24. باب: آیت کی تفسیر ”اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے ظلم زیادتی یا بے رغبتی کا خوف ہو تو ان کو باہمی صلح کر لینے میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ صلح بہتر ہے“۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا (آیت میں) «شقاق» کے معنی فساد اور جھگڑا ہے۔ «وأحضرت الأنفس الشح» ہر نفس کو اپنے فائدے کا لالچ ہوتا ہے۔ «كالمعلقة» یعنی نہ تو وہ بیوہ رہے اور نہ شوہر والی ہو۔ «نشوزا» بمعنی «بغضا» عداوت کے معنی میں ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4601]
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت «وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا أو إعراضا.»”اور کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے زیادتی یا بے رغبتی کا خوف ہو“ کے متعلق کہا کہ ایسا مرد جس کے ساتھ اس کی بیوی رہتی ہے، لیکن شوہر کو اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں، بلکہ وہ اسے جدا کر دینا چاہتا ہے، اس پر عورت کہتی ہے کہ میں اپنی باری اور اپنا (نان نفقہ) معاف کر دیتی ہوں (تم مجھے طلاق نہ دو) تو ایسی صورت کے متعلق یہ آیت اسی باب میں اتری۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4601]