الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
19. باب في الْمُحَفَّلاَتِ:
19. دودھ جمع کئے ہوئے جانور کی بیع کا بیان
حدیث نمبر: 2589
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ هُوَ: ابْنُ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنِ اشْتَرَى شَاةً مُصَرَّاةً أَوْ لَقْحَةً مُصَرَّاةً، فَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَإِنْ رَدَّهَا، رَدَّ مَعَهَا صَاعًا مِنْ طَعَامٍ لَا سَمْرَاءَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دودھ جمع کی ہوئی بکری یا اونٹنی خریدے اس کو تین دن کا اختیار ہے (چاہے تو اس بکری یا اونٹنی، گائے وغیرہ کو واپس کر دے)، اگر اس کو واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھانے کی چیز گیہوں کے علاوہ واپس کرے۔ [سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2589]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2595] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2150] ، [مسلم 1524] ، [ترمذي 1252] ، [أبويعلی 6049] ، [ابن حبان 4970] ، [الحميدي 1058]

وضاحت: (تشریح احادیث 2586 سے 2589)
«لِقْحَة و مُصَرَّاة» وہ بکری، بھیٹر، اونٹنی، گائے یا بھینس ہے جس کا دودھ نہ نکالا جائے، تاکہ وہ تھنوں میں جمع ہوتا رہے اور کثیر مقدار میں معلوم ہو، خریدار کو دھوکہ ہو جائے اور وہ سمجھے کہ یہ تو بڑا دودھیل جانور ہے، اور خریدار جھانسے میں آ کر زیادہ قیمت دینے پر آمادہ ہو جائے۔
ایسی صورت میں خریدار کو اختیار ہے تین دن تک چاہے تو اس جانور کو اپنے پاس رکھے اور چاہے تو بیچنے والے کو واپس کر دے، لیکن ساتھ میں ایک صاع کھجور وغیرہ بھی دے گا جو اس ملک کی عام خوراک ہو گیہوں کے علاوہ، تاکہ جانور سے حاصل شدہ دودھ کا معاوضہ ہو جائے اور فریقین میں جھگڑا نہ رہے۔
جمہور علماء کے نزدیک یہ مسئلہ ایسے ہی ہے جس طرح حدیث میں بیان کیا گیا ہے، لیکن احناف نے اس میں اختلاف کیا۔
اور قیاس سے حدیث کو نا قابلِ عمل ٹھہرایا ہے کہ خریدار کو دھوکہ دیا گیا وہ مزید جرمانہ ایک صاع کیوں ادا کرے، اور انہوں نے اس بارے میں اتنی شدت اختیار کی کہ راویٔ حدیث صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر بھپتی کسا اور طعن و تشنيع کر ڈالا کہ وہ فقیہ تو تھے نہیں اس لئے ایسی حدیث روایت کر ڈالی۔
«نعوذ باللّٰه من ذلك» .
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے [فتاوى: 538/3، 539] میں اس سے متعلق ایک عبرت آمیز واقعہ نقل کیا ہے کہ کچھ طالبِ علم اس حدیث کامذاکره و مراجعہ کر رہے تھے، کسی نے کہا: مشتری ایک صاع تمر وغیرہ کیوں واپس کرے؟ یہ تو اس پر ظلم ہے، ایک طالبِ علم نے کہا: ارے یہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو فقیہ تو تھے نہیں بس حدیث روایت کر دی، گویا اس نے صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی، اسی وقت چھت سے ایک زہریلا سانپ گرا اور اس طالب علم کو ڈسا جس نے حقارت آمیز طریقے سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام لیا تھا، اور وہ طالبِ علم اسی وقت فوت ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں صحابہ کرام کی محبت جاگزیں فرمائے اور گستاخی سے بچائے (آمین)۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ حضرات سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو سب سے بڑا فقیہ مانتے ہیں جبکہ ان سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ ایک صاع غلہ دینا ہوگا، لیکن احناف ان کی اس بات کو نہیں مانتے۔