الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
47. باب الرُّجْحَانِ في الْوَزْنِ:
47. جھکا کر زیادہ تولنے کا بیان
حدیث نمبر: 2621
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: جَلَبْتُ أَنَا وَمَخْرَمَةُ الْعَبْدِيُّ بَزًّا مِنَ الْبَحْرَيْنِ إِلَى مَكَّةَ، فَأَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي، فَسَاوَمَنَا بِسَرَاوِيلَ أَوِ اشْتَرَى مِنَّا سَرَاوِيلَ وَثَمَّ وَزَّانٌ يَزِنُ بِالْأَجْرِ، فَقَالَ لِلْوَزَّانِ: "زِنْ وَأَرْجِحْ". فَلَمَّا ذَهَبَ يَمْشِي، قَالُوا: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سوید بن قیس سے مروی ہے کہ میں اور مخرمہ عبدی بحرین سے مکہ کی طرف کپڑا لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چلتے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے پائجاموں کا بھاؤ کیا یا ہم سے پائجامے خریدے، وہیں ایک تولنے والا تھا جو اجرت لے کر تولتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: تولو اور جھکا کر تولو (یعنی کم نہ تولو) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے گئے تو لوگوں نے کہا: یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2621]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2627] »
اس روایت کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3336] ، [ترمذي 1305] ، [نسائي 4606] ، [ابن ماجه 2220] ، [ابن حبان 5147] ، [الموارد 1444]

وضاحت: (تشریح حدیث 2620)
اس حدیث سے پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بازار میں جانا، پیدل چلنا، خرید و فروخت کرنا اور اچھی باتیں بتانا ثابت ہوا، نیز یہ کہ پائجامہ کپڑے خریدنا بھی ثابت ہوا، اور یہ کہ تولنے میں کمی نہیں کرنی چاہیے بلکہ زیادہ دینا باعث برکت ہے، کم تولنا باعثِ عذاب ہے۔
«﴿وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ . الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ . وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ﴾ [المطففين: 1-3] » ترجمہ: بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی، جو لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں، اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم کر دیتے ہیں۔
یعنی لینے اور دینے کے ان کے پاس الگ الگ پیمانے ہیں، اور ناپ تول میں ڈنڈی مارتے ہیں، یہ بڑی بری اخلاقی بیماری ہے جس کا نتیجہ دنیا و آخرت میں تباہی ہے۔
ایک حدیث ہے: جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو اس پر قحط سالی، سخت محنت اور حکمرانوں کا ظلم مسلط کر دیا جاتا ہے۔