الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
40. باب في بَيْعِ الطَّعَامِ إِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ:
40. طعام کی بیع کمی اور زیادتی کے ساتھ منع ہے
حدیث نمبر: 2612
أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ بِلَالٍ، قَالَ: كَانَ عِنْدِي مُدُّ تَمْرٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُ أَطْيَبَ مِنْهُ صَاعًا بِصَاعَيْنِ، فَاشْتَرَيْتُ مِنْهُ، فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "مِنْ أَيْنَ لَكَ هَذَا يَا بِلَالُ؟". قُلْتُ: اشْتَرَيْتُ صَاعًا بِصَاعَيْنِ. قَالَ:"رُدَّهُ وَرُدَّ عَلَيْنَا تَمْرَنَا".
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مد کھجوریں تھیں، مجھے اس سے اچھی کھجور ایک صاع دو صارع کے بدلے میں ملیں اور میں نے وہ خرید لیں اور انہیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کھجور تمہارے پاس کہاں سے آ گئیں؟ میں نے عرض کیا کہ دو صاع دیکر ایک صاع میں نے خرید لی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو واپس کر دو اور ہماری کھجور ہمیں لوٹا دو۔ [سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2612]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح إن كان مسروق سمعه من بلال، [مكتبه الشامله نمبر: 2618] »
اگر مسروق نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے سنا ہے تو یہ سند صحیح ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [شرح معاني الآثار 68/4] ، [طبراني 359/1، 1097] ، [التمهيد لابن عبدالبر 134/5، وله شاهد فى مجمع الزوائد 6638]

وضاحت: (تشریح حدیث 2611)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنس اگر ایک ہو تو اس کی بیع و شراء میں کمی یا زیادتی جائز نہیں، کیونکہ یہ عین ربا (سود) ہے، اسی لئے جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی دو صاع کھجور دے کر ایک صاع کھجور خریدی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کرا دیا، اس کی مزید وضاحت آگے آ رہی ہے۔

حدیث نمبر: 2613
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ هُوَ: ابْنُ بِلَالٍ , عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ يُحَدِّثُ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ وَأَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَاهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَخَا بَنِي عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيَّ فَاسْتَعْمَلَهُ عَلَى خَيْبَرَ، فَقَدِمَ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ. قَالَ ابْنُ مَسْلَمَةَ: يَعْنِي: جَيِّدًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا؟". قَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَشْتَرِي الصَّاعَ بِالصَّاعَيْنِ مِنَ الْجَمْعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَفْعَلُوا، وَلَكِنْ مِثْلًا بِمِثْلٍ، أَوْ بِيعُوا هَذَا، وَاشْتَرُوا بِثَمَنِهِ مِنْ هَذَا، وَكَذَلِكَ الْمِيزَانُ".
سیدنا ابوسعید خدری اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوعدی کے بھائی کو خیبر کے لئے عامل (آفیسر یا تحصیل دار) بنا کر بھیجا تو وہ وہاں سے جنيب (نامی اچھی کھجور) لے کر آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا خیبر کی سب کھجوریں ایسی ہی (عمده) ہوتی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول! سب ایسی نہیں ہوتی تھیں، ہم جمع (نامی ردی کھجور) کے دو صاع دے کر اس (جنیب) کا ایک صاع خریدتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو بلکہ اسی کے مثل برابر (تول و ناپ میں) خرید و فروخت کرو یا پھر اس کو بیچ دو اور اس کی قیمت سے جنيب (اچھی کھجور) خرید لو، اور تولنے والی اشیاء میں بھی اسی طرح سے کرو۔ [سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2613]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2619] »
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2201، 7350] ، [مسلم 1593] ، [نسائي 4568] ، [ابن حبان 5021] ، [مشكل الآثار 122/2]

وضاحت: (تشریح حدیث 2612)
یعنی یا تو اپنی جمع کھجور برابر بیچ دو یا اس کے مقابل دوسری جنس کی تول کر بیچی جانے والی چیز لے لو، پھر اس سے اچھی قسم کی کھجور خریدو، اس طرح سود اور بیاج کا شبہ نہ رہے گا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: خیبر پر جس کو عامل مقرر کیا تھا اس کا نام سواد بن غزیہ تھا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوئی جنس خواہ گھٹیا ہی کیوں نہ ہو وزن میں اسے بڑھیا کے برابر ہی وزن کرنا ہوگا، یا پھر وہ گھٹیا چیز الگ بیچ کر اس کے پیسوں سے بڑھیا جنس خرید لی جائے، اور ایک ہی جنس کو (تفاضل) کمی اور زیادتی کے ساتھ بیچنے میں سود اور بیاج کی صورت ہے جو قطعاً حرام ہے۔
واللہ اعلم۔