الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
207. باب في الْوِتْرِ:
207. وتر کا بیان
حدیث نمبر: 1615
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ هُوَ ابْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَاشِدٍ الزَّوْفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُرَّةَ الزَّوْفِيِّ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ الْعَدَوِيِّ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:"إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَمَدَّكُمْ بِصَلَاةٍ هِيَ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، جَعَلَهُ لَكُمْ فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ".
سیدنا خارجہ بن حذافہ عدوی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک نماز اور بڑھا دی ہے جو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے، اس کا وقت عشاء اور طلوعِ فجر کے درمیان ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1615]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1617] »
اس روایت کی سند میں کلام ہے، لیکن مجموع طرق سے حسن کے درجے تک پہنچ سکتی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1418] ، [ترمذي 452] ، [ابن ماجه 1168] ، [شرح معاني الآثار 430/1] ، [المعجم الكبير للطبراني 4136] ، [دارقطني 30/2، وغيرهم]

وضاحت: (تشریح حدیث 1614)
ابوداؤد و ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ جو نماز سرخ اونٹوں سے بہتر ہے وہ نماز وتر ہے۔
اس سے قیام اللیل یا وتر کی اہمیت ثابت ہوئی۔

حدیث نمبر: 1616
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ ابْنَ مُحَيْرِيزٍ الْقُرَشِيَّ ثُمَّ الْجُمَحِيَّ أَخْبَرَهُ وَكَانَ يَسْكُنُ بِالشَّامِ، وَكَانَ أَدْرَكَ مُعَاوِيَةَ، أَنَّ الْمُخْدَجِيَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِي كِنَانَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ الشَّامِ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، يُكْنَى أَبَا مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ الْوِتْرَ وَاجِبٌ، فَرَاحَ الْمُخْدَجِيُّ إِلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ. فَقَالَ عُبَادَةُ: كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ عَلَى الْعِبَادِ، مَنْ أَتَى بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْ حَقِّهِنَّ شَيْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّهِنَّ، كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَمْ يَأْتِ بِهِنَّ، جَاءَ وَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ، أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ".
ابن محیریز قرشی جمحی نے جو کہ ملک شام میں رہتے تھے، انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا۔ انہوں نے خبر دی کہ بنوکنانہ کے ایک آدمی مخدجی نے انہیں بتایا کہ ملک شام میں ایک شخص جن کی کنیت ابومحمد تھی اور جو صحابی تھے، انہوں نے کہا کہ وتر واجب ہے، مخدجی سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور یہ بات ان سے ذکر کی تو سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابومحمد نے جھوٹ کہا، میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: پانچ نمازیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کیا، جو شخص ان نمازوں کو لے کر آئے گا اس حال میں کہ ان کا پورا حق ادا کیا ہو، کسی قسم کی ادائیگی میں کمی نہ کی ہو، تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا عہد ہے کہ اس کو جنت میں داخل کر دے، اور جو شخص ان نمازوں کو نہیں لے کر آیا (یعنی اہمیت نہ سمجھتے ہوئے نمازوں کو ترک کیا) تو الله تعالیٰ کا کوئی عہد و قرار نہیں ہے، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اس کو جنت میں داخل کر دے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1616]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1618] »
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1420] ، [نسائي 460] ، [ابن ماجه 1401] ، [الطيالسي 254]

وضاحت: (تشریح حدیث 1615)
یعنی تارک صلاة تحت مشيۃ الله تعالیٰ ہے، اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے بخش دے اور چاہے تو عذاب میں مبتلا کر دے، مطلب یہ کہ وہ بڑے خطرے میں ہے، حدیث صحیح میں ہے: جو جان بوجھ کر نماز ترک کر دے اس نے کفر کیا، اور کافر جنّت میں نہیں جائے گا۔

حدیث نمبر: 1617
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ نَافِعِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَائِرَ الرَّأْسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَاذَا فَرَضَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ الصَّلَاةِ؟ قَالَ: "الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَالصِّيَامَ"، فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرَائِعِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: وَالَّذِي أَكْرَمَكَ لَا أَتَطَوَّعُ شَيْئًا، وَلَا أَنْقُصُ مِمَّا فَرَضَ اللَّهُ عَلَيَّ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَفْلَحَ وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ، أَوْ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ".
سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے میرے اوپر کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ فرمایا: پانچ نمازیں اور روزه (بھی) فرض کیا ہے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دین کے احکام بتلائے، پس اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو عزت بخشی میں ان فرائض میں کوئی کمی و بیشی نہیں کروں گا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے باپ کی قسم اگر اس نے سچے دل سے یہ کہا ہے تو کامیاب ہو گیا۔ ... یا یہ فرمایا: قسم اس کے باپ کی اگر سچ کہا ہے تو جنت میں داخل ہو گیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1617]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1619] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 46 وغيرها] ، [مسلم: الايمان 11] ، [أبوداؤد 391] ، [نسائي 457] ، [ابن حبان 1724، 3262] ، [ابن خزيمه 306، وغيرهم]

وضاحت: (تشریح حدیث 1616)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ارکانِ اسلام میں صرف فرائض پر عمل کیا اور ان میں کوئی کمی و زیادتی نہ کی تو کامرانی سے ہمکنار ہو کر جنّت میں داخل ہو گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باپ کی قسم کھا کر تاکیداً ایسا فرمایا حالانکہ باپ کی قسم کھانے سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ صحیحین بخاری و مسلم میں صرف «أفلح أن صدق» اور «دخل الجنة أن صدق» آیا ہے، یہ قسم اصح الروایات میں نہیں، نیز یہ کہ ہو سکتا ہے یہ قسم ممانعت سے پہلے کی ہو، بہرحال اللہ کے سوا باپ یا کسی کی بھی قسم کھانا حرام ہے، امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا: یہ قسم نہیں بلکہ عربی کا محاورہ ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاورةً ایسا کہا تھا۔
(واللہ اعلم)

حدیث نمبر: 1618
حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ ضَمْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا، يَقُولُ:"إِنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَالصَّلَاةِ، وَلَكِنَّهُ سُنَّةٌ، فَلَا تَدَعُوهُ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وتر (فرض) نماز کی طرح واجب نہیں ہے، لیکن یہ سنت ہے اور اسے چھوڑو نہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1618]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إلى علي، [مكتبه الشامله نمبر: 1620] »
یہ روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر موقوف اور صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1416] ، [ترمذي 453] ، [نسائي 1676] ، [أبويعلی 317]

وضاحت: (تشریح حدیث 1617)
ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ فرض نمازیں صرف پانچ ہیں، ان کے علاوہ سب سنن و نوافل ہیں، اور فرض نماز کی طرح وتر یا کوئی اور نماز واجب نہیں جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، لیکن وتر کی نماز کو چھوڑنا نہیں چاہئے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر و حضر میں کبھی وتر کو چھوڑا نہیں ہے، پس پیرویٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہے کہ ہمیشہ وتر کی ادائیگی پر مداومت کی جائے، اگر اخیر رات میں ہو تو افضل ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ تر آخر اللیل ہی میں پڑھا ہے، اور اگر عشاء کے بعد پڑھ لیں تو بھی جائز ہے۔