الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب الزكاة
زکوٰۃ کے مسائل
15. باب لِمَنْ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ:
15. صدقہ لینا کس کے لئے درست ہے اس کا بیان
حدیث نمبر: 1677
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ رَيْحَانَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: يَعْنِي: قَوِيٍّ.
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ غنی (مالدار) کے لئے صدقہ لینا حلال ہے اور نہ طاقت ور مضبوط آدمی کے واسطے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: «سوي» کے معنی قوی کے ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الزكاة/حدیث: 1677]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح ريحان بن يزيد قال أبو حاتم في ((الجرح والتعديل)) 517/ 3 ((شيخ مجهول))، [مكتبه الشامله نمبر: 1679] »
اس روایت کی سند اور یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1634] ، [ترمذي 652] ، [الطيالسي 842] ، [أحمد 192/2] ، [الحاكم 407/1] ، [أبويعلی 3290] ، [ابن حبان 3290] ، [موارد الظمآن 806، وغيرهم]

وضاحت: (تشریح حدیث 1676)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ غنی اپنے مال میں سے کھائے اور ہٹا کٹا محنت مزدوری کر کے کھائے اور دستِ سوال دراز نہ کرے۔

حدیث نمبر: 1678
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ سَأَلَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَفِي وَجْهِهِ خُمُوشٌ أَوْ كُدُوحٌ أَوْ خُدُوشٌ". قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْغِنَى؟ قَالَ:"خَمْسُونَ دِرْهَمًا أَوْ قِيمَتُهَا مِنْ الذَّهَبِ".
سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو غنی ہوتے ہوئے مانگے وہ قیامت کے دن چہرے پر زخموں کے نشان لئے ہوئے آئے گا، عرض کیا گیا: مالداری کی حد کیا ہے؟ فرمایا: پچاس درہم یا اسی کے مساوی سونا۔ [سنن دارمي/من كتاب الزكاة/حدیث: 1678]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1680] »
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1626] ، [ترمذي 650] ، [نسائي 2591] ، [ابن ماجه 1840] ، [أبويعلی 5217، وغيرهم]

وضاحت: (تشریح حدیث 1677)
یعنی جس کے پاس 50 درہم یا اتنی ہی قیمت کا سونا ہو تو وہ غنی ہے اور اس کو مانگنا جائز نہیں۔
خموش، خدوش، کدوح سب کے معنی تقریباً ایک ہیں، بعض لوگوں نے کہا خموش: کھال چھلنا ناخون سے، خدوش: کھال چھلنا لکڑی سے، اور کدوح: کھال چھلنا دانتوں سے۔

حدیث نمبر: 1679
أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ.
اس دوسری سند سے بھی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الزكاة/حدیث: 1679]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1681] »
اس کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [المعرفة و التاريخ للفسوي 98/3]

وضاحت: (تشریح حدیث 1678)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ غنی اور طاقت ور آدمی کے لئے مانگنا جائز نہیں، اور دوسری حدیث کے مطابق غنی وہ ہے جس کے پاس پچاس درہم ہو، بعض علماء نے کہا: جس کے پاس صبح شام ایک دن کے کھانے کی استطاعت ہو، بعض علماء نے کہا کہ جو صاحبِ نصاب ہو وہ غنی ہے، بہرحال مانگنا بری چیز ہے اس سے بچنا چاہیے۔
محنت اور ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی کمائی نہیں ہے، اور پیسے ہونے کے باوجود جو شخص اپنے لئے دستِ سوال دراز کرے وہ قیامت کے دن چھلے ہوئے زخمی چہرے کے ساتھ اٹھایا جائے گا، ایک حدیث ہے کہ اس کے چہرے پر گوشت ہی نہ ہوگا۔