سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کوئی بھی شخص جو کچھ بھی اس سے پوچھا جائے وہ اس کا جواب دیدے تو وہ پاگل ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 176]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 176] » تخریج اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الفقيه 1194] و [الإبانة 326]
وضاحت: (تشریح حدیث 175) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں، جس کی واقعی ضرورت ہو اسی کا جواب دینا چاہیے اور جو چیز معلوم نہ ہو اس کا جواب دینے کی تکلیف نہیں کرنی چاہیے۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تین قسم کے آدمی فتویٰ دے سکتے ہیں، امام یا والی حکومت یا وہ آدمی جو قرآن کے ناسخ و منسوخ کا عالم ہو، لوگوں نے پوچھا: ایسا کون ہو سکتا ہے؟ کہا: یا تو سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ یا پھر تکلف کرنے والا احمق بےوقوف۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 177]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لانقطاعه محمد بن سيرين لم يدرك حذيفة، [مكتبه الشامله نمبر: 177] » اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن اثر کی نسبت صحیح ہے۔ دیکھئے: [الفقيه 1194] ، [جامع بيان العلم 2214، 2217]
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تین میں سے کوئی ایک فتویٰ دے سکتا ہے۔ جو ناسخ و منسوخ کا علم رکھتا ہو، لوگوں نے کہا: ایسا کون ہے؟ فرمایا: سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، یا ایسا امیر جس کو فتویٰ دیئے بنا کوئی چارہ نہ ہو، یا تکلف کرنے والا احمق۔ پھر محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے کہا: میں ان دو (یعنی حاکم و والی) میں سے تو ہوں نہیں، اور آرزو رکھتا ہوں کہ تیسرا (احمق متکلف) بھی نہ بنوں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 178]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 178] » س اثر کی سند جید ہے۔ ابن الجوزی نے اسے [ناسخ القرآن ومنسوخه ص: 134] میں ذکر کیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم میں سے جس کے پاس علم ہو اس کو ظاہر کرے، اور جس کو علم نہ ہو تو جو جانتا نہیں ہے اس کے بارے میں کہدے: «لا أعلم»(یعنی مجھے علم نہیں) کیونکہ عالم سے ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جس کا اسے علم نہیں تو وہ «الله أعلم» کہے، جیسا کہ الله تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: ”کہہ دیجئے میں اس پر تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا، اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں“[سورة ص: 86/38] [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 179]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 179] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4774] ، [مسند الحميدي 116] و [صحيح ابن حبان 4764]
وضاحت: (تشریح احادیث 176 سے 179) اس اثر میں بلا علم فتویٰ دینے سے پرہیز کی تلقین اور کم علمی و تقصیر کے اعتراف کی ترغیب ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «﴿وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾ [الاسراء: 85] » ترجمہ: ”تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ “ نیز اسلاف کرام نے «لا أعلم» کہنے کو بھی نصف علم گردانا ہے، اور علم نہ ہوتے ہوئے علمیت جتانا اور اس کا اظہار کرنا تکلف ہے، آیتِ شریفہ میں اس سے روکا گیا اور ارشاد ہوا: «﴿قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ﴾ [سورة ص: 86] »
ابوالمہلب سے روایت ہے کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے دوران کہا: جس کو علم ہو وہ لوگوں کو سکھا دے، اور خبردار جس چیز کا علم نہ ہو اس کے بارے میں کچھ نہ کہے، اگر ایسا کیا تو وہ دین سے نکل جائے گا، اور تکلف کرنے والوں میں سے ہو گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 180]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 180] » اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔ امام دارمی کے علاوہ کسی نے ذکر بھی نہیں کیا۔
ابوالبختری اور زاذان نے کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کتنی کلیجے کی ٹھنڈک ہے کہ جب مجھ سے ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جس کا مجھ کو علم نہیں اور میں کہدوں «الله أعلم»”اللہ زیادہ جاننے والا ہے“۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 181]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف خالد بن عبد الله متأخر السماع من عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 181] » اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1405]
ابوالبختری نے روایت کیا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کتنا ہی اچھا ہو (کلیجے میں ٹھنڈک ہو) جس چیز کو تم نہ جانتے ہو کہدو: «الله أعلم»[سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 182]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف شريك متأخر السماع من عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 182] » اس قول کی سند بھی ضعیف ہے۔ ابوالبختری کا نام سعید بن فیروز ہے جن کا لقاء سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔ یہ روایت [الفقيه والمتفقه 71/2] میں کئی طرق سے موجود ہے، اور اس کے صحیح شواہد بھی موجود ہیں، معنی بھی صحیح ہے۔
ابونعمان رزین سے مروی ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: تم سے جب ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جس کا تمہیں علم نہیں، تو اس کے جواب سے دور بھاگو۔ رزین نے کہا: امیر المؤمنین! بتایئے کیسے بھاگیں؟ فرمایا: «الله أعلم» کہہ دو۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 183]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 183] » اس کو صرف امام دارمی نے روایت کیا ہے۔ نیز دیکھئے: مذکورہ بالا تخریج۔
عزرہ تمیمی سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تین بار فرمایا: کلیجے کی ٹھنڈک ہے، لوگوں نے کہا: کیا چیز اے امیر المؤمنین؟ فرمایا: یہ کہ آدمی سے ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جس کا اسے علم نہیں اور وہ کہدے: «الله أعلم»[سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 184]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 184] » یہ اثر ضعیف ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1569] و [المدخل للبيهقي 794] اس کی سند میں محمد بن حمید ضعیف ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 179 سے 184) ان تمام آثار میں «اللّٰه أعلم» کہدینے سے قلبی سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے اس کا ذکر ہے، اور انسان بے جا تکلف سے بچ جاتا ہے۔
ہشام بن عروہ نے اپنے باپ (عروة) سے روایت کیا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے کوئی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا: مجھے اس کا علم نہیں، جب وہ آدمی چلا گیا تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ابن عمر نے جو کہا وہ ٹھیک ہے، ایسی چیز کے بارے میں ان سے پوچھا گیا جس کا انہیں علم نہیں تو کہہ دیا: مجھے اس کا علم نہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 185]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 185] » اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الفقيه والمتفقه 172/2] ، [جامع بيان العلم 1563] ، [المعرفة والتاريخ 493/1]
نافع نے کہا: ایک آدمی آیا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں، پھر جب وہ آدمی چلا گیا تو انہوں نے مڑ کر کہا: ابن عمر نے جو کہا وہ درست ہے۔ ان سے اس چیز کے بارے میں پوچھا جاتا ہے جس کا انہیں علم نہیں تو انہوں نے کہہ دیا: مجھے معلوم نہیں (یعنی خود ان سے)۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 187]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 187] » اس روایت کی سند حسن ہے، اوپر دوسری صحیح سند بھی گزر چکی ہے۔ دیکھئے رقم (185)
سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عامر الشعبی رضی اللہ عنہ سے جب کسی چیز کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ کہہ دیتے تھے «لا أدري»(میں نہیں جانتا ہوں)، اگر دوبارہ پوچھا جاتا تو سختی سے کہتے: میں تمہارے لئے اللہ کی قسم کھاتا ہوں اگر مجھے اس کا علم ہو (یعنی قسم اللہ کی مجھے اس کا علم نہیں)۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 188]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 188] » اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ خطیب نے [الفقيه والمتفقه 184/2] میں اس روایت کو ذکر کیا ہے، لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے۔
اشعث رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: مجھ سے سوال کیا جائے مجھے اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ میں جانتا ہوں یا نہیں۔ اس لئے کہ جس چیز کے بارے میں سوال کیا جا تا ہے جانتا ہوں تو اسی کے مطابق جواب دیتا ہوں، نہیں جانتا تو کہدیتا ہوں «لا أعلم» کہ میں نہیں جانتا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 189]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 189] » اس روایت کی سند صحیح ہے، اور صرف امام دارمی نے اسے روایت کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 184 سے 189) سبحان اللہ کیا سادگی اور تواضع ہے، عامر الشعبی بڑے پائے کے عالم ہیں لیکن کتنی سادگی سے کہتے ہیں: میں سوال سے گھبراتا نہیں اور نہ تکلف سے کام لیتا ہوں، کیوں کہ جو معلوم ہے وہ بتا دیتا ہوں، معلوم نہیں تو کہہ دیتا ہوں کہ مجھے اس کا علم نہیں۔
اعمش سے مروی ہے کہ میں نے امام ابراہیم النخعی رحمہ اللہ کو کبھی یہ کہتے نہیں سنا کہ یہ حلال اور یہ حرام ہے، بلکہ وہ کہتے تھے لوگ اسے مکروہ کہتے تھے یا لوگ اسے مستحب سمجھتے تھے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 190]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 190] » اس روایت کی سند بھی صحیح ہے، لیکن امام دارمی کے علاوہ کسی نے اسے روایت نہیں کیا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 189) ان روایات سے ان فقہاء و محدثین اور علمائے حدیث کا مسئلے مسائل میں عدم تکلف اور اظہارِ حقیقت اور ان پاک نفوس کی فضیلت و اعلی مقام کا ثبوت ملتا ہے۔