الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب المناسك
حج اور عمرہ کے بیان میں
19. باب مَا يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ في إِحْرَامِهِ:
19. احرام کی حالت میں محرم کا جن جانوروں کو مار ڈالنا جائز ہے
حدیث نمبر: 1854
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "خَمْسٌ لَا جُنَاحَ فِي قَتْلِ مَنْ قُتِلَ مِنْهُنَّ: الْغُرَابُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ جانور ہیں جن کے قتل کرنے میں کوئی گناہ نہیں: کوا، چوہیا، چیل، بچھو، اور کالا کتا (کٹ کھنا کتا)۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1854]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1857] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے دیکھئے: [بخاري 1826] ، [مسلم 1199] ، [نسائي 2835] ، [أبويعلی 5428] ، [ابن حبان 3961] ، [الحميدي 631]

وضاحت: (تشریح حدیث 1853)
صحیح حدیث میں صراحت ہے کہ مذکورہ بالا پانچوں موذی جانوروں کو حل و حرم میں ہر جگہ قتل کیا جاسکتا ہے، یہ حدیث آگے آ رہی ہے اور نسائی میں ہے پانچ جانور ہیں جن کے مار ڈالنے میں محرم پر کوئی گناہ نہیں۔

حدیث نمبر: 1855
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:"أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ خَمْسِ فَوَاسِقَ فِي الْحِلِّ وَالْحَرَمِ: الْحِدَأَةِ، وَالْغُرَابِ، وَالْفَأْرَةِ، وَالْعَقْرَبِ، وَالْكَلْبِ الْعَقُورِ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: الْكَلْبُ الْعَقُورُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: الْأَسْوَدُ.
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ موذی جانوروں کو حل و حرم میں مار ڈالنے کا حکم دیا: چیل، کوا، چوہیا، بچھو اور کالا یا کاٹنے والا کتا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: بعض رواۃ نے «الكلب العقور» کہا اور بعض نے «الكلب الاسود» ۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1855]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1858] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1829، 3314] ، [مسلم 1198] ، [ترمذي 837] ، [نسائي 2890]

حدیث نمبر: 1856
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: إِنَّ مَعْمَرًا كَانَ يَذْكُرُهُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ وعُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سالم نے اپنے والد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی طرح مرفوعاً روایت کیا۔ [سنن دارمي/من كتاب المناسك/حدیث: 1856]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 1859] »
اس روایت کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [أبويعلی 4503] ، [ابن حبان 5632، 5633] ، [مصنف عبدالرزاق 8374]

وضاحت: (تشریح احادیث 1854 سے 1856)
حدودِ حرم میں قتل و غارتگری جائز نہیں لیکن ایذا دینے والے جانور درندے اس سے مستثنیٰ ہیں، انہیں ہر جگہ ہر حال میں مارنا درست ہے۔
مولانا راز صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: یہ پانچوں جانور جس قدر بھی موذی ہیں ظاہر ہے ان کی ہلاکت کے حکم سے حضرت شارع علیہ السلام نے بنی نوع انسان کے مالی، جسمانی، اقتصادی، غذائی بہت سے مسائل کی طرف رہنمائی فرمائی ہے، کوا، چیل (چھپٹا مارنے) ڈاکہ زنی میں مشہور ہیں، اور بچھو اپنی نیش زنی (ڈنک مارنے میں)، چوہا انسانی صحت کے لئے مضر، پھر غذاؤں کے ذخیروں کا دشمن، اور کاٹنے والا کتا صحت کے لئے انتہائی خطرناک، یہی وجہ ہے جو ان کا قتل ہر جگہ جائز ہوا۔
[شرح بخاري 1829] ۔
مسلم شریف میں سانپ کا بھی ذکر ہے، لہٰذا یہ چھ موذی جانور قتل الموذی قبل الايذاء کے قاعدے کے تحت واجب القتل ہیں، اسی طرح وہ جانور ہیں جو اس زمرے میں آتے ہیں، جیسے شیر چیتا وغیرہ، اور بعض فقہاء نے کلب کی تعریف میں بھیڑیئے کو بھی داخل کیا ہے، واللہ اعلم۔