الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب النكاح
نکاح کے مسائل
48. باب مَا يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ:
48. رضاعت سے جو حرام ہو جاتے ہیں ان کا بیان
حدیث نمبر: 2284
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا كَانَتْ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ، فَسَمِعَتْ صَوْتَ إِنْسَانٍ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُ صَوْتَ إِنْسَانٍ فِي بَيْتِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُرَاهُ فُلَانًا لِعَمِّ حَفْصَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ"، قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَوْ كَانَ فُلَانٌ حَيًّا لِعَمِّهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ دَخَلَ عَلَيَّ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"نَعَمْ، يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: وہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں کہ ایک آدمی کی آواز سنی اور کہا: یا رسول! میں نے آپ کے گھر میں کسی آدمی کے داخل ہونے کی آواز سنی ہے؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا خیال ہے وہ فلاں آدمی ہوگا۔، وہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! میرے رضائی چچا اگر زندہ ہوتے تو وہ میرے گھر میں آ سکتے تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، رضاعت سے بھی ویسی ہی حرمت ثابت ہوتی ہے جیسی ولادت سے ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2284]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع، [مكتبه الشامله نمبر: 2293] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2646] ، [مسلم 1444] ، [نسائي 3313] ، [أبويعلی 4374]

وضاحت: (تشریح حدیث 2283)
یعنی جس طرح ولادت کی وجہ سے بھائی بہن ہوتے ہیں، دودھ پینے کی وجہ سے بھی بھائی بہن بن جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے محرم ہوتے ہیں جن کا آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا۔
رضاعت کے باب میں یہ پہلی حدیث ہے اور اس کا مطلب ظاہر ہے۔
رضاعت سے مراد عورت کے پستان سے بچے کا مخصوص مدت میں دودھ چوس کر پینا ہے، اور دودھ پینے اور پلانے والی کی حرمت کا یہی سبب اور ثبوت ہے، اس سے دودھ پینے والا بچہ پلانے والی کا بچہ قرار پاتا ہے، اور وہ بچے کی رضاعی ماں کہلاتی ہے، اب اس عورت سے ہمیشہ کے لئے اس کا نکاح حرام ہے، پھر یہ حرمت دودھ پینے والے کی اولاد میں اور دودھ پینے اور پلانے والی کی اولاد، اور اس کے شوہر کی اولاد یا اس کے آقا کی اولاد جس سے اس نے وطی کی ہوگی پرمشتمل ہوگی۔
(مبارکپوری رحمہ اللہ)۔
اس حدیث سے ایک سوکن کا دوسری سوکن کے گھر جانا، اخلاق و محبت سے رہنا ثابت ہوا، اور رضاعی چچا کی حرمت ثابت ہوئی، اور عام قاعدہ معلوم ہوا کہ جو رشتے نسلاً حرام ہیں رضاعت سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔
اور امّت کا اس پر اجماع ہے۔

حدیث نمبر: 2285
أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ: أَنَّ عَمَّهَا أَخَا أَبِي الْقُعَيْسِ جَاءَ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهَا بَعْدَمَا ضُرِبَ الْحِجَابُ، فَأَبَتْ أَنْ تَأْذَنَ لَهُ حَتَّى يَأْتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْتَأْذِنَهُ، فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَتْ: جَاءَ عَمِّي أَخُو أَبِي الْقُعَيْسِ فَرَدَدْتُهُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَكَ، قَالَ: "أَوَ لَيْسَ بِعَمِّكِ؟"، قَالَتْ: إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِيَ الْمَرْأَةُ وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، فَقَالَ:"إِنَّهُ عَمُّكِ فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ"، قَالَ: وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ ان کے (رضاعی) چچا ابوقعیس کے بھائی (افلح) حکم حجاب کے بعد ان کے پاس آئے، داخل ہونے کی اجازت چاہتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کریں، پھر جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے اس کا تذکرہ کیا اور عرض کیا کہ میرے رضاعی چچا ابوقعیس کے بھائی آئے (اور اندر آنے کی اجازت چاہی) تو میں نے انہیں واپس کر دیا یہاں تک کہ آپ سے پوچھ نہ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وہ تمہارے رضاعی چچا نہیں ہیں؟ عرض کیا: مجھے عورت نے دودھ پلایا تھا آدمی نے نہیں (پھر آدمی یعنی ابوقعیس یا ان کے بھائی کی حرمت کیسے ثابت ہوئی؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ (افلح) تمہارے چچا ہوئے، وہ تمہارے پاس اندر آ سکتے ہیں۔ عروہ نے کہا: اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں: جو ولادت سے حرام ہوتا ہے وہی رضاعت سے بھی حرام ہوتا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2285]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2294] »
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2644] ، [مسلم 1445][ترمذي 1148] ، [أبويعلی 4501] ، [ابن حبان 4109]

وضاحت: (تشریح حدیث 2284)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچہ جس عورت کا دودھ پی لے اس کا شوہر دودھ پینے والے کا باپ ہوگا، اب جو رشتے ماں باپ کی جانب سے حرام ہوتے ہیں وہ دودھ سے بھی حرام ہو جائیں گے۔
افلح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے چچا اس لئے ہوئے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابوالقعیس کی بیوی کا دودھ پیا تھا۔
اور دودھ کی پیدائش میں مرد و عورت دونوں کے نطفے کا دخل ہوتا ہے، اس لئے رضاعت بھی دونوں کی جانب سے ہوئی، اس لئے حرمت بھی ثابت ہوگئی۔
(شرح بلوغ المرام للشیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ)۔

حدیث نمبر: 2286
أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا يَحْرُمُ مِنَ الْوِلَادَةِ".
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو (رشتے) ولادت سے حرام ہو جاتے ہیں وہی رضاعت سے بھی حرام ہوتے ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2286]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع، [مكتبه الشامله نمبر: 2295] »
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1442] ، [نسائي 3302] ، [أبويعلی 4374]

حدیث نمبر: 2287
قَالَ مَالِكٌ: وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مثلِ سابق روایت ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب النكاح/حدیث: 2287]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو عند مالك في الرضاع، [مكتبه الشامله نمبر: 2296] »
تخریج اور ترجمہ اوپر گذر چکا ہے۔ مزید دیکھئے: [الموطأ للإمام مالك، كتاب الرضا ع 1]

وضاحت: (تشریح احادیث 2285 سے 2287)
ان تمام روایات کے پیشِ نظر امّت کا اجماع ہے اس پر کہ دودھ حرام کر دیتا ہے جیسے ولادت حرام کر دیتی ہے، یعنی دودھ پلانے والی دودھ پینے والے کی ماں ہو جاتی ہے، اور ان میں نکاح ابداً حرام ہو جاتا ہے، اور دودھ پینے والے کو دیکھنا اس کا حلال ہو جاتا ہے، اور خلوت اور سفر کرنا اس کے ساتھ درست ہوتا ہے، اور ان کے سوا اور احکام ماں ہونے کے جاری نہیں، یعنی ماں کی طرح وہ لڑکے کی وارث نہیں ہوتی، نہ لڑکا اس کا وارث ہوتا ہے، اور نہ کسی کا نفقہ دوسرے پر واجب ہوتا ہے مثل ماں کے، اور نہ لڑکے کی گواہی اس پر رد کی جاتی ہے، اور نہ رضاعی ماں سے قصاص ساقط ہوتا ہے، اگر دودھ کے بچے کو مار ڈالے۔
غرض ان حکموں میں وہ دونوں مثل اجنبی کے ہیں، اور اسی طرح اجماع ہے کہ حرمت نکاح کی پھیل جاتی ہے مرضعہ اور اولاد رضیع میں اور رضیع اولاد مرضعہ میں، اور اس حکم میں وہ رضیع گویا مرضعہ کی اولاد ہے، اور اسی مرضعہ کا شوہر جس کی صحبت سے یہ دودھ ہوا تھا، خواہ شوہر نکاحی ہو یا ملک یمین کی راہ سے، وہ رضیع کا باپ ہو جاتا ہے اور اس کی اولاد رضیع کی بھائی بہن ہو جاتی ہے، اور مرضعہ کے شوہر کے بھائی رضیع کے چچا ہو جاتے ہیں، اور اس کی بہن رضیع کی پھوپھیاں ہو جاتی ہیں، اور اولاد رضیع کی مرضعہ کے شوہر کی اولاد ہو جاتی ہے۔
(وحیدی، شرح مسلم 1460)۔