عبدالاعلی سے مروی ہے امام حسن بصری رحمہ اللہ بازار میں داخل ہوئے، ایک آدمی سے کسی کپڑے کا بھاؤ کیا تو اس نے کہا: آپ کے لئے اتنے کا ہے، قسم اللہ کی آپ کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو اتنی قیمت پر نہ دیتا، امام حسن رحمہ اللہ نے فرمایا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے بعد ان کو بازار میں خرید و فروخت کرتے نہ دیکھا گیا یہاں تک کہ الله تعالیٰ سے جا ملے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 591]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 592] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اور اس کو صرف امام دارمی نے ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 590) حسن رحمہ اللہ کا تقویٰ و پرہیزگاری دیکھئے، ان کو یہ گوارہ نہ تھا کہ ان کے علم اور مقام ومرتبے کی وجہ سے کوئی ان کے ساتھ رعایت کرے اور علم کی قیمت لگائی جائے۔
ابومعشر (زیاد بن کلیب) نے کہا: امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ جس سے جان پہچان ہوتی اس سے خرید نہ کرتے تھے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 592]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف جدا حسام بن مصك كاد أن يترك، [مكتبه الشامله نمبر: 593] » اس روایت کی سند حسام بن مصک کی وجہ سے ضعیف ہے۔
عبید بن الحسن سے مروی ہے کہ مصعب بن زبیر نے رمضان شروع ہوتے وقت کچھ مال کوفہ کے قراء میں تقسیم کیا، اور عبدالرحمٰن بن معقل کے پاس دو ہزار درہم بھیجے اور کہا کہ اس ماہ مبارک میں اس مال سے مدد لیجئے، لیکن عبدالرحمٰن بن معقل نے وہ درہم واپس کر دیئے اور کہا: ہم قرآن اس کے لئے نہیں پڑھتے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 593]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 594] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اور عبدالسلام: ابن حرب ہیں۔
عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالله بن سلام رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا: اہل علم کون ہیں؟ عرض کیا: جو علم کے مطابق عمل کریں، پوچھا: لوگوں کے دلوں سے کون سی چیز علم کو دور کر دیتی ہے؟ فرمایا: لالچ۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 594]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات وإسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 595] » اس اثر کی سند صحیح ہے، اور مذکورہ بالا تینوں روایات کہیں اور نہیں مل سکیں۔ نیز دیکھئے: رقم (604)۔
وضاحت: (تشریح احادیث 591 سے 594) اس قول سے معلوم ہوا کہ عمل کے ذریعہ اور لالچ سے دور رہتے ہوئے علم محفوظ رہ سکتا ہے۔
زید سے مروی ہے کوئی چیز کسی چیز سے زیادہ اچھی نہیں جتنا کہ حلم سے لے کر علم تک ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 595]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 596] » اس قول کی سند صحیح ہے، اور تمام رجال ثقات ہیں، لیکن امام دارمی کے علاوہ کسی نے ذکر نہیں کیا۔
سلمہ بن وہرام سے مروی ہے امام طاؤوس رحمہ اللہ نے کہا: برد باری کی تھیلی کی طرح کسی چیز میں علم نہیں اٹھایا گیا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 597]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف من أجل زمعة بن صالح، [مكتبه الشامله نمبر: 598] » اس قول کی سند زمعۃ بن صالح کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے [مصنف ابن أبى شيبه 5675] ، [حلية الأولياء 24/9] ، [شعب الايمان 8531] ، نیز اس کا شاہد [مصنف ابن أبى شيبه 5676] میں موجود ہے، جس سے روایت کو تقویت ملتی ہے۔ نیز رقم (598) بھی اس کی شاہد ہے جو صحیح ہے۔
ابن شبرمہ سے مروی ہے: شعبی نے کہا: علم کی زینت اہل علم کی برد باری ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 598]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 599] » اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 5673] ، [الحلية 318/4] ، [شعب الايمان 8530]
وضاحت: (تشریح احادیث 594 سے 598) اس کا مطلب یہ ہے کہ علم پر عمل کرتے ہوئے حلم و بردباری اختیار کرنا علم کو آرائش و زینت عطا کرتا ہے۔
یعلی بن مقسم سے مروی ہے: وہب بن منبہ نے فرمایا: حكمت حلیم و بردبار اور مطمئن دل میں رہتی ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 599]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف من أجل مطرف بن مازن، [مكتبه الشامله نمبر: 600] » اس قول کی سند ضعیف لیکن معنی صحیح ہے۔ دیکھئے الاثر السابق۔
سفیان کہتے تھے: عبید اللہ (ابن عمر) نے فرمایا: تم نے علم کو دھبہ لگایا اور اس کے نور کو ضائع کر دیا ہے، اگر مجھے اور تم کو سیدنا عمر (رضی اللہ عنہم اجمعین) پا لیتے تو مار لگاتے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 600]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 601] » اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [شرف أصحاب الحديث 284]
اُمی المرادی سے مروی ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم سیکھو، اور جب علم حاصل کر چکو تو اس کی حفاظت کرو، ہنسی مذاق، کھیل کود سے اسے خلط ملط نہ کرو کہ دل اسے نکال پھینکیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 601]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 602] » اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 300/7] ، [الجامع 213]
فضیل بن غزوان سے مروی ہے: علی بن حسین رحمہ اللہ نے فرمایا: جو ایک بار ہنسا اس نے علم کی ایک بار کلی کر دی۔ یعنی ہنسنا اور قہقہے لگانا عالم کی شان نہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 602]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 603] » اس قول کی سند محمد بن حمید کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [زوائد عبدالله على زهد الإمام أحمد 166] ، لیکن [حلية الأولياء 133/3] اور [شعب الايمان 1830] میں یہ روایت صحیح سند سے موجود ہے۔
سفیان سے مروی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اہل علم کون لوگ ہیں؟ کہا: جو علم کے مطابق عمل کرتے ہیں، فرمایا: اور علماء کے دل سے علم کو کس چیز نے خارج کر دیا؟ جواب دیا: (طمع) لالچ نے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 603]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 604] » اس روایت کی سند سے دو راوی ساقط ہیں، لہٰذا یہ روایت معضل ہے، دیگر کسی محدث نے اسے روایت نہیں کیا، لیکن عبداللہ بن سلام سے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت (594) پر گزر چکی ہے۔
ابوایاس نے کہا: میں عمرو بن نعمان کے پاس مقیم تھا کہ مصعب بن زبیر کا قاصد رمضان میں دو ہزار درہم لے کر ان کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: امیر (محترم) نے آپ کو سلام کہا ہے اور حکم دیا ہے کہ ہم کسی بھی معزز قاری کو بنا کسی تحفہ تحائف کے نہ چھوڑیں اس لئے یہ دو ہزار اس مہینہ کا خرچ قبول فرمایئے۔ عمرو بن نعمان نے کہا: ان امیر محترم کو میرا سلام کہو، اور ان سے کہدو الله کی قسم ہم نے قرآن (کریم) کو دنیا اور دراہم کی چاہت میں نہیں پڑھا ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 604]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «محمد بن حميد ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 605] » اس روایت کی سند میں محمد بن حمید ضعیف ہیں، لیکن [مصنف ابن أبى شيبه 10054] میں جید سند سے یہ روایت موجود ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 598 سے 604) خلوصِ وللّٰہیت کا یہ بہترین نمونہ ہے اور اپنے علم کو مال و دولت کی طمع سے بچا کر محفوظ رکھا جاسکتا ہے، اسی میں عزت ہے، وقار ہے، اور علم کی سربلندی ہے۔