سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز ادا کی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے تو فرمایا: ”فلاں شخص حاضر ہے؟“ صحابہ نے عرض کیا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”فلاں آدمی حاضر ہے؟“ عرض کیا: نہیں، آپ نے کئی منافقین کے نام لے کر پوچھا جو نماز میں حاضر نہیں تھے (پھر) فرمایا: ”یہ دونوں نمازیں (فجر اور عشاء) منافقین پر بہت زیادہ بھاری (ہوتی) ہیں، لیکن اگر وہ ان کی فضیلت (اجر و ثواب) کو جان لیں تو گھسٹتے ہوئے ان دونوں نمازوں میں چلے آئیں۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: عبداللہ بن ابی بصیر نے کہا: مجھ سے میرے والد نے یہ حدیث بیان کی اور انہوں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی اور میں نے اپنے باپ سے اس کو سنا۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1304]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إلى قوله عليه الصلاة والسلام ولو حبوا: إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1305، 1306] » یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 551] ، [نسائي 846] ، [ابن ماجه 790] ، [ابن حبان 2056] ، [الموارد 429]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منافقین پر عشاء اور فجر سے زیادہ کوئی نماز بھاری نہیں ہے، اور اگر ان دونوں نمازوں کا اجر و ثواب انہیں معلوم ہو جائے تو وہ ان کے لئے گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے چلے آئیں۔“[سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1307]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1309] » یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 657] ، [مسلم 651] ، [ابن ماجه 798] ، [ابن حبان 2098]
وضاحت: (تشریح احادیث 1303 سے 1307) ان تمام روایات سے نمازِ فجر اور عشاء کی فضیلت معلوم ہوئی، اور یہ دونوں نمازیں منافقین پر بے حد شاق گذرتی ہیں کیونکہ یہ آرام اور سونے کا وقت ہوتا ہے، مؤمن ذوق و شوق سے ان کو ادا کرنے کے لئے حاضر ہوتے ہیں اور منافق آرام کرتے اور سوتے رہتے ہیں، گویا کہ ان دونوں نمازوں سے پیچھے رہنا نفاق کی علامت ہے، نیز یہ کہ منافق کو صرف دنیاوی لالچ ہے اور مؤمن آخرت کو ترجیح دیتے ہیں۔