16. باب: آیت کی تفسیر ”نبی اور جو لوگ ایمان لائے، ان کے لیے اجازت نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ ان کے قرابت دار ہوں جبکہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہ دوزخی ہیں“۔
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور ان سے ان کے والد مسیب بن حزن نے کہ جب ابوطالب کے انتقال کا وقت ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے، اس وقت وہاں ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ (آپ ایک بار زبان سے کلمہ) لا الہٰ الا اللہ کہہ دیجئیے میں اسی کو (آپ کی نجات کے لیے وسیلہ بنا کر) اللہ کی بارگاہ میں پیش کر لوں گا۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ ابی امیہ کہنے لگے: ابوطالب! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اب میں آپ کے لیے برابر مغفرت کی دعا مانگتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے روک نہ دیا جائے، تو یہ آیت نازل ہوئی «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين ولو كانوا أولي قربى من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم» کہ ”نبی اور ایمان والوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں۔ اگرچہ وہ (مشرکین) رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ جب ان پر یہ ظاہر ہو چکے کہ وہ (یقیناً) اہل دوزخ سے ہیں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4675]