الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب الاضاحي
قربانی کے بیان میں
9. باب السُّنَّةِ في الْعَقِيقَةِ:
9. عقیقہ میں سنت طریقہ کا بیان
حدیث نمبر: 2005
أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، عَنْ حَبِيبَةَ بِنْتِ مَيْسَرَةَ بْنِ أَبِي خُثَيْمٍ، عَنْ أُمِّ كُرْزٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،، قَالَ فِي الْعَقِيقَةِ: "عَنْ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ، وَعَنْ الْجَارِيَةِ شَاةٌ".
سیدہ ام کرز رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقہ کے بارے میں فرمایا: لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ہیں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کفایت کرتی ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2005]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2009] »
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2834] ، [ترمذي 1516] ، [نسائي 4227] ، [ابن ماجه 3162] ، [ابن حبان 5313] ، [موارد الظمآن 1060] ، [مسند الحميدي 349]

وضاحت: (تشریح حدیث 2004)
نومولود بچے بچی کی پیدائش کے ساتویں دن جو قربانی کی جاتی ہے اس کو عقیقہ کہتے ہیں، جو ساتویں دن سنّت ہے۔
بعض علماء نے واجب اور بعض نے مستحب کہا ہے، پہلا قول اصح ہے جیسا کہ حدیثِ مذکور میں وارد ہے، لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنی سنّت ہے، مجبوری میں لڑکے کی طرف سے ایک بکری بھی ذبح کی جاسکتی ہے، سنّت طریقہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں ریا و نمود اور اسراف و تبذیر سے بچا جائے تاکہ رحمت کے بجائے یہ سنّت زحمت نہ بنے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے قربانی کی طرح عقیقہ میں بھی بے عیب جانور کی قید لگائی ہے، نیز یہ کہ عقیقے میں اونٹ، گائے وغیرہ بھی ذبح کی جا سکتی ہے۔
(وحیدی)۔

حدیث نمبر: 2006
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَةٌ، فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ الدَّمَ، وَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذَى".
سیدنا سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لڑکے کے ساتھ عقیقہ لگا ہوا ہے سو تم اس کی طرف سے جانور ذبح کرو، اور اس کی گندگی دور کرو۔ (یعنی بال منڈاؤ اور ختنہ کراؤ اور غسل دو)۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2006]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إن كانت حفصة سمعته من سلمان. والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2010] »
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5472] ، [أبوداؤد 2839] ، [ترمذي 1515] ، [نسائي 4225] ، [ابن ماجه 3164] ، [الحميدي 842] ، [نيل الأوطار 223/5-227]

حدیث نمبر: 2007
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ سِبَاعِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أُمِّ كُرْزٍ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَنْ الْغُلَامِ شَاتَانِ مِثْلَانِ، وَعَنْ الْجَارِيَةِ شَاةٌ".
سیدہ ام کرز رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2007]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2011] »
تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

حدیث نمبر: 2008
أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، أَنّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "كُلُّ غُلَامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ يُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهِ، وَيُحْلَقُ وَيُدَمَّى". وَكَانَ قَتَادَةُ يَصِفُ الدَّمَ، فَيَقُولُ: إِذَا ذُبِحَتْ الْعَقِيقَةُ، تُؤْخَذُ صُوفَةٌ فَيُسْتَقْبَلُ بِهَا أَوْدَاجُ الذَّبِيحَةِ، ثُمَّ يُوضَعُ عَلَى يَافُوخِ الصَّبِيِّ حَتَّى إِذَا سَالَ شَبَهُ الْخَيْطِ، غُسِلَ رَأْسُهُ، ثُمَّ حُلِقَ بَعْدُ. حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: وَيُسَمَّى. قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَلَا أُرَاهُ وَاجِبًا.
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے روایت کیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر لڑکا اپنے عقیقے میں گروی ہے، اس کی طرف سے ساتویں دن قربانی کی جائے، اس کے بال مونڈے جائیں اور خون (اس کے سر پر) لگایا جائے۔ راوی حدیث امام قتادہ رحمہ اللہ خون لگانے کا طریقہ اس طرح بتاتے تھے کہ جب جانور ذبح کیا جائے تو اس کے بالوں (اون) میں سے ایک ٹکڑا لیا جائے اور جانور کی رگوں پر رکھ دیا جائے، پھر وہ ٹکڑا نومولود بچے کی چندیا پر رکھ دیا جائے یہاں تک کہ دھاگوں کی طرح اس بچے کے سر سے خون بہنے لگے، پھر اس کا سر دھویا جائے، اس کے بعد بچے کے بال مونڈے جائیں۔ عفان نے کہا: ابان نے بھی ہم سے یہ حدیث بیان کی لیکن «دمي» کے بجائے «يسمي» کہا یعنی خون سے لتھیڑنے کے بجائے یہ کہا کہ اس کا نام رکھا جائے۔ (مطلب یہ کہ راوی سے اس کلمے میں سہو یا وہم ہو گیا ہے)۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: خون سے سر کو لتھیڑنا میں واجب نہیں سمجھتا۔ [سنن دارمي/من كتاب الاضاحي/حدیث: 2008]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2012] »
اس حدیث میں امام حسن بصری رحمہ اللہ کے سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے سماع میں کلام ہے، لیکن حدیث کی اصل صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5472] ، [أبوداؤد 2838] ، [ترمذي 1522] ، [نسائي 4231] ، [ابن ماجه 3165] ، [طيالسي 1117] ، [طبراني 6831] ، [مشكل الآثار 453/1] ، [الحاكم 237/4]

وضاحت: (تشریح احادیث 2005 سے 2008)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچہ جب تک اس کا عقیقہ نہ کیا گیا گروی رہتا ہے، اور عقیقہ جانور کو بھی کہتے ہیں اور کھانے پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، عقیقہ پیدائش کے ساتویں دن کرنا سنّت ہے۔
ساتویں دن نہ ہو سکے تو جب بھی موقع میسر آئے قضا کے طور پر کسی بھی دن کیا جا سکتا ہے۔
بعض علماء نے کہا ہے: ساتویں دن نہ ہو سکے تو چودہویں دن یا پھر اکیسویں دن، اس کے بعد جس دن بھی چاہے کیا جا سکتا ہے۔
عقیقہ کا گوشت تقسیم کرنا، پکا کر کھانا، دوست و احباب، عزیز و اقارب کو کھلانا مناسب ہے، ساتویں دن ہی بال کاٹنا اور ختنہ کرانا، نام رکھنا اور غسل دینا بھی سنّت ہے، بالوں کے برابر سونا چاندی ان کے ہم وزن صدقہ و خیرات کرنا بھی ثابت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سیدنا حسن و سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرنے کے لئے کہا تھا، اس حدیث میں ذبیحہ کے خون کو بچے کے سر پر لتھیڑنے کا ذکر ہے جس کا علماء نے انکار کیا ہے۔
ابوداؤد و نسائی میں بسند صحیح سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم دورِ جاہلیت میں جب بچہ پیدا ہوتا تو بکری ذبح کر کے اس کا خون بچے کے سر سے لگاتے تھے، جب الله تعالیٰ اسلام کو لایا تو ہم بکری ذبح کرتے تھے اور بچے کے سر پر زعفران لگاتے، لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ دورِ جاہلیت کی رسم تھی، ہو سکتا ہے شروع میں ایسا کیا جاتا رہا ہو لیکن بعد میں اس کا حکم منسوخ ہو گیا۔
واللہ اعلم۔