الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب النكاح
نکاح کے مسائل
18. باب كَمْ كَانَتْ مُهُورُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَنَاتِهِ:
18. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور آپ کی بیٹیوں کا مہر کتنا تھا؟
حدیث نمبر: 2236
أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ هُوَ: ابْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ كَمْ كَانَ صَدَاقُ أَزْوَاجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: "كَانَ صَدَاقُهُ لِأَزْوَاجِهِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً، وَنَشًّا"، وَقَالَتْ: أَتَدْرِي مَا النَّشُّ؟. قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَتْ:"نِصْفُ أُوقِيَّةٍ، فَهَذَا صَدَاقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَزْوَاجِهِ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر کتنا تھا؟ فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا مہر بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا، پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو وہ نش کیا ہے؟ عرض کیا: نہیں، فرمایا: آدھا اوقیہ، یہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2236]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن ولكن نعيما توبع عليه فيصح الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 2245] »
یہ سند حسن ہے لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1426] ، [أبوداؤد 2105] ، [نسائي 3347] ، [ابن ماجه 1886] ، [أحمد 93/6]

وضاحت: (تشریح حدیث 2235)
مسلم شریف میں ہے: یہ پانچ سو درہم ہوئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر تھا۔
اس حدیث سے ازواجِ مطہرات کے مہر کی مقدار معلوم ہوئی جو پانچ سو درہم ہوا کرتا تھا، مہر عورت کا حق ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «‏‏‏‏﴿وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً﴾ [النساء: 4] » یعنی عورتوں کو ان کے مہر کا عطیہ ادا کرو۔

مہر کتنا ہونا چاہیے اس سلسلہ میں شارع حکیم نے کوئی تحدید نہیں کی، قرآن پاک اور احادیثِ مبارکہ میں کہیں نہیں کہا گیا کہ مہر اتنا ہونا چاہیے، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مہر میں مغالاۃ نہ ہو، اتنا زیادہ نہ ہو کہ شوہر ادائیگی سے قاصر رہے۔
ایک حدیث میں ہے: «خَيْرُ الصَّدَاقَ أَيْسُرُهُ.» یعنی بہترین مہر وہ ہے جس کا ادا کرنا نہایت سہل و آسان ہو۔
[أبوداؤد وصححه الحاكم] ۔
ایک مرتبہ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خطبہ میں کہا کہ چار سو درہم سے زیادہ مہر نہ ہو، منبر سے اترتے ہی ایک عورت نے کہا: اے عمر! اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے: «﴿وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا﴾ [النساء: 20] » اور تم نے ان کو ڈھیر سارا (مہر) دیا ہو۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ! مجھے معاف فرما، اور منبر پر آئے اور فرمایا: اے لوگو! میں نے چار سو درہم سے زیادہ مہر دینے کومنع کیا تھا، جو جتنا چاہے اپنے مال میں سے عورت کو مہر ادا کرے۔
[رواه سعيد بن منصور فى السنن و أبويعلى بسند جيد] ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر گرچہ پانچ سو درہم تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر کے بدلے آزادی، لوہے کی انگوٹھی، قرآن سکھانے پر بھی نکاح کرا دیا اور آزادیٔ تعلیم القرآن، لوہے کی انگوٹھی یا جوتے تک کو مہر قرار دیا، اس لئے علمائے کرام نے ہر وہ چیز جس سے منفعت حاصل ہو اس کا مہر ہونا جائز قرار دیا ہے۔
مہر میں دس یا تیس یا کم و بیش درہم کی تحدید بھی درست نہیں، بعض مما لک ہندوستان، پاکستان وغیرہ میں پانچ سو درہم کے مساوی روپئے جو کسی زمانے میں سوا سو روپے ہوا کرتے تھے، اس کو سنّت مان کر سوا سو روپے کا مہر رکھنا یہ بھی درست نہیں، بلکہ مہر فریقین کی مرضی سے شوہر کی حیثیت کے مطابق اور وقت اور حالات کی مناسبت سے ہونا چاہیے، فی زمانہ سو روپئے کی کوئی قیمت نہیں اس لئے ہزار دو ہزار پانچ ہزار روپئے اگر شوہر کی حیثیت سے زیادہ نہ ہوں تو اتنا مہر رکھنے میں کوئی حرج ان شاء اللہ نہیں، ہاں اگر دولہا غریب ہے، اتنی رقم ادا نہیں کر سکتا تو مہر کم ہی رکھنا چاہے، ایسا نہیں کہ لاکھ دو لاکھ کا مہر صرف نام کے لئے رکھا جائے اور شوہر اسے زندگی بھر ادا نہ کرے، مہر کی دو قسمیں ہیں: مؤجل اور معجّل، مؤجل: یعنی تأخیر سے، کچھ دخول سے پہلے اور کچھ بعد میں ادا کیا جا سکتا ہے۔
معجّل: فوری طور پر پہلی ملاقات کے وقت ہی دینا چاہیے۔
اور مہر میں جو رقم دی جائے وہ صرف عورت (بیوی) کا حصہ ہے، اس میں باپ یا خاوند کا کوئی حصہ نہیں، عورت جو چاہے جس طرح چاہے خرچ کر سکتی ہے۔

حدیث نمبر: 2237
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمّ قَالَ: "أَلَا لَا تُغَالُوا فِي صُدُقِ النِّسَاءِ، فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا، أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ، كَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَصْدَقَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ فَوْقَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً، أَلَا وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيُغَالِي بِصَدَاقِ امْرَأَتِهِ حَتَّى يَبْقَى لَهَا فِي نَفْسِهِ عَدَاوَةٌ حَتَّى يَقُولَ: كَلِفْتُ علَيْكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ أَوْ عَرَقَ الْقِرْبَةِ".
ابوعجفاء سلمی نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: خبردار غلو اور زیادتی نہ کیا کرو عورتوں کے مہر میں، کیونکہ اگر (مہر میں غلو) دنیا میں عزت و شرف کا اور الله تعالیٰ کے نزدیک پرہیزگاری کا سبب ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم سب سے پہلے اس بات کے مستحق ہوتے (یعنی بیویوں اور بیٹیوں کا مہر زیادہ رکھتے) حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کا اور کسی لڑکی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں رکھا، خبردار، سنو! تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے مہر میں غلو اور زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل میں بیوی کی طرف سے عداوت ہو جاتی ہے اور وہ کہنے لگتا ہے: میں نے تیرے لئے تکلیف اٹھائی جو مشک کی رسی اٹھانے کی طرح ہے یا مجھے پسینہ آیا مشک کے پانی کی طرح۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2237]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2246] »
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2105] ، [نسائي 3347] ، [ابن ماجه 1886] ، [ابن حبان 4620] ، [موارد الظمآن 1259]

وضاحت: (تشریح حدیث 2236)
«عِلْقَ الْقِرْبَةِ» یا «عَرَقَ الْقِرْبَةِ» عربی زبان کا محاورہ ہے جس کا مقصود ہے کہ میں نے تمہارے لئے بڑی مشقت اٹھائی اور مجھے دانتوں پسینہ آ گیا۔
امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اس تقریر سے ثابت ہوا کہ مہر میں غلو اور زیادتی بالکل مستحسن نہیں، ہر کام اور ہر چیز میں عدل و میانہ روی ہی بہتر ہے، اور ان کا کہنا بالکل صحیح ہے کہ اگر زیادہ مہر اچھائی ہوتی تو ہادیٔ اسلام کیوں اس میں کمی و کوتاہی کرتے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مہر میں زیادتی رنجش و عداوت اور لڑائی جھگڑے کا پیش خیمہ ہوتی ہے، لہٰذا شخصیت اور عادت و عرفِ عام کے مطابق مہر ہونا چاہیے۔
«(واللّٰه أعلم وعلمه أتم)»