرَكَ خُطْبَتَهُ، فَأَتَى بِكُرْسِيٍّ خِلْتُ قَوَائِمَهُ حَدِيدًا، قَالَ حُمَيْدٌ‏:‏ أُرَاهُ خَشَبًا أَسْوَدَ حَسَبُهُ حَدِيدًا، فَقَعَدَ عَلَيْهِ، فَجَعَلَ يُعَلِّمُنِي مِمَّا عَلَّمَهُ اللَّهُ، ثُمَّ أَتَمَّ خُطْبَتَهُ، آخِرَهَا‏.
سیدنا ابورفاعہ عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! ایک پردیسی شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہے جو اپنے دین کے بارے میں پوچھتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کا دین کیا ہے؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ چھوڑ کر میرے پاس تشریف لائے، پھر ایک کرسی لائی گئی، میرے خیال کے مطابق اس کی ٹانگیں لوہے کی تھیں۔ (حمید کہتے ہیں کہ میرے خیال میں وہ کالی لکڑی کی تھیں جسے انہوں نے لوہے کی سمجھا)، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے وہ احکام سکھانے لگے جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائے تھے۔ پھر بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ مکمل فرمایا۔ [الادب المفرد/كِتَابٌ/حدیث: 1164]
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الجمعة: 867 و النسائي: 5377»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1165
حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ دِهْقَانَ قَالَ‏:‏ رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ جَالِسًا عَلَى سَرِيرِ عَرُوسٍ، عَلَيْهِ ثِيَابٌ حُمْرُ‏.‏
موسیٰ بن دہقان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دلہن والے تخت پر بیٹھے دیکھا جبکہ انہوں نے سرخ کپڑے زیب تن کر رکھے تھے۔ [الادب المفرد/كِتَابٌ/حدیث: 1165]
تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد موقوفًا»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد موقوفًا

حدیث نمبر: 1165M
وَعَنْ أَبِيهِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ: رَأَيْتُ أَنَسًا جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ وَاضِعًا إِحْدَى رِجْلَيْهِ عَلَى الأُخْرَى.
عمران بن مسلم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ تخت پر تشریف فرما تھے جبکہ آپ نے ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھی ہوئی تھی۔ [الادب المفرد/كِتَابٌ/حدیث: 1165M]
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه ابن أبى شيبة: 25515 و ابن سعد فى الطبقات: 23/7»

قال الشيخ الألباني: حسن