الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
44. باب فِيمَنْ يُصَلِّي خَلْفَ الإِمَامِ وَالإِمَامُ جَالِسٌ:
44. امام بیٹھا ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1290
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهِ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ فَرَسًا فَصُرِعَ عَنْهُ، فَجُحِشَ شِقُّهُ الْأَيْمَنُ، فَصَلَّى صَلَاةً مِنْ الصَّلَوَاتِ وَهُوَ جَالِسٌ، فَصَلَّيْنَا مَعَهُ جُلُوسًا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:"إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ، فَإِذَا صَلَّى قَائِمًا، فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ، فَارْفَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِنْ صَلَّى قَاعِدًا، فَصَلُّوا قُعُودًا أَجْمَعُونَ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس پر سے گر پڑے، اس سے آپ کا دایاں پہلو زخمی ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فرض) نمازوں میں سے کوئی نماز بیٹھ کر پڑھی، پس ہم نے بھی آپ کے ساتھ بیٹھ کر ہی نماز پڑھی، جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا: امام اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، اس لئے اس (امام) کی مخالفت نہ کرو، لہٰذا جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو، اور اگر وہ امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر ہی نماز پڑھو۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1290]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1291] »
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 689] ، [مسلم 411] ، [أبوداؤد 601] ، [نسائي 831] ، [أبويعلی 3558] ، [ابن حبان 2102] ، [الحميدي 1223]

حدیث نمبر: 1291
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ لَهَا: لا تُحَدِّثِينِي عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: بَلَى، ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:"أَصَلَّى النَّاسُ؟"قُلْنَا: لَا، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:"ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ". قَالَتْ: فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ:"أَصَلَّى النَّاسُ؟"فَقُلْنَا: لَا، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:"ضَعُوا لِي مَاءً فِي الْمِخْضَبِ". فَفَعَلْنَا، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ، فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ:"أَصَلَّى النَّاسُ؟"فَقُلْنَا: لَا، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَتْ: وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ. قَالَتْ: فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ. قَالَتْ: فَأَتَاهُ الرَّسُولُ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ بِأَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ رَجُلًا رَقِيقًا: يَا عُمَرُ، صَلِّ بِالنَّاسِ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ. قَالَتْ: فَصَلَّى بِهِمْ أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الْأَيَّامَ. قَالَتْ: ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا الْعَبَّاسُ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ، وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَتَأَخَّرَ، وَقَالَ لَهُمَا:"أَجْلِسَانِي إِلَى جَنْبِهِ". فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ. قَالَتْ: فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي وَهُوَ قَائِمٌ بِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ". قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَلَا أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: هَاتِ، فَعَرَضْتُ حَدِيثَهَا عَلَيْهِ، فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ الْعَبَّاسِ؟ قُلْتُ: لَا، فَقَالَ: هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ.
عبدالله بن عبداللہ (بن عتبہ) نے کہا: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا: کیا آپ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی حالت بیان نہیں کریں گی؟ کہا: ضرور، (سنو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض بڑھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے کہا: نہیں اے اللہ کے رسول! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لئے ٹب میں پانی رکھ دو، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہم نے پانی رکھ دیا، آپ نے بیٹھ کر غسل فرمایا، آپ اٹھنے لگے تو بیہوش ہو گئے، جب ہوش آیا تو پھر پوچھا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کیا نہیں اے اللہ کے رسول! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پھر) فرمایا: ٹب میں میرے لئے پانی رکھ دو، فرماتی ہیں: ہم نے پھر پانی رکھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر غسل فرمایا، پھر آپ نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن پھر بے ہوش ہو گئے، جب ہوش ہوا تو پھر یہ ہی فرمایا: کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ لوگ مسجد میں عشاء کی نماز کے لئے بیٹھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے، کہا آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیجا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، وہ شخص سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے ہیں کہ آپ نماز پڑھا دیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بہت نرم دل کے انسان تھے۔ انہوں نے کہا: عمر! تم نماز پڑھا دو، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے آپ ہی زیادہ حق دار ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: چنانچہ (آپ کی) بیماری کے ان ایام میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے رہے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزاج کچھ ہلکا محسوس ہوا تو آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر جن میں سے ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے ظہر کی نماز کے لئے باہر تشریف لے گئے، اس وقت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے، جب ابوبکر نے آپ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے انہیں روکا کہ پیچھے نہ ہٹو، پھر آپ نے ان دونوں آدمیوں سے فرمایا کہ: مجھے ابوبکر کے بازو میں بٹھا دو، چنانچہ ان دونوں نے آپ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا اور اب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، اور سب لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، عبید اللہ نے کہا: پھر میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں گیا اور ان سے عرض کیا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں جو حدیث بیان کی کیا میں وہ آپ کو سناؤں؟ انہوں نے کہا ضرور سناؤ چنانچہ میں نے پوری حدیث انہیں سنا دی، انہوں نے اس میں کسی چیز کا انکار نہیں کیا، بس صرف یہ کہا: کیا (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے اس آدمی کا نام بتایا جو عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے؟ میں نے عرض کیا: نہیں، تو انہوں نے بتایا کہ وہ (دوسرے شخص) علی بن ابی طالب ہیں (رضی اللہ عنہ وارضاه)۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1291]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1292] »
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 687] ، [مسلم 418] ، [مسند أبى يعلی 4478] ، [ابن حبان 2116]

وضاحت: (تشریح احادیث 1289 سے 1291)
پہلی حدیث میں ہے کہ امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں، لیکن پہلی والی حدیث مذکورہ بالا دوسری حدیث سے منسوخ ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور سب صحابہ کرام نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی، نیز یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، آج کے زمانے میں امام اگر بیمار ہے تو کوئی دوسرا نماز پڑھا سکتا ہے۔