الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
27. باب الْعَمَلِ بِالْعِلْمِ وَحُسْنِ النِّيَّةِ فِيهِ:
27. علم کے ساتھ عمل اور اس میں حسن نیت کا بیان
حدیث نمبر: 258
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صُهَيْبٍ، أَنَّ الْمُهَاصِرَ بْنَ حَبِيبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: "إِنِّي لَسْتُ كُلَّ كَلَامِ الْحَكِيمِ أَتَقَبَّلُ، وَلَكِنِّي أَتَقَبَّلُ هَمَّهُ وَهَوَاهُ، فَإِنْ كَانَ هَمُّهُ وَهَوَاهُ فِي طَاعَتِي، جَعَلْتُ صَمْتَهُ حَمْدًا لِي وَوَقَارًا، وَإِنْ لَمْ يَتَكَلَّمْ".
مہاجر بن حبیب نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں ہر دانا کے کلام کو قبول نہیں کر لیتا ہوں، بلکہ اس کے ارادے اور خواہش کو قبول کرتا ہوں، اگر اس کے ارادے و خواہش میری اطاعت میں ہوتے ہیں تو میں اس کی خاموشی کو بھی حمد و ثنا اور وقار بنا دیتا ہوں چاہے وہ چپ ہی رہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 258]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف صدقة بن عبد الله ضعيف والحديث مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 258] »
اس حدیث کی سند ضعیف ہے، اور امام دارمی رحمہ اللہ کے علاوہ کسی نے ذکر نہیں کیا۔ بعض نسخ میں مہاصر (بالصاد) بن ابی حبیب ہے۔

وضاحت: (تشریح حدیث 257)
اس روایت کی سند گرچہ ضعیف ہے لیکن سطرِ اوّل کا معنی صحیح ہے، جیسا کہ آیتِ شریفہ میں ہے: «﴿لَنْ يَنَالَ اللّٰهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ﴾ [الحج: 37] » (ترجمہ: اللہ تعالیٰ کو نہ تمہاری قربانیوں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون، بلکہ اس کو تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔
)
نیز صحیح حدیث میں ہے: «إِنَّ اللّٰهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَلَا إِلَى أَجْسَامِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ، وَأَعْمَالِكُمْ» ترجمہ: بیشک الله تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کی طرف دیکھتا ہے نہ تمہارے جسموں کی طرف دیکھتا ہے۔
ہاں وہ تمہارے دل اور اعمال کو دیکھتا ہے۔
[مسلم: 2564] ، [ابن ماجه 4143] اور آخری سطر اس کی خامشی کو حمد و وقار بنا دیتا ہوں اس کا مرفوع ہونا محل نظر ہے۔

حدیث نمبر: 259
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ، يَرْفَعُ الْحَدِيثَ، أَنَّ اللَّهَ قَالَ: "أَبُثُّ الْعِلْمَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ حَتَّى يَعْلَمَهُ الرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ، وَالْعَبْدُ وَالْحُرُّ، وَالصَّغِيرُ وَالْكَبِيرُ، فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ بِهِمْ، أَخَذْتُهُمْ بِحَقِّي عَلَيْهِمْ".
ابوزاہریہ (حدیر بن کریب) نے مرفوعاً روایت کیا: الله تعالیٰ نے فرمایا: میں آخری زمانے میں علم کو پھیلاؤں گا یہاں تک کہ مرد، عورت، غلام اور آزاد، چھوٹے اور بڑے سب علم حاصل کریں گے، پھر جب ایسا کر لوں گا تو میں انہیں اپنے حق کے عوض پکڑ لوں گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 259]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى أبي الزاهرية حدير بن كريب وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 259] »
یہ مرسل روایت ہے اور سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1210] ، [حلية الأولياء 100/6]

وضاحت: (تشریح حدیث 258)
جیسا کہ آیتِ شریفہ میں ہے: «﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا﴾ [الإسراء: 15] » یعنی اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور اس کا عذاب حجت تمام ہونے کے بعد ہی آتی ہے جو وہ رسول بھیج کر پوری فرماتا ہے۔

حدیث نمبر: 260
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "مَنْ طَلَبَ شَيْئًا مِنْ هَذَا الْعِلْمِ، فَأَرَادَ بِهِ مَا عِنْدَ اللَّهِ، يُدْرِكْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَمَنْ أَرَادَ بِهِ الدُّنْيَا، فَذَاكَ وَاللَّهِ حَظُّهُ مِنْهُ".
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: جس نے الله تعالیٰ سے اجر کی نیت سے اس علم میں سے کچھ طلب کیا، اللہ چاہے گا تو وہ اسے (علم دین کو) حاصل کر لے گا، اور جس نے اس علم کے ذریعہ دنیا حاصل کرنے کی نیت رکھی، تو قسم اللہ کی اس کو دنیا مل جائے گی۔ یعنی «﴿وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ﴾» [بقره: 200/2] آخرت میں ان کا کچھ حصہ نہ ہو گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 260]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 260] »
یہ حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [اقتضاء العلم والعمل للخطيب 103] ، مزید وضاحت (263) میں آ رہی ہے۔

حدیث نمبر: 261
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عِيسَى، قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: "لَا تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ لِثَلَاثٍ: لِتُمَارُوا بِهِ السُّفَهَاءَ، وَتُجَادِلُوا بِهِ الْعُلَمَاءَ، وَلِتَصْرِفُوا بِهِ وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْكُمْ، وَابْتَغُوا بِقَوْلِكُمْ مَا عِنْدَ اللَّهِ، فَإِنَّهُ يَدُومُ وَيَبْقَى، وَيَنْفَدُ مَا سِوَاهُ". [في إسناده محمد بن عون وهو متروك. وباقي رجاله ثقات]
وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَ: "كُونُوا يَنَابِيعَ الْعِلْمِ، مَصَابِيحَ الْهُدَى، أَحْلَاسَ الْبُيُوتِ، سُرُجَ اللَّيْلِ، جُدُدَ الْقُلُوبِ، خُلْقَانَ الثِّيَابِ، تُعْرَفُونَ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ، وَتَخْفَوْنَ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ".[إسناده ضعيف]
سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تین چیزوں کے واسطے علم حاصل نہ کرو (تاکہ) بے وقوف سے تکرار کرو، اس کے ذریعہ علماء سے جھگڑا کرو، یا اس کے ذریعہ لوگوں کے چہرے اپنی طرف موڑ لو (یعنی انہیں اپنا گرویدہ بنا لو)، اپنے کلام سے وہی اجر تلاش کرو جو اللہ کے پاس ہے، جو ہمیشہ باقی رہے گا اور جو اس کے سوا ہے وہ ختم ہو جائے گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 261]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في إسناده محمد بن عون وهو متروك. وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 261، 262] »
اس روایت کی سند میں محمد بن عون متروک ہیں، لیکن [حلية الاولياء 77/1] میں اس کا شاہد موجود ہے۔ نیز دیکھئے: [الفقيه 810] ، [جامع بيان العلم 257]

وضاحت: (تشریح احادیث 259 سے 261)
مرفوع حدیث میں ہے: «لَا تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ لِتُبَاهُوا بِهِ الْعُلَمَاءَ، أَوْ لِتُمَارُوا بِهِ السُّفَهَاءَ، أَوْ لِتَصْرِفُوا وُجُوهَ النَّاسِ إِلَيْكُمْ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَهُوَ فِي النَّارِ.» مطلب یہ کہ جس نے اس لئے علم حاصل کیا کہ علماء سے جھگڑا کرے، جاہلوں سے تکرار کرے، اور لوگوں کو اپنا ہم نوا بنائے، تو وہ جہنم میں جائے گا۔
دیکھئے: [ترمذي 2654] ، [ابن ماجه 259-260] اس روایت کو شیخ البانی نے [صحيح الجامع 7247] میں صحیح کہا ہے۔

حدیث نمبر: 262
أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَارَةَ بْنِ حَزْمٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَطْلُبُ هَذَا الْعِلْمَ أَحَدٌ لَا يُرِيدُ بِهِ إِلَّا الدُّنْيَا، إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عبداللہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس علم کو (یعنی علم دین کو) کسی نے دنیا حاصل کرنے کے لئے سیکھا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس پر جنت کی خوشبو تک حرام فرما دے گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 262]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى عبد الله بن عبد الرحمن وهو مرسل بل ربما كان معضلا، [مكتبه الشامله نمبر: 263] »
یہ حدیث مرسل یا معضل ہے، لیکن اس کا معنی صحیح اور شواہد موجود ہیں۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6178] ، [أبوداؤد 3664] ، [ابن ماجه 252] ، [جامع بيان العلم 1145] ، [مسند أحمد 338/2] ، [مسند أبى يعلی 6373] ، [صحيح ابن حبان 78] ، دیکھئے: [موارد الظمآن 89]

وضاحت: (تشریح حدیث 261)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بنانے کے لئے جس نے علمِ دین حاصل کیا تو وہ جنت میں داخل ہونا تو کجا جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا، اس لئے علمِ دین خالصاً لوجہ اللہ حاصل کرنا چاہئے، جیسا کہ حدیث ہے: «مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ، لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا، لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» [صحيح الجامع 60350] اور جو شخص اللہ کی رضا کی خاطر علم حاصل کرے اس کے لئے بشارت ہے: «﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا . وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهُ﴾ [الطلاق: 2، 3] » جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے راہ ہموار بنا دیتا ہے اور ایسی جگہ سے اس کو روزی دیتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر پاتا اور جو اللہ پر اعتماد کرتا ہے وہ اس کے لیے کافی ہے۔

حدیث نمبر: 263
أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلشَّعْبِيِّ: أَفْتِنِي أَيُّهَا الْعَالِمُ، فَقَالَ: "الْعَالِمُ مَنْ يَخَافُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ".
ایک آدمی نے امام شعبی رحمہ اللہ سے کہا: اے عالم (دین) مجھے فتویٰ دیجئے، تو انہوں نے کہا: عالم وہ ہے جو الله عزوجل کا خوف رکھے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 263]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 264] »
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 17517] ، [حلية الأولياء 311/4]

وضاحت: (تشریح حدیث 262)
یعنی علم حاصل کر لینے سے کوئی عالم نہیں بن جاتا، بلکہ عمل اور تقویٰ و اخلاص جب تک نہ ہو وہ عالم نہیں بن سکتا۔

حدیث نمبر: 264
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مَزْيَدٍ، عَنْ أَوْفَى بْنِ دَلْهَمٍ أَنَّهُ بَلَغَهُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، تُعْرَفُوا بِهِ، وَاعْمَلُوا بِهِ، تَكُونُوا مِنْ أَهْلِهِ، فَإِنَّهُ سَيَأْتِي بَعْدَ هَذَا زَمَانٌ لَا يَعْرِفُ فِيهِ تِسْعَةُ عُشَرَائِهِمْ الْمَعْرُوفَ، وَلَا يَنْجُو مِنْهُ إِلَّا كُلُّ نُؤْمَةٍ، فَأُولَئِكَ أَئِمَّةُ الْهُدَى وَمَصَابِيحُ الْعِلْمِ، لَيْسُوا بِالْمَسَايِيحِ، وَلَا الْمَذَايِيعِ الْبُذُرِ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد: نُؤَمَةٌ: غَافِلٌ عَنْ الشَّرِّ، الْمَذَايِيعُ: كَثِيرُ الْكَلَامِ، وَالْبُذْرِ: النَّمَّامُونَ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم حاصل کرو، اسی کے ذریعہ پہچانے جاؤ گے، اس پر عمل کرو تو اہل علم کہلاؤ گے، بعد میں ایسا زمانہ آئے گا کہ دس میں سے نو آدمی معروف (بھلائی) کو جانیں گے ہی نہیں، اور صرف زاہد ہی اس سے نجات پا سکیں گے، وہی ہدایت کے امام، علم کے چراغ ہیں جو شرارت انگیزی کرنے والے چغل خور نہ ہوں گے۔ ابومحمد نے کہا کہ «نؤمة» برائی سے غافل اور «المذاييع» بہت زیادہ بات کرنے والے کو کہتے ہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 264]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه منقطع أوفى بن دلهم لم يسمع عليا فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 265] »
اس روایت میں انقطاع ہے، لیکن اس کے رجال ثقہ ہیں، تخریج کے لئے دیکھئے: [الزهد لأحمد ص:103] و [شعب الإيمان 9670]

حدیث نمبر: 265
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ بَعْدَ أَنْ تَعْلَمُوا، فَلَنْ يَأْجُرَكُمْ اللَّهُ تَعَاليَ بِالْعِلْمِ حَتَّى تَعْمَلُوا".
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم حاصل کرنے کے بعد جس قدر ہو سکے عمل کرو، جب تک عمل نہ کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں ہرگز علم کا بدلہ نہیں دے گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 265]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده رجاله ثقات غير أن يزيد بن جابر الأزدي لم يدرك معاذ بن جبل، [مكتبه الشامله نمبر: 266] »
اس اثر کی سند میں یزید بن جابر کا لقاء سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، رجال اس کے ثقات ہیں۔ ابن المبارک نے [الزهد 62] میں، اور ابونعیم نے [حلية الأولياء 236/1] میں اسے ذکر کیا ہے۔

حدیث نمبر: 266
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَالِدِ بْنِ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مَزْيَدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ سَعْدٍ، أَنَّهُ أَتَى ابْنَ مُنَبِّهٍ فَسَأَلَهُ عَنْ الْحَسَنِ، وَقَالَ لَهُ: كَيْفَ عَقْلُهُ؟ فَأَخْبَرَهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّا لَنَتَحَدَّثُ، أَوْ نَجِدُ فِي الْكُتُبِ أَنَّهُ: "مَا آتَى اللَّهُ سًبْحَانَه عَبْدًا عِلْمًا فَعَمِلَ بِهِ عَلَى سَبِيلِ الْهُدَى، فَيَسْلُبَهُ عَقْلَهُ حَتَّى يَقْبِضَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ".
سعد سے مروی ہے کہ وہ وہب بن منبہ کے پاس آئے تو انہوں نے حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں پوچھا کہ ان کی عقل و سمجھ کا کیا حال ہے؟ سعد نے ان کا حال بتایا، پھر بتایا کہ ہم نے کتب (سماویہ) میں پڑھا ہے کہ الله تعالیٰ نے جس بندے کو بھی علم عطا فرمایا ہے اور اس نے ہدایت کے راستے پر چلتے ہوئے عمل کیا تو اللہ تعالیٰ اس کی عقل سلب نہیں کرے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی روح قبض کر کے اس کو اپنے پاس بلا لے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 266]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في إسناده سعد وما عرفته وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 267] »
اس روایت کی سند میں راوی ”سعد“ کے بارے میں معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون ہیں، باقی رواة ثقات ہیں۔ حوالہ دیکھئے: [شعب الإيمان 1883]

وضاحت: (تشریح احادیث 263 سے 266)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ عالم باعمل کی عقل مرتے دم تک باقی رہتی ہے، گرچہ یہ روایت اسرائیلیات میں سے ہے لیکن آیتِ شریفہ «﴿ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ [5] إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ...﴾ [التين: 5، 6] » سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
اس آیت میں انسان کے ارذل العمر تک پہنچ جانے کا اشارہ ہے جس وقت عقل و شعور میں سفلہ پن آجاتا ہے، لیکن مومنین اس سے محفوظ رہتے ہیں۔
ہم نے اپنے اساتذہ کرام میں سے کتنے ایسے دیکھے جو لگ بھگ سو سال کی عمر تک پہنچے لیکن عقل و سمجھ برقرار رہی۔
محدّثِ عصر اور فقیہ دوران سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ کا جس رات انتقال ہوا، نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر معاملات سنتے اور ڈکٹیٹ کراتے رہے، 17 معاملات آپ نے انجام کو پہنچائے اور فجر سے پہلے مالکِ حقیقی سے جا ملے، اور آخر وقت تک عقل و شعور کی حالت قابلِ رشک تھی۔
«(تغمده اللّٰه بواسع رحمته)» اسی طرح شیخ الحدیث مولانا عبدالجبار صاحب شکراوی کو دیکھا۔
«غفر اللّٰه له.»

حدیث نمبر: 267
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ سَيْفٍ الْحِمْصِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو كَبْشَةَ السَّلُولِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يَقُولُ: "إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ، عَالِمًا لَا يَنْتَفِعُ بِعِلْمِهِ".
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقام و مرتبے کے اعتبار سے بدترین آدمی وہ عالم ہو گا جو اپنے علم سے فائدہ نہ اٹھائے۔ یعنی علم کے مطابق عمل نہ کرے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 267]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف جدا ابن القاسم هو عبد الغفار بن القاسم بن قيس قال ابن المديني: " كان يضع الحديث "، [مكتبه الشامله نمبر: 268] »
یہ روایت بہت ضعیف ہے، دوسرے طریق سے بھی مروی ہے، لیکن وہ بھی ضعیف ہیں۔ دیکھئے: [الزهد لابن المبارك 40] ، [حلية الأولياء 223/1] ، [جامع بيان العلم 1078]

وضاحت: (تشریح حدیث 266)
یہ روایت گرچہ ضعیف ہے لیکن علم بلا عمل وبالِ جان ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے قیامت کے دن عالم سے پوچھا جائے گا: «(فَمَاذَا عَمِلْتَ بَعْدَ مَا عَلِمْتَ؟)» اور عمل نہ کرنے کے باعث وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
«(أعاذنا اللّٰه منه)» ۔

حدیث نمبر: 268
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو قُدَامَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ:"مَنْ يَزْدَدْ عِلْمًا، يَزْدَدْ وَجَعًا".
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے درد بھی بڑھ جاتا ہے (یعنی خشیت الہٰی اور انابت الی اللہ میں اضافہ ہو جاتا ہے)۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 268]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في إسناده علتان: الأولى مالك بن دينار لم يدرك أبا الدرداء فالإسناد منقطع والثانية: أبو قدامة وهو: الحارث بن عبيد وهو ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 269] »
اس اثر کی سند میں انقطاع ہے اور ابوقدامہ حارث بن عبید ضعیف ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 900]

حدیث نمبر: 269
أخْبَرَنَا وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: "مَا أَخَافُ عَلَى نَفْسِي أَنْ يُقَالَ لِي: مَا عَلِمْتَ، وَلَكِنْ أَخَافُ أَنْ يُقَالَ لِي: مَاذَا عَمِلْتَ".
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے اس کا ڈر نہیں کہ کہا جائے تم نے کیا علم حاصل کیا؟ بلکہ ڈر یہ ہے کہ مجھے کہا جائے عمل کیسا کیا؟ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 269]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 270] »
یہ اثر متعدد کتب میں ہے، لیکن سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [الزهد لابن المبارك 39] ، [جامع بيان العلم 1201] ، [اقتضاء العلم والعمل 54] ، [مصنف ابن أبى شيبه 16446] ، [الزهد لأحمد 136] ، [حلية الأولياء 213/1]

وضاحت: (تشریح احادیث 267 سے 269)
یہ حدیث «يوتي يوم القيامة ............ فماذا عملت» کی طرف اشارہ ہے (یعنی قیامت کے دن پوچھا جائے گا علم حاصل کرنے کے بعد عمل کتنا کیا تھا)۔
اور اس میں صحابیٔ جلیل سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کی فضیلت ہے کہ ڈرتے ہیں قیامت کے دن اللہ کے نزدیک یہ سوال نہ کیا جائے کہ کیا عمل کیا؟

حدیث نمبر: 270
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ جُرَيْجٍ يَذْكُرُ عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "تَدَارُسُ الْعِلْمِ سَاعَةً مِنْ اللَّيْلِ، خَيْرٌ مِنْ إِحْيَائِهَا".
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رات کے کچھ وقت میں علم کا مذاکرہ کرنا پوری رات کی عبادت سے بہتر ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 270]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 271] »
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 20469] ، [جامع بيان العلم 107] لیکن بیہقی نے [المدخل 459] میں صحیح سند سے ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [جامع بيان العلم 96، 106] و [الفقيه والمتفقه 14/1، 19]

حدیث نمبر: 271
أَخْبَرَنَا وقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "إِنِّي لَأُجَزِّئُ اللَّيْلَ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ: فَثُلُثٌ أَنَامُ، وَثُلُثٌ أَقُومُ، وَثُلُثٌ أَتَذَكَّرُ أَحَادِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں رات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں: ایک تہائی سوتا ہوں، ایک تہائی قیام کرتا ہوں اور ایک تہائی احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم یاد کرتا ہوں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 271]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 272] »
اس روایت کی سند مذکورہ بالا روایت کی طرح ہے، لیکن یہ روایت امام دارمی کے علاوہ کسی نے نقل نہیں کی ہے۔

حدیث نمبر: 272
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "مَنْ ابْتَغَى شَيْئًا مِنْ الْعِلْمِ يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ، آتَاهُ اللَّهُ مِنْهُ مَا يَكْفِيهِ".
امام ابراہیم النخعی رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص الله تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے علم حاصل کرے الله تعالیٰ اس کو اتنا دیتا ہے جو اس کے لئے کافی ہوتا ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 272]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 273] »
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 17248] ، [حلية الأولياء 228/4] و [العلم لأبي خيثمة 111]

وضاحت: (تشریح احادیث 269 سے 272)
یہ آیتِ شریفہ: «﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا [2] وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ﴾ [الطلاق: 2، 3] » کی تفسیر ہے۔
یعنی جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے اللہ تعالیٰ اس کے لئے راستہ نکال دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا کرتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔
ان تمام روایات میں علم حاصل کرنے کے ساتھ اس پر عمل کی ترغیب ہے، نیز یہ کہ علم کا حصول اور عملِ صالح ہر ایک میں خلوص وللّٰہیت بے حد ضروری ہے، ورنہ سب کچھ ضائع کر دیا جائے گا۔