الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب الطلاق
طلاق کے مسائل
12. باب في إِحْدَادِ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ:
12. عورت کا اپنے شوہر کی وفات پر سوگ منانے کا بیان
حدیث نمبر: 2320
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَوْ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ أَنْ تَحِدَّ عَلَى أَحَدٍ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجِهَا".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت کے لئے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی عزیز کا سوگ منائے سوائے اپنے شوہر کے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2320]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2329] »
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1491] ، [ابن ماجه 2085] ، [أبويعلی 4424] ، [ابن حبان 4201] ، [الحميدي 229]

حدیث نمبر: 2321
أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ تُحَدِّثُ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ: أَنَّ أَخًا لَهَا مَاتَ أَوْ حَمِيمًا لَهَا فَعَمَدَتْ إِلَى صُفْرَةٍ فَجَعَلَتْ تَمْسَحُ يَدَيْهَا، وَقَالَتْ: إِنَّمَا أَفْعَلُ هَذَا لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تَحُدَّ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجِهَا، فَإِنَّهَا تَحُدُّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
زینب بنت ابی سلمہ بیان کرتی ہیں کہ ام المومنین سیدہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا کا بھائی یا اور کوئی رشتے دار فوت ہو گیا تو (تیسرے دن کما فی البخاری) انہوں نے صفره (خوشبو) منگا کر اپنے ہاتھ (اور گالوں) پر لگایا اور کہا: یہ میں نے اس لئے کیا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ شوہر کے سوا کسی اور پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، شوہر کا سوگ چار مہینے دس دن کرے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2321]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2330] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1280، 1281] ، [مسلم 1486] ، [أبوداؤد 2290] ، [ترمذي 1197، 1995] ، [نسائي 3500] ، [أبويعلی 6961] ، [ابن حبان 4304] ، [الحميدي 308]

حدیث نمبر: 2322
أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْنَبَ بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ تُحَدِّثُ عَنْ أُمِّهَا أَوْ امْرَأَةٍ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا روایت کی طرح مروی ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2322]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو مكرر سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 2331] »
ترجمہ و تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت: (تشریح احادیث 2319 سے 2322)
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ تین دن سے زیادہ کسی بھی میت کا سوگ منانا حرام ہے سوائے عورت کے کہ وہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد چار ماہ دس دن تک سوگ کی حالت میں رہے گی، اور اس میں بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں، اس سے شوہر کے ساتھ وفاداری کا پتہ چلتا ہے، میراث وغیرہ کی تقسیم اتنی مدت میں ہو سکتی ہے، استبراء رحم بھی ایک حکمت ہے۔
مذکورہ بالا حدیث سے سوگ منانے کی اجازت ثابت ہوئی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیوی روئے، پیٹے، یا کسی بھی طرح کے غیر اسلامی امور کا ارتکاب کرے، جیسے بال کٹا دینا، چوڑیاں توڑ دینا، چیخیں مارنا، بین کرنا، یہ سب غیر اسلامی امور ہیں، عدت میں سوگ منانے کا مطلب یہ ہے کہ عورت شوہر کے گھر سے نہ نکلے، چمکیلے بھڑکیلے کپڑے نہ پہنے، زیورات نہ پہنے، سرمہ نہ لگائے، خوشبو لگانے سے پرہیز کرے، اور عدت کے ایام میں شادی کرنا بھی ممنوع ہے جیسا کہ اگلے باب میں تفصیل آ رہی ہے۔
نیز ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو بھی تین دن سے زیادہ سوگ منائے اس کا ایمان الله اور آخرت پر نہیں ہے۔